نظاِم عبادات کا قيام
اصلاح قائد کے بعد
عملي زندگی کے ميدان ميں جس چيز کي
اولين ضرورت ہے ۔وہ
نظام عبادت کا قيام ہے۔تقويٰ کے تقاضوں
کو سمجھنے کے لئے
ضروري ہے کہ تخليق انسانيت کي علّت
معلوم کي جائے اور وہ
يہ ہے کہ:
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالاِْنْسَ اِلاَّ لِيَعْبُدُوْنَ ۔ ( الزّاريت
: ٥٦ )
" ہم نے جنّوں اور انسانوں کو نہيں پيدا کيا مگر عبادت کے لئے " ۔
عبادت کا مفہوم نہايت
وسيع ہے ۔اس ميں ہر وہ چيز آ جاتي ہے
جس کے کرنے اور باز آ
جانے سے رضائے ربّ کا پروانہ ملتا
ہو ليکن نماز، روزہ
،زکوٰۃ، اور حج اسلامي نظام عبادت کي
بنياديں ہيں۔ان ميں سے
بھي نماز کو بہت اہميت حاصل
ہے۔روزِ محشر اولين
پرسش اسي کے بارے ميں ہو گي۔
روز محشر کہ جان گداز بود
ا و لين پر سشِ نما ز بود
ذکر الٰہی ميں مشغوليت
اللہ کاذ کر دلوں کو
صاف کرتا ہے۔بد اعماليوں اور بد عقيدگيوں سے
نجات دلاتا ہے۔بے
حيائي اور فحاشي سے منع کرتا ہے۔انساني کردار
کو نکھارتا ہے۔مزاج
ميں اعتدال پيدا کرتا ہے۔سيرت ميں حسن لاتا ہے
۔طبيعت کو استغنا
بخشتا ہےاور سب سے بڑھ کر يہ کہ کثرتِ ذ کر
سے انسان قربِ الٰہي
کي منزلوں کا راہی بن جاتا ہے۔
ذکر اللہ کے بارے ميں
قرآن کا ارشاد سنيئے :۔
وَ لَذِکر اللہ ِاَ کْبَرْ۔"۔ ( العنکبوت:٤٥ )
"اللہ کا ذکر بہت بڑي شَے ہے"۔
ذکر کيا ہے؟ہر وقت
اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول کي غلامي ميں لگائے رکھنا۔تصور ميں اُس
حاکِم مطلق کو ياد کرنا،احکامِ الٰہي پر کاربند
رہنا۔قرآني تعليمات کا
پرچار کرنا يہ سبھي ذکر اللہ کي اقسام ہيں۔
حاکميتِ خداوندي پر
اگر مکمل يقين نہ ہو اور ہر فعل ميں
رضائے الٰہي کا
جوہرشامل نہ ہو تو مقصود عبادت اور مدّعائے
زيست پورا نہيں ہوتا
۔
فکرِ آخرت
ہميشہ انجام پر نگاہ
رکھنے والے لوگ ہي ہر ميدان ميں کاميابيوں
سے ہمکنار ہوتے
ہيں۔انسان کا انجام فنا نہيں بلکہ فنا کے بعد
ايسي بقا ہے جس ميں
دنيا ميں کئے جانے والے ہر عمل کے بارے
ميں باز پرس ہو گی ۔
نگہ در فرصت کے عالم دمے است
دم پيش عالم بہ از عالمے است
آخرت کي فکر کر کے
اپنے اعمال و افعال کا محاسبہ کرنا بھي
تقويٰ کا تقاضا قرار
ديا گيا ہے۔ارشاد رب العزت ہے : ۔
يٰآ َيًُھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوااللہ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسُ مّاَ
قَدَّ مَتْ لِغَدٍ
ج
وَ اتَّقُوااللہَ ط اِنَّ اللہ خَبِيْرُم بِمَ
تَعْمَلُوْنَ ہ ( الحشر:١٨ )
"اے ايمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص ديکھے کہ اس نے
کل کے لئے آگے کيا بھيجا ہے۔اللہ سے ڈرو ۔ وہ يقيناً تمہارے
اعمال سے باخبر ہے " ۔
اِس آيہ کريمہ ميں
آخرت کي زندگی کو " کل"سے تعبير کيا گيا
ہے۔گويا دنيا کي پوري
زندگي "آج" ہے۔خوش بخت ہيں وہ
لوگ جو کل کي فکر ميں
اپني چند روزہ زندگي کو اعمال
ِ صالح سے مزّين کر
رہے ہيں ۔
اصلاح معاشرہ
کون نہيں جانتا کہ
انفرادی زندگی کے اثرات اجتماعی زندگی پر
مرتّب ہوتے ہيں
۔تقویٰ جس کا تعلق اگرچہ مجموعی طور پر
فرد ہی سے ہے ليکن
اجتماعی اصلاح بھی اُسی صورت ميں
ممکن ہو سکتی ہے جب کہ
اسلامی معاشرے سے متعلق ہر
شخص متقی ہو۔
تقویٰ اگر ايک طرف
انفرادی کردارکی تعميرکر تا ہے تو دوسری
طرف اجتماعی کردار کی
تشکيل يعنی اصلاح معاشرہ کی راہيں
بھی ہموار کرتا
ہے۔دنيا ميں جتنی اخوّت اور مروّت مسلمانوں
کے درميان پائی جاتی
ہے کسی اور نظام کے پيروکاروں ميں
نہيں پائی جاتی۔يہی
وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے
" اصلاح بين المسلمين
" ( مسلمانوں کی اصلاح )
کو تقویٰ کا تقاضا
قرار ديا ہے ۔
اِنَّمَاالْمُؤمِنُوْنَ اِخْوَ ة فَاَ صْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَ يْکُمْ
وَاتَّقُوااللہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ
ہ
( الحجرات : ١٠)
"مومن آپس ميں بھائی بھائی ہيں۔پس اپنے بھائيوں ميں
اصلاح کر واور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کيا جائے "۔
تقویٰ کے اس تقاضے
يعنی مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی
درستگی کی اہميت حضور
صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے اس
ارشاد سے بھی واضح
ہوتی ہے کہ :۔
"حضرت نعمان ابن بشير
فرماتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ
عليہ وآلہ وسلم نے
ارشاد فر ماياکہ تو مومنوں کو باہمی
رحم دلی،محّبت
اورارتباط ميں ايک بدن کی مثال ديکھے گا
کہ جسم کا اگر ايک عضو
کسی تکليف ميں مبتلا ہوتا ہے تو
سارا جسم بخار اور بے
خوابی کا شکار ہو جاتا ہے۔"
ااس قسم کا ايک مضمون
حضرت ابوہريرہ رضی اللہ عنہ
رسول اللہ صلی اللہ
عليہ وآلہ وسلم سے روايت فرماتے ہيں
کہ آپ صلی اللہ عليہ
وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا : مسلمان
مسلمان کا بھائی ہوتا
ہے۔وہ نہ تو اس پر ظلم کرتا ہے اور
نہ اس کو چھوڑتاہے
اور نہ ہی اس کی تحقير کر تا ہے۔
" تقویٰ يہی ہے" سينے
کی طرف تين مرتبہ اشارہ فرمايا
۔مزيد ارشاد فرمايا:
"انسان کے لئے يہی شر کافی ہے کہ وہ
اپنے مسلم بھائی کی
تحقير کرے۔ہر مسلمان کی جان ،مال اور
عزّت دوسرے مسلمان پر
حرام ہے۔"
اتّحادِ ملت
کسی قوم کی سب سے بڑي
خوش قسمتی اور سعادت يہ
ہوتی ہے کہ اس کی صفوں
ميں مکمل اتفاق و اتحاد ہو۔افتراق
وانتشار سے اسے نفرت
ہو۔
يہی وہ نعمتِ عظٰمی ہے
جس سے قومی زندگی کو بقا حاصل
ہوتي ہے اور اسي وجہ
سے ملی عزت اور وقار پائندہ و تابندہ
رہتے ہيں۔بخلاف اس کے
تشتت وافتراق سے حياتِ مِلی خطرے
ميں پڑ جاتی ہے۔اور
قوميں تباہی کے گڑھے ميں گر جاتی ہيں
۔يہی وجہ ہے کہ قرآنِ
حکيم نے ايک مقام پرجہاں تقویٰ کا
ذ کر کيا ساتھ ہی
اتحادِ باہمی کا ذ کر کرتے ہوئےاس کے فوائد
سے آگاہ فرمايا اور
بے اتفاقی کو جہنم کا گڑھا قرار ديا۔
يٰآَ يّھُاَ الَّذِ يْنَ اٰمَنُوْ ااتَّقُوااللہَ حَقَّ تُقٰتِہ وَلاَ
تَمُوْ تُنَّ اِلّاَ وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ
ہ
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعاً وَّ لَا تَفَرَّ قُوْا وَاذْ کُرُ
وْا نِعْمَتِ
اللہِ عَلَيْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَ آ ٕ فَاَ لَّفَ بَيْنَ قُلُوْ
بِکُمْ فَاَ صْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہ
اِخْوَاناً ج وَکُنْتُمْ عَلٰٰی شَفَا حُضْرَة مِّنَ النَّارِ
فَاَ نْقَذَ کُمْ مِنْھَا ط
کَذَالِکَ يُبَيِّنُ اللہُ لَکُمْ اٰ يٰتِہ لَعَلَّکُمْ
تَھْتَدُوْنَ ہ ( آل عمران : ١٠١ تا ١٠٣ )
" اے ايمان والو ! ڈرو اللہ سے جيسے کہ اس سے ڈرنے کا حق
ہے۔اور نہ مرو مگر مسلمان ہی ہو کر۔اللہ کی رسیّ کو مضبوطی
سے تھام لو،اور تفرقہ نہ کرو۔اللہ کی اس نعمت کو ياد کر و جب
تم ايک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں ميں
ايک دوسرے کے لئے محبت پيدا کی اور تم اس کے احسان
سے بھائی بھائی ہو گئے۔تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر
کھڑے تھے۔پس اس نے اس سے بچايا۔اسی طرح اللہ تعالٰی
تمہاری ہدايت کے لئے اپنی آيتيں بيان فرماتا ہے ۔
ہر وہ قوم جو اپنے
مقصدِ حيات سے منحرف ہو کر اصولوں کو ترک
کرکے جزئيات و فروعات
ميں الجھنے کی کوشش کرتی ہے اس کے
ہاں بگاڑ کا ہونا
ناگزير ہو جاتا ہے اور جب کوئی ملّت تفرقہ کا شکار
ہو جائے تو اس کی
اصلاح و تعمير کا ہر امکان معدوم ہو جاتا ہے ۔
مسلمان کئي بار اس
الہامی اصول کے نتائج و عواقب ديکھ
چکے ہيں
۔چودہ سوسال کی تاريخ
ميں کئی بار ايسے ہوا کہ لوگ باہمی
عداوتوں کا شکار ہوئے
۔ رائے کے اختلاف سے بڑھتے بڑھتے
پہلے مکتب خيال بنے
پھر فرقے بنے اور پھر اللہ کی انتقامی
کاروائی کے شکار
ہوئے۔آپ کہہ سکتے ہيں کہ اس عرصہ
ميں کسی کو بندر نہيں
بنايا گيا۔آسمان سے کوئی چنگھاڑ
يا چيخ نازل نہيں ہوئی
پتھروں کی بارش نہيں کی گئی ۔ليکن
اس کا مطلب يہ نہيں
کہ مسلمانوں کے بارے ميں يہ قانون
فطرت بدل گيا۔حقيقت يہ
ہے کہ حضور صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم
کی دائمی شفقت اور
رحمت ہے جس کے زيرِ سايہ مسلمانوں
پر اس قسم کا عذاب
نازل نہيں ہو سکتا ورنہ کسی نہ کسی
صورت ميں ان کو
جھنجھوڑاگيا۔
غلبہ،استيلا،خلافت اور
تمکن فی الارض کی نعمتيں ان سے چھنيی
گئيں ۔غلامی کے عذاب
ميں انہيں گرفتار کيا گيا اور آج بھی
کتنے ہی مسلمان عملی
طور پر يا نظرياتی اور تہذيبی
لحاظ سے غلامی کی
سسکياں بھر رہے ہيں ۔کيا اس سے بڑا
عذاب بھی ہو سکتا ہے
۔دنيا ميں غلامی سے بڑھ کر بھی کوئی
ذلت اور رسوائی ہو
سکتی ہے ۔
تفرقہ اوراختلاف کے
جُرِم عظيم پر ذرا خالقِ کائنات کی ناراضگی
کا اندازہ کيجئے :
وَاِنَّ ھٰذِ ہٓ اُ مَّتُکُمْ اُمَّتہً وَّ احِدَ ة ً وَّ اَناَ رَبُّکُمْ
فَا تَّقُوْنَ ہ فَتَقَطَّعُوْا
اَمْرَھُمْ بَيْنَھُمْ زُبُرًا ط کُلُّ حِزْبمٍ
بِمَا لَدَ يْھِمْ نَرِ حُوْنَ ہ فَذَ رْھُمْ
فْیِ غَمْرَ تِھِمْ حَتّیَٰ حِيْن ِ ہ ( المومنون : ٥٢ تا ٥٤ )
" يہ تمہارا دين توايک ہی دين ہے اور ميں تمہارا ربّ ہوں
۔پس تقویٰ اختيار کيجئے وہ جنہوں نےدين ميں مختلف
طريقے بنالئے۔ہرايک اپنے ہی طريقےپرخوش ہے۔پس(اے نبی )
چھوڑيئے ان کو ايک مدت تک غفلت ہی ميں پڑے رہيں "۔
مسلمانانِ عالم کی
فوزوفلاح ، کاميابی وکامرانی ،عزت و وقار،حيات
وبقا اسی ميں ہے کہ وہ
ايک رہيں ۔فروعی اختلافات کو ترک کر
کے ايک دوسرے کی طرف
رفاقت کا ہاتھ بڑھائيں ۔
تقویٰ جو اسلامی کردار
کا نام ہے ۔اس کا تقاضا يہی ہے کہ مسلمان
حسب و نسب کے امتياز
مٹا کر وحدت کی لڑی ميں پروئے جائيں ۔
اور ياد رکھيئے کہ اگر
مسلمانوں نے اِس عظيم جُرم سے خلاصی
حاصل کرلی توان کی
عظمت و اقتدار کے ترانے ارض وسماء
پر گونجيں گے ۔
شعائر اللہ کی تعظيم
قرآنِ حکيم ميں ارشاد
رُبّ العّزت ہے :۔
وَمَنْ يّعَظِّمْ
شَعَا ئِرَ اللہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ ہ ( الحج : ٣٢ )
" اور جو اللہ کے شعائر کی تعظيم کرے تو يہ دلوں کے تقویٰ سے ہے "۔
شعائر ميں ہر وہ چيز
شامل ہے جسے اللہ تبارک وتعالٰی کی خود
کی ذات خود مقرر کر
دے يا اس کے انبياء مقرر کريں يا اس کی
نسبت اللہ کے کسی
صالح بندے سے ہو جائے ۔اس سے تبرکات
بزرگانِ دين سے محبّت
اور ان کے احترام کا سبق بھی ملتا ہے
۔اس لئے کہ مّحبتِ
مطلق کسی شےَ سے نہيں ہوتی بلکہ اس لئے
کہ اُس کا تعلق
بالواسطہ يا بلا واسطہ اللہ کی ذات کے ساتھ ہوتا ہے۔
مثلا ً حجِراسود کو
بوسہ ديا جاتا ہے ۔اس لئے نہيں کہ وہ پتھر ہے
بلکہ اس لئے کہ اُس
کا تعلق اور نسبت اللہ کے ساتھ ہے
اور رسولِ اکرم صلی
اللہ عليہ وسلم اُسے بوسہ ديتے رہے ۔
اِنَْ الصَّفَا وَالْمَرْوَة مِنْ شَعَآ ئِرِ اللہِ ۔ ( البقرہ : ١٥٨)
" بے شک صفا اور مروہ شعائر اللہ سے ہيں "۔
اِن پہاڑوں کا شعائر
ہونا بھی اولياء وانبياء سے نسبت ہی کی
وجہ سے ہے ۔
احترامِ رسول صلی اللہ عليہ وسلم
ايک آدمی تقویٰ کا ہر
تقا ضا پورا کرتا ہے ليکن احترامِ رسول
صلی اللہ عليہ وآلہ
وسلم کے جذبات سے اگر اس کا سينہ خالی
ہے تو وہ عند اللہ
ماجور نہيں ہو سکتا بلکہ اس کے تمام اعمال
ختم کر ديئے جاتے ہيں
۔اخروی کاميابی کا اصل راز يہ ہے کہ
دل کو محبتِ محمد صلی
اللہ عليہ وآلہ وسلم کے جذبات سے
سر شار رکھے ۔محّبت
محبوب کے ہر فعل کے احياء کے لئے
قربانی چاہتی ہے ۔آج
کے حالات ہم سے تقا ضا کرتے ہيں کہ
ہم تحريکِ مصطفوی صلی
اللہ عليہ وآلہ وسلم کے رکن بن کر
احکام ِ الٰہی کے نفاذ
کے لئے کوشش کريں ۔اور زندگی کے
ہر ميدان ميں ضابِطہِ
خداوندی سے رہنمائی حاصل کريں ۔
وہ لوگ جو بظاہر کلمہ
گو ہيں ليکن ان کے دل محبتِ رسول صلی
اللہ عليہ وآلہ وسلم
اور احترامِ نبی صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے
جذبات سے عاری ہيں
۔ان سے بصد ادب و احترام گذارش ہے
،کہيں ايسا نہ ہو جائے
کہ علمِی ذوق پُوراکرتے کرتے ايمان سے
بھی ہاتھ دھونے پر
جائيں ۔
لاَ تُقَدِّ مُوْا بَيْنَ يَدَ يِ اللہِ وَرَسُوْلِہ وَ اتَّقُوااللہَ
ط ( الحجرات : ١ )
" اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے آگے نہ
بڑھو اور اللہ سے ڈرو ۔
احترام کے لئے عند
الرسول اپنی آوازوں کو پست رکھنے والوں
کے معتلق فر مايا :۔
اِنَّ الَّذِ يْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَ اتَھُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِ اُو ٰ
ٓليِکَ الَّذِ يْنَ امْتَحَنَ
اللہُ قُلُوْ بِھُمْ لِلتَّقْویٰ ط لَھُمْ مَغْفِرَ ة وَّ
اَ جْرُ عَظِيْمُ ہ ( الحجرات : ٣ )
"بلاشبہ وہ لوگ جو رسولِ اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے
پاس بات کرتے ہوئے اپنی آواز دھيما رکھتے ہيں ۔اصل ميں وہی
لوگ ہيں جن کے دل اللہ نے تقویٰ کے لئے چُن لئے ہيں ۔ايسے
لوگوں کے لئے مغفرت اور اجرِ عظيم ہے "۔
معلوم يہ ہوا کہ تقویٰ
کی جان اور پر ہيز گاری کی رُوح
محبتِ رسول صلی اللہ
عليہ وآلہ وسلم اور احترامِ نبی صلی اللہ
عليہ وآلہ وسلم ہے ۔
اس سے ايک مئسلہ بھی
اخذ کيا جا سکتا ہے کہ اپنے شيخ
اور استاد کا احترام
کرنا اور اُن کے سامنے مودبانہ گفتگو کرنا
بھی تقویٰ کا ايک تقا
ضا ہے ۔
قيامِ عدل
اسلام ايک عالمگير
تحريک کا نام ہے جس کا مقصودومنشور
عالم انسانيت ميں نيکی
کا نظام قائم کرنا ہے ۔اس مقصد کے
حصول کے لئے يہ تحريک
اپنے ہر رُکن سے ايک مخصوص
کيريکڑ کا تقاضا کرتی
ہے جسے تقویٰ کے نام سے تعبير کيا جاتا ہے ۔
تقویٰ جہاں انفرادی
اور اجتماعی تعمير و تطہير کا نام ہے،وہاں
اس کا ايک گہرا ربط
تحريکِ اسلام کے منشور سے بھی ہے
۔مثلاً قرآن مجيد نے
جہاں عادات واطواراور رسوم وطرق کی
اصلاح کو تقویٰ قرار
ديا ۔اسلام کے منشورومقصود تک رسائی
حاصل کرنے کے لئے
جدوجہد کرنا بھی تقویٰ کا تقاضا قرار ديا ۔
تعمير کی ضد تخريب ہے
۔جب تک کوئی قوم قوانين فطرت کی پابند
رہتی ہے اس کی رگوں
ميں تعميری خون گردش کرتا رہتا ہے ۔گويا
کہ بناؤ قانونِ عدل
پابندی کی پابندی ميں ہے اور بگاڑ اس
صراطِ مستقيم سے ہٹ
جانے کا نام ہے ۔
مسلمان چونکہ
خيروبھلائی کا نظام دُنيا ميں رائج کرنا چاہتا ہے
۔انسانيت کو بناؤ کا
سبق دينا چاہتا ہے۔تخريبی جراثيم کا خاتمہ
اُس کا مدعا ہے ۔غرض
کہ مسلمان کا يہی کير يکڑ تقویٰ اُسے
قيامِ عدل کے لئے
تيار کرتا ہے ۔
وَلاَ يَجْرِ مَنَّکُمْ شَتَاٰ نُ قَوْ مٍ عَلٰیٓ اَلاَّ تَعْدِ لُوْا
ط اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْویٰ
وَاتَّقُوا اللہَط اِنَّ اللہَ خَبِيْرُم بِمَا
تَعْمَلُوْنَ ہ ( المائدة : ٨ )
"اور تمہيں کسی قوم کی دشمنی عدم عدل پر نہ اُکسائے۔
عدل کيجئے اور اللہ سے ڈرئيے اور يہی تقویٰ کے
زيادہ قريب ہے ۔بلاشبہ وہ تمہارے اعمال سے خبردار ہے "۔
عدل کے لئے اردو زبان
ميں لفظ "انصاف "استعمال ہوتا ہے
اگرچہ معانی اور مطالب
کے لحاظ سے "انصاف "ميں وہ
زور نہيں جو "عدل "
ميں ہے ۔اگر عدل کا معنٰی " توازن "
کيا جائے تو زيادہ
مناسب ہو گا ۔عالم رنگ وبو ميں پروردگار
کے تمام تر امور
عدالت ہی کے ساتھ قائم ہيں يعنی عدل ہی
وہ قانون ہے جو قيام
ہستی کے لئے ضروری ہے ۔اس مقام
پر دائرہِ عدل وسيع
سے وسيع تر ہو جاتا ہے ۔معاملات،
مقدمات،نظامٍ شمسی
سياروں کی حرکت موسمی تغير وتبدل
اور تخليق انسانيت
وتکوينِ اشيائے عالم تک ہر ايک ہی تعادل
و توازن کی مختلف
مثاليں ہيں ۔
ظلم ہو يا سر
کشی،اسراف ہو يا تبذ ير،فساد ہو يا اعتدا
نظامِ عدل سے ہٹی ہو
ئی يہی وہ صورتيں ہيں جن کے
عاملين کو قرآن نے
کبھی تو شيطان کا بھائي کہہ کر پکارا
اور کبھی اس سے ملتی
جُلتی کو ئی اور اصطلاح استعمال کی۔
قرآن نے حقيقت عدل کے
رموز سے آگاہی کے لئے اکثر مقامات
پر غوروفکر کی دعوت
بھی دی اور توازن اور تعادل کو مقصود
ٹھہرايا اور صاف صاف
کہہ ديا کہ جب تم بغير ستونوں کے
اٹھائے ہو ئے آسمان
کو ديکھتے ہو ۔جب تم اس حقيقت سے
بخوبی آگاہ ہو کہ جوَ
سے جوَ اور گندم سے گندم ہی پيدا ہوتی ہے
تو پھر روزمرہ ميں
عدل سے انحراف کيوں ؟
اِعْدِ لُوْا وقف ھْوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْويٰ ۔
" عدل کرو عدل ہی تقویٰ سے زيادہ قريب ہے "۔
انفرادی زندگی ہو يا
اجتماعی،مسائل سياسی ہوں يا معاشی ہماری
کا ميابی کا راز
اسلام کے نظام عدل ہی ميں ہے اس لئے کہ
يہ نہ تو حواسِ خمسہ
کی تخليق ہے اور نہ ہی وجدان کی پيداوار
بلکہ منزل من اللہ ہو
نے کی حثييت سے يہی وہ ضابطہ حکمت ہے
جسے اپنانے سے
انسانيت عروج کے زينے طے کرتی ہے۔
اگر آج ہماری عدالتوں
ميں اسلام جو دين فطرت ہے اس کا
قانونِ عدل لاگو اور
قابلِ عمل نہيں تو کيا اس سے يہ نتيجہ نہيں
نکلتا کہ ہمارے قانون
دانوں کے نزديک وہ قانون اس قابل نہيں
کہ ان کے مسائل حل
کرسکے ۔اگرايسے نہيں تو نفاذ ميں اتنی
تا خير کا مطلب کيا
ہے؟
برصغيرپاک وہند ميں
انگريز نے ايک گہری سازش کی کہ مسلمانوں
ميں کچھ آدمی ايسے
تيار کئے جنہوں نے قوم و مّلت ميں يہ تبليغ
شروع کر دي کہ دين صرف
چند عبادات کا نام ہے حالانکہ اسلام
ضابطہ کائنات ہے جو
زندگی کے ہر گوشہ ميں رہنمائی کرنے کی
صلاحيت رکھتا ہے ۔
بقول شاعر :۔
جدا ہو دين سياست سے تو رہ جاتی ہے چنگيزی
وفا شعار اِن اسلام !
اگر آپ امن وسکون
چاہتے ہيں،اگر آپ کی خواہش زندگی
کی راحت وآرام ہے،تو
اس کا ايک ہی راستہ ہے ۔اسلام کے
نظام عدل کی طرف
لپکيں اور اس طرح تمہاری دعوت سے اہل
جہاں جو جہالت کی
تاريکيوں ميں بھٹکتے پھر رہے ہيں اور
اپنی شيطانيوں اور
غفلت شعاريوں سے معاشرہ کو جہنم زار
بنا ديا ہے ۔اسلام کے
انقلابی منشور سے آگا ہی حاصل کريں ۔
رسوم محض سے اجتناب
کون نہيں جا نتا کہ آج
ہمارے معاشرے ميں محض تقليدی بنيادوں
پر بہت سی ايسی رسوم
کا آغاز ہو چکا ہے جو قيامِ دين کی راہ
ميں سب سے بڑی رکاوٹ
ہيں ۔روائتی عظمتوں کی پرستش کی
جاتی ہے ۔پہلے ايک
عقيدہ گڑا جاتا ہے ۔پھر اُس کی پرستشِ
متواتر سے اس ميں شانِ
تقديس پيدا کی جاتی ہے اور بعض
ايسی رسميں ہيں جن
ميں سوائے ضياِع دولت کے اور کچھ
نہيں ملتا ۔قرآن مجيد
ان سب باتوں کی ترديد کرتا ہے بلکہ
ان کے ترک کرنے کو
تقویٰ کا تقاضا قرار ديتا ہے ۔
عربوں کا دستور تھاکہ
وہ احرام باندھ ليتے اور گھروں ميں آنے
کی ضرورت پڑتی تو
دروازوں سے داخل نہ ہوتے بلکہ
پچھلی ديواروں سے
سوراخ کر کے داخل ہوتے ۔چونکہ يہ
رسمِ محض تھی ،اس لئے
قرآن نے اسے ايک لا يعنی حرکت
قرارديتے ہوئے اس کے
ترک کرنے کو تقویٰ کا تقاضا قراد
ديا۔۔۔۔ارشادِ ربیّ
ہے :۔
وَ
لَيْسَ اَ لْبِّرُ بِاَنْ تَاْ تُواالْبُيُوْتَ مِنْ ظُھُوْرِھَا وَ
لٰکِنَّ الْبِّرَ مَنِ اتَّقٰی
ج
وَ اْتُواالْبُيُوْتَ مِنْ اَبْوَ ابِھَاص وَ
اتَّقُوااللہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ہ ( البقرہ : ١٨٩ )
"اور يہ نيکی نہيں ہے کہ تم گھروں ميں پچھلی طرف سے
داخل ہو بلکہ نيکی تو تقويٰ اختيار کرنا ہی ہے گھروں ميں
دروازوں کی طرف سے آيا کرو اور اللہ سے ڈرو تا کہ فلاح پاؤ ۔"
ہمارے ہاں بچوں کی
پيدائش پر ،شاديوں کے رچانے ميں اور
ماتم کے موقع پر بعض
نہيں بلکہ بے شمار ايسی رسميں منائی
جاتی ہيں جن کا تعلق
اصل ميں يا تو ہندؤوں سے ہے يا
انگريزوں سے ۔ قرآنی
تعليمات کو ديکھ کر ہميں عبرت حاصل
کرنی چاہيے اور ان
مذموم رسوم واطوار کو غيرت مذہبی کو
کام ميں لاتے ہوئے
صرف خود ہی ترک نہيں کرنا چاہيے بلکہ
دوسرے حضرات جن کی
سرشت ميں ايسی عادات داخل ہيں انہيں
بھی مجبور کيا جائے
کہ تقليد غير سے باز رہيں اور شيطان کو
خوش نہ کريں ۔
البتہ بعض ديہاتوں ميں
بعض لوگوں کو دينی اصولوں کا پا
بند ديکھ کر نہايت
مسرت محسوس ہوتی ہے اور ان کے جذبہ
دين کو داد ديناپڑتی
ہے ۔فی الحقيقت اسلام ايک سادہ اور قابلِ
عمل دين ہے ۔يہ عين
فطرت کے مطابق ہے ۔اسے کسی
رسم کے پيوند کی
ضرورت نہيں ۔رسوم پرست لوگ خود بھی
ان سے تنگ ہيں ۔ليکن
ان کے ضمير کی آواز جب جذبہ نمائش
کی نذر ہو جاتی ہے تو
وہ ہر کام کرتے ہيں جواُن کا من
اجازت ديتا ہے ۔
غير اقوام کی تقليد سے بيزاری
مسلمان کسی قوم يا ملک
کا نام نہيں ۔بلکہ يہ اللہ کی وہ
جماعت ہے جس کا منشور
نيکی کو غالب کرنا ہے ۔اس مقصد
کے حصول کے لئے اس کا
اپنا ايک پروگرام ہے ۔اس کے پاس
زندگی گزارنے کے اپنے
اصول ہيں ۔ہر وہ آدمی جو اس کے
اصولوں کو کسی بھی
ميدان ميں ٹھکراتا ہے ،تو اس کا مطلب
صاف ظاہر ہے کہ وہ اس
کے پروگرام سے متفق نہيں ۔اس کو
وہ اصول اچھے نہيں
لگتے جو حضور صلی اللہ عليہ وسلم نے
پيش کئے تھے ۔
تقویٰ کا تقا ضا يہ ہے
کہ ان اصولوں کو نہ اپنايا جائے جو اسلام
سے ٹکر کھاتے ہيں ۔ان
باتوں پر کان نہ دھرے جائيں جو
غير اقوام " نظام
مصطفٰے کو ختم کرنے کے لئے کرتی ہيں ۔
غير قوموں کی تقليدی
زنجيریں اپنے پاؤں ميں نہ ڈالی جائيں
اور غلامی سے اپنی
گردنوں کو بچايا جائے ۔
اگر ايک آدمی دين کو
سياسی لحاظ سے تھائيو کريسی يعنی
پاپائيت کا نام بھی دے
۔مسجد کو بھولے سے بھی نہ آئے
۔محمد رسول صلی اللہ
عليہ وسلم کی سنتوں کا مذاق بھی اڑائے
اور پھر اپنے آپ کو
ايک مسلمان سمجھے اور اپنی حرکات
کو قابل ِ نجات خيال
کرے تو مسئلہ ناقابلِ فہم ہے ۔
نجات اگر ہے تو صرف اس
ميں کہ اتھارٹي صرف اللہ اور
اس کے رسول صلی اللہ
عليہ وسلم کی مانی جائے ۔ہمارا قرآن
جب ہر اُس معاملہ ميں
ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔جس ميں ہماری
بہتری ہے ۔تو پھر اس
نظام کے مقابلہ ميں ہمارے دل فسانے
کيوں تراشتے ہيں
۔ہماری جبينيں شيطانوں کے سامنے کيوں
جھکتی ہيں ۔ہمارے ہاتھ
خود ہی آذري کا شيوہ کيوں اختيار
کرتے ہيں ۔
افسوس صد افسوس کہ شا ہيں نہ بنا تو
ديکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدير کے قاضی کا يہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعيفی کی سزا مرگِ مفاجات
آج بھلائی کی بھيک کے
لئے ہم کشکول لئے کافروں اور منافقوں
کے دروازوں پر پھرتے
ہيں ۔آج ہماری اطاعت کا معيار لا دين
عناصر کی خوشامد بن
چکا ہے ۔
ارشادِ ربّ العزّت ہے
:۔
يٰآَ يُّھَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللہَ وَلاَ تُطِعِ الْکٰفِرِ يْنَ وَ
الْمُنَا فِقِيْنَ ط اِنَّ اللہَ
کَانَ عَلِيمْاً حَکِمْاً ہ ( الا حزاب : ١ )
" اے نبی صلی اللہ عليہ وسلم سے ڈرو اور نہ اطاعت کرو
کافروں اور منافقوں کی تحقيق اللہ علم وحکمت والا ہے ۔
اس آيت ميں جاہليت کی
رسوم پر ضرب کاری لگائی گئی ہے
اور منافقين اور کفار
کی اطاعت سے منع فر مايا گيا ہے ۔
اللہ کرے ہم انگريز کي
اطاعت سے خلاصی حاصل کر ليں ورنہ
معاش ہو يا معشيت
،سماج ہو يا سياست،فوج ہو يا کوئی
اور ادارہ ہمارا ہر
فعل غير اقوام کی تقليد ميں ہے ۔
وعدے کي پا بندی
وعدے کی نوعيّت نجی ہو
يا کاروباری،عہد اللہ سے کيا
جائے يا مخلوق سے
،بہرصورت اس کی پا بندی کرنا تقویٰ کے
تقاضوں ميں سے ہے ۔
قرآن نے ايک جگہ يہود
کے بارے ميں ان کی عہد شکنی
کی بدولت ہی کہا :۔
اَ
لَّذِ يْنَ عَھَدْ تَّ مِنْھُمْ ثُمَّ يَنْقُضُوْنَ عَھْدَ ھُمْ فِیْ کُِلّ
مَرَّة وَھُمْ
لاَ يَتَّقُوْنَ ہ ( الانفال : ٥٦ )
وہ لوگ جن سے تو نےعہد کيا۔ہر مرتبہ اس کو توڑتے ہيں
اور خدا سےڈرتے نہيں "۔
سورۃ توبہ ميں ايک
مقام پرحضور صلی اللہ عليہ وسلم کو مشرکين
سے بھی وعدہ پورا کرنے
کو کہا گيا ہے ۔
فَاَ تِمُّوْااِلَيْھِمْ عَھْدَ ھُمْ اِلٰی مُدَّ تِھِمْ ط
اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ ہ ( التوبہ : ٤ )
"ان سے وعدوں کی مّدت کے مطابق پورا کرو بے شک اللہ متقين
سے مّحبت کرتا ہے "۔
سورۃ مائدہ ميں ارشادِ
ربّانی ہے :۔
"اے مومنو ! اپنے
بندھے ہوئے وعدوں کو پورا کرو "۔
ايک مقام پرآتا ہے :۔
اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ
مَسْوُ لا ً ۔
يعنی وعدے کےبارے ميں پرسش ہو گی "۔
حضور سرورِ دوعالم صلی
اللہ عليہ وسلم نے ہميشہ وعدے کی
پا بندی کی اور سا تھ
ہی اپنے پيروکاروں کو ايفائے عہد کی تلقين
کرتے رہے ۔ آپ کی
مشہور و معروف حديث ہے کہ :۔
لاَ دِيْنَ لِمَنْ لاَعَھْدَ لَہُ ۔
" اس کا دين نہيں جس کا عہد نہيں "۔
ايک موقع پر جب حضور
صلی اللہ عليہ وسلم اسلامی لشکر
کے ساتھ بدر ميں پڑاؤ
ڈالے ہوئے تھے ۔قلتِ تعداد کی وجہ
سے ايک ايک آدمی کی
ضرورت پڑ رہی تھی ۔دوصحابی
حضرت حذيفہ رضی اللہ
تعالی عنہ اورحضرت حسَيلُ جنہوں
نے مشرکين سےعدم شرکت
کا وعدہ کرليا تھا حضور
صلی اللہ عليہ وسلم
کی خدمت ميں حا ضر ہوئے اورساری
داستان سنائی تو آپ
نے ان کو مدينہ بھيج ديا اور فرمايا ہم
وعدے کی پا بندی کريں
گے ۔
عہد کو پورا کرنا بھی
تقویٰ کے لوازمات ميں سے ہے اور
متّقين کا شعار ہے ۔
وعدہ کرتے ہوئے اس بات
کا لحاظ ضرور رکھنا چاہيے
کہ کيا جانے والا وعدہ
کہيں اسلامی شريعت کی رُوح کے
خلاف نہ ہو بلکہ زبان
سے ہی ايسے الفاظ نہيں نکالنے
چاہيئں ۔جن پر عمل
کرنا مُمکن نہ ہو ۔اسلام نے اس بات
سے منع کيا ہے ۔ايسی
باتيں نہ کيا کرو جو تم نہيں کر
سکتے ۔اس لئے کہ اللہ
کے ہاں بڑے غصّے کی بات ہے۔
يٰٓاَ يُّھَا الَّذِ يْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْ لُوْ نَ مَا لاَ
تَفْعَلُوْنَ ہ (الصف : ٢ )
" اے ايمان والو ! کيوں کہتے ہو ،جو تم کرتے نہيں "۔
واللہ ! علم باالصواب
اصولِ تعاون
اِسلام کا مقصد نيکی
اور بھلائی کو برائيوں پر غالب کرنا ہے
۔اس لئے يہ اپنے ہر
ماننے والے کو اِس بات پر اکساتا ہے
کہ نيکی کے کاموں ميں
ايک دوسر ے کا ساتھ ديا جائے ۔
قرآن مجيد نے اس سلسلہ
ميں ايک زرّين اصول قائم کيا ہے :۔
وَ
تَعَاوَنُوا عَلیَ الْبِرِّ وَ التَّقْویٰ وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلیَ ا ْلاِ
ثْمِ وَ الْعُدْ وَ انِ
ص وَ اتَّقُوااللہَ ط اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ
الْعِقَابِ ہ (المائدہ : ٢ )
" نيکی اور تقویٰ کے کاموں ميں تعاون کرو اور گناہ اور زيادتی
ميں باہم ہاتھ نہ بٹاؤ ۔اللہ سے ڈرو بيشک اللہ کا عذاب بہت سخت ہے " ۔
يہ ايک مسلّمہ حقيقت
ہے کہ کسِی انقلابی گروہ کی کاميابی
يا نا کاميابی کا
دارومدار،تعاون اور عدم تعاون پر ہی ہوتا ہے
۔اگر نيک کام ميں
تعاون نہ کيا جائے تو جن مقاصد کے لئے
کوئی تحريک چلائی
جاتی ہے ۔ ان کا پوُرا ہونا کافی حد تک
نا ممکن ہوتا ہے
۔مسلمان جن کی زندگی کے منشور ميں ہی يہ
بات شامل ہے کہ
دنياسے فاسد نظام کوختم کياجائے اورنظامِ
مصطفٰے صلی اللہ عليہ
وسلم کو رائج کر کے پستی ہوئی انسانيت
کو نجات دلائی جائے
۔اگر ان کے کچھ افراد اُن باتوں ميں مدد
کرنی شروع کر ديں جن
سے باطل کےاصولوں کوتقويت پہنچتی
ہو تو نظام حق کے لئے
چلائی گئی تحريک کو نقصان ہے ۔
يہی وجہ ہے کہ اللہ
تعالٰی نے اسلامی معاشرے کے ہر فرد پر يہ
قيد لگا دی ہے کہ
مددکے ہاتھ صرف نيکی اور تقویٰ کے کاموں
ميں اٹھنے چاہئيں
۔اگر کوئی شخص اثم اور عدوان کو پھيلانے
کی سعی ميں مصروف
ہوتا ہے تو اُسے يادرکھنا چاہيے کہ
اللہ تعالٰي کا عذاب
بہت سخت ہے۔
رائے يا ووٹ ايک
مسلمان کے پاس اللہ تعالٰی کی طرف سے
دی گئی ايک مقدس امانت
ہے ۔اس کا صحيح استعمال
" تعاون علی البّر
والتّقویٰ " ميں شامل ہے اور اس کا غلط استعمال
"تعاون علی الا ثم "
کے ضمن ميں آتا ہے ۔
اگر کوئی شخص اپنے حق
رائے کو کسی باطل نظام کی تائيد ميں
استعمال کرتاہے تو وہ
" اِنّ َ اللہَ شَدِ يْدُ الْعِقَابِ ہ "
کے زمرے ميں آتا ہے ۔
ياد رہے کہ اسلام کے
مقابلہ ميں ہر اختراعی نظام باطل ہے
خواہ وہ جمہوريت ہو يا
سوشلزم،کميو نزم ہو يا لا دينيت
۔زندگی کے کسیِ شعبہ
ميں اسلام کسِی پيوند کا محتاج نہيں
بلکہ اگر کوئی شخص
جمہوريت يا سوشلزم کا پيوند لگاتا ہے
تو حقيقت ميں وہ اپنے
باطل نظريات پر اسلام کا ليبل لگا کر
مسلمانوں کی آنکھوں
پر ہاتھ رکھتا ہے ۔سور کی گردن پر اگر
بسم اللہِ اللہ اکبر
کہہ کر چھُری پھير دی جائے تو وہ کبھی
حلال نہيں ہوتا ۔
غيبت سے بچنا
حضرت ابوہريرہ رضی
اللہ عنہ حضور سرکار دوعالم صلی
اللہ عليہ وسلم سے
حديث نقل کرتے ہيں ۔آپ صلی اللہ عليہ وسلم
نے فر مايا:۔
"کيا تم جانتے ہو غيبت
کيا ہے "۔لوگوں نے کہا کہ "اللہ اور
رسول صلی اللہ عليہ
وسلم بہتر جانتے ہيں "۔آپ صلی اللہ
عليہ وسلم نے فرمايا
": تمہا را اپنے بھائی کو اس طرح
ياد کرنا جو اُسے
ناگوار گذرے "۔آپ صلی اللہ عليہ وسلم سے
کہا گيا کہ " اگر وہ
بات اُس میں موجود ہو تو آپ صلی اللہ عليہ
وسلم نے جواب ديا
۔اگر وہ اُس ميں موجود ہو تو تم نےغيبت
کی ۔اگر نہيں تو تم نے
بہتان باندھا " ۔
حديثِ مذ کورہ کو ذہن
ميں رکھتے ہوئے غيبت کی تعريف يوں
کی جا سکتی ہے کہ
کسِی مسلمان کی غير حاضری ميں اُس
کی کوئی ايسی بات
کرنا جو اُسے ناگوار گذرے وہ غيبت کہلاتی
ہے ۔وہ بُرائی جو
بيان کی گئی ہو برابر ہے کہ اُس ميں
موجود ہو يا نہ ہو ۔
قرآن مجيد نے غيبت کی
مذمت کی اور اس سے بچنے کو
تقویٰ کا تقاضا قرار
ديا :۔
وَلاَ يَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضاً ط اَ يُحِبُّ اَ حَدُ کُمْ
اَنْ يَّاْ کُلَ لَحْمَ اَ خِيْہِ مَيْتاً
فَکَرِ ھْتُمُوْ ہُ ط وَ اتَّقُوْا اللہ ط اِنَّ
اللہَ تَوَّابُ رَّحِيْمُ ہ ( الحجرات : ١٢ )
" تم ميں سے کوئی ايک دوسرے کی غيبت نہ کرے ۔کيا تم
ميں سے کوئی ايک يہ پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مَرے
ہوئے بھائی کا گوشت کھائے ۔يقيناً تمہيں يہ نا پسند ہے
۔ڈرو اللہ سے ۔اللہ تعالٰی تو بہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے
والا ہے "۔
حضور صلی اللہ عليہ
وسلم نے عملی طور پر بھی غيبت
کی مذمت ايک دفعہ اسی
صورت ميں کی ۔جب کہ ماعزبن
مالک اسلمی کو زنا کے
جُرم ميں رجم کی سزا دی گئی، تو
دو صحابيوں نے ان پر
تنقيد کی ۔حضور صلی اللہ عليہ وسلم
نے سُن ليا ۔کچھ دُور
راستے ميں آپ صلی اللہ عليہ وسلم
کی نظر ايک مردہ گدھے
پر پڑی ۔آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے
ان صحابيوں کو بلايا
اور فرمايا کہ اس کو کھانا شروع کرو ۔
انہوں نے جواب ديا " :
اسے کون کھائے "۔آپ نے ان
سے کہا کہ ابھی جوتم
اپنے مُردہ بھائی پر حرف زنی کر رہے
تھے ۔وہ اس کے کھانے
سے زيادہ بُری تھی ۔
بدکاری سے اجتناب
بيماريوں کے جراثيم کو
مارنا عين مصلحت ہوتا ہے ۔قومِ لوط کی
اخلاقی پستی جب حد کو
پہنچ گئی تو اللہ تعالٰی نے اس کو
صفحہ ہستی سے مٹا
دينا ہی مناسب سمجھا ۔حضر ت لوط
عليہ السّلام کے گھر
فرشتوں کو نہايت خوبصورت لڑکوں کی
صورت ميں بھيجا گيا
۔قومِ لوط خوشياں مناتی ہوئی آئی ۔اور
حضرت لوط عليہ
السّلام کے گھر کو گھير ليا ۔وہ کيا جانتے
تھے کہ خوبصورتی کے
روپ ميں ان کی تباہی کا سامان مہّياکيا
گيا ہے ۔کتنی ہی بد
نصيب قوم تھی کہ اپنی بربادی پر قہقہے
لگا کر وقت کے نبی سے
قيل و قال کر رہی تھی ۔خُدا کی
کارسازياں بھی عجيب
ہيں ۔چاہے تو يوسف عليہ السّلام کو
کنوئيں ميں پھينک کر
۔گھر سے بے گھر کرکے ۔بازار مصر
ميں بيچ کر زنداں کی
سختياں دے کر اس کے عروج کے
زينے طے کروائے،اور
چاہے تو قوم ِ لوط کے سامنے
حسن رچا کر ان سے
قہقہے لگوا کر جہنمّ واصل کردے ۔
جب لوط عليہ السّلام
کی قوم نے آپ سے مطالبہ کيا کہ وہ
ان لڑکوں کو ان کے
حوالے کر ديں ۔تو لوط عليہ السّلام نے
بڑے مؤ ثر انداز ميں
قوم کو تقویٰ کی تلقين کی ۔ فرمايا :۔
قَا لَ انَّ ھٰوُ َلٓ ٕ ضَيْفِیْ فَلاَ تَفْضَعُوْن ِ ہ وَ اتَّقُوا اللہَ
وَلاَ تُخْزُ وْن ِ
ہ
( الحجر : ٦٩،٦٨ )
"لوط ( عليہ السّلام ) نے فرمايا ۔بے شک يہ ميرے مہمان ہيں
۔پس تم ميری فضيحت نہ کرو ۔اللہ سے ڈرو اور مجھے
رسوا نہ کرو "۔
جب حضر ت لوط عليہ
السّلام کی قوم نے اپنے نبی کی دعوت
کو نہ سُنا ،تو وہی
لڑکے اُن کے عذاب کا باعث بنے ،اور
قومِ لوط کو ايک
چنگھاڑنے لے ليا ۔اس طرح عذابِ الٰہی کا وعدہ پورا ہوا ۔
قومِ لوط کو عذاب ميں
گرفتار کرنے کی وجہ يہی تھی کہ وہ
بدکاری اور بد فعلی
کے اَڈّے جما کر فحاشی ،عريانيت،زنا کاری
اور لواطّت کا درس
ديتے تھے ۔ان کے اس قومی نوعّيت کے
جرم پر رب العزّت نے
انہيں زمين ميں دھنسا ديا ۔
ہلاکتِ قومِ لوط سے
ہميں عبرت حاصل کرنی چاہيے اور بدکاری
اور اس کے مقدمات سے
مکمل اجتناب برتنا چاہيے ۔
اساسِ عمل
اعمال اور مختلف افعال
کا حسن انسان کے باطنی ارادے اور
حسنِ نيّت کا مرہونِ
منّت ہوتا ہے ۔بظاہر کوئی کام کتنا ہی حسين
اوردل کش کيوں نہ
ہو،جب تک ارادہ اور نيّت صحيح اور
درست نہ ہو وہ کام
نامقبول ہوگا ۔اس اعتبار سے تمام نيکيوں
اور سارے امور کی
بنياد چونکہ حسنِ نيّت اور خلوص پر
ہے ۔اس لئے قرآنِ
حکيم اسے "تقویٰ " قرار دے کر سارے
اعمال کی اساس قرار
ديتا ہے اور ہر وہ کام جس کی بنياد
"تقویٰ " پر نہ ہو اسے
قابلِ مذمت سمجھتا ہے ۔ان امور کو
مضبوط اور مستحکم
کرنے کاحکم صادر فرماتا ہے
۔"جس کی بنياد تقویٰ
پر ہو "۔
ہمارے اس مؤ قف کو
مسجدِ ضرار کا واقعہ قوت ديتا ہے
۔ارشادِ ربّ ِذوالجلال
ہے :۔
اَفَمَنْ اَسَّسَ بُنْيَانَہ،عَلٰی تَقوْیٰ مِنَ اللہِ وَرِضْوَ
انٍ خَيْرُ، اَمْ مَّنْ
اَسَّسَ بُنْيَانَہ،عَلٰی شَفَا جُرُفٍ ھَارٍ ۔ (التوبہ : ١٠٩
" کيا وہ شخص جس نے اپنی عمارت کی بنياد تقویٰ اور
اللہ کی رضا پر رکھی وہ اچھا ہے يا وہ شخص جس نے
اپنی عمارت کی بنياد گِر جانے والی کھائی کے کنارے رکھی "۔
اور اس مسجد کو عبادت
کے لئے حقدار قرار ديا جس کی
بنياد تقویٰ پر ہو ۔
لَمَسْجدُ،
اُسِّسَ عَلیَ التَّقْویٰ مِنْ اَوَّلِ يَوْ مٍ اَحَقّ ُ اَنْ تَقُوْمَ
فِيْہ
ِ ط ۔ (
التوبہ : ١٠٨ )
"وہ مسجد جس کی بنياد پہلے ہی دن سے تقویٰ پر رکھی گئی
وہی مستحق ہے کہ آپ اس ميں جائيں
"۔اسی طرح سارے امور
کی جان اللہ تعالٰی نے تقویٰ قرار ديا
۔سفرِ زادِراہ کا
مسئلہ ہو تو ارشادِ باری تعالٰی ہے :۔
وَ
تُزَ وَّ دُوْا فَِانَّ خَيرَ الزّادِ التُّقْویٰ ۔
(سفرميں )زادِ راہ لو اور سب سے اچھا تو شہ "تقویٰ " ہے
جسم کی زيب و زينت کی
بات ہو تو پھر "تقویٰ " ہی ملحوظِ نظر
و عمل رکھنے کی تلقين
فرمائی ۔
وَلِبَاسُ التَّقْویٰ ذَالِکَ خَيْرُ، ۔ ( الاعراف : ٢٦ )
اور تقویٰ کا لباس سب سے بہتر ہے ۔
عفو ودرگزر
خداوند کريم نے عفو و
درگزر کو " تقویٰ " کے نہايت ہی قريب
قرار ديا ۔
وَ
اَنْ تَعْفُوْ آ َ اَقْرَبُ لِلتَّقْویٰ ۔ ( بقرہ : ٢٣٧ )
اگر تم معاف کردو تو يہ " تقویٰ " سے قريب تر ہے ۔
ايک اور آيت ميں قصور
کرنے والوں کو معاف کر دينے
کااشارہ اس طرح
فرمايا :۔
وَ
لْيَعْفُوْ ا وَ لْيَصْفَحُوْ اط اَلاَ تُحِبُّوْ نَ اَنْ
يَّغْفِرً اللہُ لَکُمْ
وَ
اللہُ غَفُوْرُ، رَّ حِيْمُ، ہ ( النور : ٢٢ )
" چاہے کہ وہ معاف کر ديں اور درگذر کريں ۔کيا تم يہ پسند
نہيں کرتے کہ خدا تم کو معاف کر دے ۔اور اللہ تعالٰی معاف
کرنے والا اور مہربان ہے " ۔
غصّہ اور غضب کے وقت
ضبط و سکون کے حاملين اور
معاف کر دينے والوں
کے بارے ميں اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمايا :۔
وَ
اِذَ امَا غَضِبْوُ اھُمْ يَغْفِرُ وُ نَ ہ ( شوریٰ : ٣٧ )
" اور جس وقت غصّہ آئے تو وہ معاف کرتے ہيں "۔
وہ لوگ جو عفوو درگزر
کو اپنا شعار بناتے ہيں اللہ تعالٰی نے
سورۃ آل عمران آيت ١
ميں ان کی مغفرت اور ان کے لئے
وسيع جنّت کا وعدہ
فرمايا ہے ۔
سورۃ شوریٰ ميں صبر
اور معاف کر دينے کی صفت کو بڑی
اہميّت کی بات قرار
ديا گيا ۔
وَ
لَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذَالِکَ لَمِنْ عَزِْم ا ْلاُ مُوْ رِ ۔ (
شوریٰ : ٤٣ )
" جس نے صبرکيا اور معاف کيا تو بڑی ہمّت کی بات ہے " ۔
عفوودرگزر کی فضيلت
ميں ايک بار رسول اللہ صلی اللہ عليہ
وسلم نے ارشاد فرمايا
:۔
و
ما زاد اللہ رجلاً يفوٍ الا عزّا ۔
" درگزر کرنے والے کی اللہ تعالٰي عزت بڑھا ديتا ہے "۔
اللہ تعالٰی نے قرآنِ
حکيم ميں محسنين کی جن صفات کے ساتھ
تعريف کی ان ميں معاف
اور درگزر کرنے کی صفت کو بھی گِنا ۔
وَ
اْ لکَا ظِمِيْنَ ا لْغَيْظَ وَ ا لَعَا نِيْنَ عَنِ النَّاسِ ط
وَ اللہُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ
ہ ( آل عمران : ١٣٤ )
" غصّے کو پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے
،اور اللہ نيکی کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے "۔
ترمذی شريف کی حديث ہے
کہ ايک شخص نے رسول اللہ
صلی اللہ عليہ وسلم سے
آکر کہا ": يا رسول اللہ صلی اللہ
عليہ وسلم ! ميں اپنے
خادم کا قصور کتنا معاف کروں
"۔ رسول اللہ صلی اللہ
عليہ وسلم نے ارشاد فرمايا
": ہر روز ستر بار "۔
حضرت ابو سعود صحابی
رضی اللہ عنہ کا بيان ہے ،وہ
فرماتے ہيں کہ " ايک
دفعہ ميں اپنے غلام کو پيٹ رہا تھا
،پيچھے سے آواز آئی
"جان لو،جان لو "۔ديکھا تو حضور
نبی کريم صلی اللہ
عليہ وسلم ارشاد فرمارہے تھے
":ابو سعود ! جتنا تم
خادم پر قابو رکھتے ہو اس سے زيادہ
تم پر خدا قابو رکھتا
ہے "۔ابوسعود رضی اللہ عنہ فرماتے
ہيں کہ اس بات کا مجھ
پر اتنا اثر ہوا کہ پھر ميں نے
کسی خادم کو نہ مارا
"۔
سچائي
قرآنِ حکيم نے صدق اور
سچائی کو بھی متّقی کی صفات ميں گِنا ۔
وَ
الَّذِ يْ جَآ ٕ بِالّصِدْق ِ وَ صَدَّ قَ بِہ اُوْ ٓلٰيِکَ ھُمُ
الْمُتَّقُونَ ہ ( الزمر : ٣٣ )
" جو سچ لے کر آيا اور اس کو سچّا بھی جانا سو وہی پر ہيز گار ہے "۔
صدق اور سچائی کو جہاں
خدائی صفت ہونے کا شرف حاصل
ہے وہاں انسانی اخلاق
کے ميدان ميں بھی اسے سب سے
اعلٰی اور اونچا مقام
حاصل ہے ۔ صدق چونکہ دل اور زبان
کی ہم آہنگی کا نام
ہے ۔اس لئے اگر سچائی اور صداقت
حاصل ہو اجائے تو
نيکيوں کا حصول آسان ہو جاتا ہے ۔
اعمال اور اخلاق کی
بنياد سچائی ہے ۔اسی لئے اسلام نے
صرف "صدق " کے اختيار
کرنے کا حکم ہی نہيں ديا بلکہ
ہميشہ سچّوں کے ساتھ
رہنے کا مسلمانوں کو پابند بناتے
ہوئے اس کو تقویٰ کا
ايک تقاضا قرار ديا ہے ۔
يٰآ َيُّھَا الَّذِ يْنَ اٰمَنُوااتَّقُوااللہَ وَ کُونُوْا مَعَ
اْلصّٰدِقيْنَ ہ ( التوبہ : ١١٩ )
" اے اہل ايمان تقویٰ اختيار کرو اورسچّوں کے ساتھ ہو جاؤ "۔
قيامت کے دن بھی صدق
ہی کام آئے گا ۔
ھٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِ قِيْنَ صِدْ قُھُمْ ہ ( المائدہ : ١١٩ )
" يہ ايسا دن ہے کہ سچوں کو ان کا سچ ہی کام دے گا "۔
اماِم غزالی رحمتہ
اللہ نے احياء العلوم ميں " صدق " کی چھ اقسام
بيان کی ہيں :۔
-
زبان کی سچائی
-
نيّت کی سچائی
-
عزم کی سچائی
-
عزم کو تکميل تک
پہنچانے کی سچائی
-
عمل ميں سچائی
-
امورِ دينيہ ميں
سچائی
صدق کی برکت کے بارے
ميں حضور صلی اللہ عليہ وسلم
کی وہ روايت ملاحظہ
ہو جس ميں ايک شخص نے رسول اللہ
صلی اللہ عليہ وسلم
سے عرض کي تھی کہ مجھ ميں
چار بُری خصلتيں ہيں
،يارسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم
! ايک کو چھوڑ دينے
کی تلقين فرمائيں ۔تو آپ صلی اللہ عليہ
وسلم نے فرمايا تھا
": جھوٹ بولنا چھوڑدو "۔تو اللہ تعالٰی
نے ترکِ جھوٹ اور
سچائی اختيار کرنے کی وجہ سے اسے
ساری بُری خصلتوں سے
محفوظ کرديا۔ اللہ تعالٰی سچ اختيار
کرنے کی تو فيق عطا
فرمائے ۔
اِحسان
تقویٰ کا تعلق چونکہ
شخصی اور اجتماعی حسن اور جمال
کے ساتھ ہے ۔ظاہری
اور باطنی ہر قسم کی خوبياں تقویٰ ميں
داخل ہيں ۔يہی وجہ ہے
کہ قرآن حکيم ان تمام اوصاف شخصی
واجتماعی اور افعالِ
خير کے لئے ايک جامع اصطلاح "احسان
" استعمال کرکے اسے
تقویٰ کا تقاضا قرار ديتا ہے ۔
وَاِنْ تُحْسِنُوْا وَ تَتَّقُوْا ِفانَّ اللہَ کاَنَ بِمَا تَعْمِلُوْنَ
خَبِيْراً ہ ( النسا ٕ : ١٢٨ )
" اگر تم نيکی کرو اور تقویٰ اختيار کرو تو اللہ تعالٰی تمہارے
اعمال سے خبردار ہے "۔
ہر قسم کی نيکی خواہ
وہ بصورتِ فعل وعمل ہو يا تصّورو
عقيدۃ احسان کے مفہوم
ميں داخل ہے ليکن قرآنِ حکيم ميں
شکر،مصيبت سے نجات
دلانا،حقوق کی ادائيگی،صدقات اور قرضِ
حسنہ وغيرہ کو احسان
قرار ديا گيا ۔رسول اللہ صلی اللہ عليہ
وسلم نے رحم
وکرم،مہمان نوازی،تنگ دست کو مُہلت ،گردنوں
کے چھڑانے،صلہ
رحمی،اچھی گفتگو،ضعيف کی مدد،بھوکے
کو کھلانا،پياسے کو
پانی پلانااورايذارسانی سےاجتناب کرنے
کو" احسان " قرار ديا
۔
اللہ تعالٰی نے محسن
کے بارے ميں ارشاد فرمايا:۔
واللہُ يُحِبُّ اْلمُحْسِنِيْنَ ہ ( آلِ عمران : ١٣٤ )
" اللہ تعالٰی نيکی کرنے والوں سے محبّت کرتا ہے "۔
ايک مرتبہ حضرت
جبرائيل امين نے رسولِ کريم صلی اللہ عليہ
وسلم سے سوال کيا ۔
اخبر نی عن الاحسان ۔
" يارسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ! احسان کے بارے ميں
ہميں خبردار کيجئے "۔
حضور صلی اللہ عليہ
وسلم نے ارشاد فرمايا :۔
ان
تعبد اللہ کانک تراہ، فان لم تکن تراہ فانہ، يراک ۔
(
مشکوٰ ة : کتاب الايمان )
" تو اللہ کی عبادت ايسے کرے جَيسے کہ تو اُسے ديکھ
رہا ہے،يا اگر تو اسے نہيں بھی ديکھ رہا تو وہ تجھے ديکھ رہا ہے "۔
يہاں پر محدثين نے
احسان سے مراد " اخلاص "
ليا،چونکہ تصوف کی
حقيقت بھی يہی " اخلاص " ہے
جو بدرجہ اتم سالک کو
حاصل ہو جاتی ہے ۔اس اعتبار
سے بعض متصوفين نے
تصّوف کا ماخذ احسان قرار ديا۔
جس کو اگر اسلام سے
علٰيحدہ قرار نہ بھی ديا جاسکتا ہو
،تاہم پھر بھی کم ازکم
مسلمان کی عرفانی زندگی پر ضرور دلالت ہے ۔
صبر
سفينہ حيات کو موت کے
ساحل تک پہنچنےکے لئے متعدد
آبناؤں سے گزرنا پڑتا
ہے،کبھی تو حسين تمنائيں اور فرحت
بخش اميديں اس کا
استقبال کرتی ہيں اور کبھی غم وآلام اور
کرب ومصائب کے وجود
پاش تھپيڑے اس کو اپنے نرغے
ميں لے ليتے ہيں
۔حالات کے بيکراں سمندر ميں کبھی توطرب
ونشاط کی موجيں اُسے
بلنديوں پر اٹھا ليتی ہيں اور کبھی پر
يشانی اور اضطراب کے
وحشت ناک بھنور ميں جا پھينکتی ہيں ۔
حالات کي نوعا نوعی
اور ہيجان انگيز انقلابات کے تنوع
واختلافات پر کيا کسی
شخص کودل پر ہاتھ رکھ کر بيٹھ جانا
چاہيے۔کيامصائب پرآہ
و فغاں اور ماتم و نوحہ کے علاوہ بھی
کوئی راستہ ہے ۔
ہاں وہ لوگ جنہيں
قرطاسِ حيات پر واضح نقوش ثبت کرنے
ہوں۔ان کے لئے يہ
ضروری ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت مقاصدِ
زندگی کی تکميل کی
خاطر جان کادی،ديدہ ريزی اور محبت
ومشقت کے ساتھ ساتھ
نتائج کے انتظار ميں صبروثبات اور
استقامت واستقلال کا
دامن تھامے رکھيں ۔
تقویٰ جومسلمان کے اس
کردار کانام ہے جس سے اس
کی شخصيّت ميں
حسن،توازن،سنجيدگی ،متانت اور
وقار پيدا ہوتا ہے
۔مصائب وآلام کے وقت صبر اور
مصابرہ بھی اس کا ايک
تقاضا ہے ۔
يٰآ َ يُّھَاالَّذِ يْنَ اٰمنَوْا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَرَابِطُوْا
قف
وَ اتَّقُوااللہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ہ ( آلِ عمران :
٢٠٠ )
" اے ايمان والو ! صبرکرواور ثابت قدم رہو،خدمت حق کے
لئے آمادہ رہو اور تقویٰ اختيار کرو تاکہ تمہاری فلاح ہو "۔
صبر کا معنٰی کياہے ؟
علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہيں ۔
تنگی اور شّدت کے وقت
روکنے کو صبر کہتے ہيں ۔
عرب کہتے ہيں " صبرتُ
الدّابہ " ميں نے بغير چارہ کے
جانور کو روک
ليا۔جانشين بنا لينے کے معنوں ميں بھی يہ کلمہ
استعمال ہوتا ہے
۔اصطلاحاً نيک اعمال کرنے اور بُرے
اعمال سے باز رہنے پر
نفس کوپابند رکھنا صبر کہلاتا ہے۔
مصابرہ کا مفہوم صبر
سے تھوڑا مختلف واقع ہوا ہے ۔
عام طور پراس کامطلب
دشمن کےمقا بلہ ميں پامردي دکھانا
ليا جاتا ہے ۔باطل کے
خلاف ايک دوسرے سے بڑھ کر کمر
بستگی کا مظاہرہ کرنا
بھی مصابرہ کے مفہوم ميں داخل
ہو سکتا ہے ۔
تيّاریٓ جہاد
مسلمان خالقِ کائنات
کی طرف سے وہ انقلابی جماعت ہے
جو ہر دم خدمتِ انسا
نيّت کے لئے کمر بستہ رہتی ہے
۔جہاں بھی اورجس وقت
بھی کوئی ابليس اور سرکش قوّت
" فساد " کے لئے اپنا
دامِ ہمرنگ زمين بچھاتی ہے ۔
ان کی خدائی صفوں ميں
حرکت آ جاتی ہے ۔ايک ايک
مسلمان لذّتِ حيات سے
بے آشنا ہو کر موت سے پيار
کرنے لگ جاتا ہے ۔
ظاہر ہے باطل اور
طاغوت کو درسِ عبرت دينے کے لئے
طاقت اور قوت کی
ضرورت پڑتی ہے ۔يہی وجہ ہے کہ قرآن
حکيم جہاں مسلمانوں
کو فلاحِ انسانيّت کے لئے ديگر صلاحيتيں
بروئے کار لانے کا
پابند کر تا ہے ،وہاں " اعدولھم ما استطعتم ۃ
کے تحت دشمن کے
مقابلہ ميں ہر طرح کی مادی تيّاری کا
حکم ديتا ہے ۔
" تقوی " جو کردارِ
مومن کا دوسرا نام ہے ۔اپنے حامل ميں
يہ فکر اور سوچ بھی
اجاگر کرتا ہے کہ غلبہ اسلام کے
لئے مسلمان کو ہر دم
دشمن کے مقا بلہ ميں تيّار اور کمر بستہ
رہنا چاہيئے "۔
ارشادِ ربّ زوالجلال
ہے ۔
وَرَابِطُوْا قف وَاتَّقُوااللہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ہ (
آلِ عمران : ٢٠٠ )
" خدمت حق کے لئے آمادہ اور تيّاررہو اور تقویٰ اختيار کرو
تا کہ تمہاری فلاح ہو " ۔
ربط اور رباط کا لغوی
معنیٰ تو گھوڑے کو حفاظت کے
لئے کسی جگہ مضبوطی
سے باندھ دينا ہو تا ہے اور اس سے
" رباط الجيش " کا
لفظ استعمال ہوتا ہے اصلاحی طور پر اپنے
آپ کو غلبہ دين کے
لئے آمادہ ،عبادت کا پابنداور دشمن کے
مقابلے ميں کمر بستہ
رہنے کو رباط کہتے ہيں ۔
صاحِب مفردات نے "
رباط " کے مفہوم کے سلسلے ميں
رسول اللہ صلی اللہ
عليہ وسلم کا ايک قول نقل کرتے
ہوئے يہ بھی لکھا ہے
کہ ايک نماز کے بعد دوسری
نماز کے لئےتيار رہنا
بھی " رباط " ہے ۔ " رباط " کااعلٰی مقام
اورمرتبہ يہی ہے کہ
انسان " جہاد فی سبيل اللہ " کے
لئے ہروقت تيار رہے ۔
حرمتِ سُود
معاشی بدحالی معاشرتی
بيمارياں پيدا کرتی ہے ۔غربت اور
افلاس،صبر اور استقامت
کی دولت کے بغير اخلاقی بيماريوں
کی بنياد بن جاتے ہيں
۔اخلاقی اقدار کے مٹ جانے کی وجہ
سے تعمير وترقی کے
ميدان ميں جمود طاری ہو جاتا ہے
۔اسلام ايک مکمل معاشی
نظام کی حثييت سے ايسی تمام بنيادی
کمزوريوں کا خاتمہ
کرنا چاہتا ہے ۔جن سے جسد ملّت کی
صحت بگڑ جانے کا
انديشہ ہو۔
سود جس کے لئے عربی
زبان ميں لفظ " ربا " استعمال ہوتا
ہے ۔اسلام کی نظر ميں
ايسی مذموم حرکت اور قبيح بيماری
ہے جس کا ارتکاب کرنے
والوں کے حق ميں قرآنِ حکيم
کی يہ وعيد ہے ۔
وَ
اتَّقُواالنَّارَ الَّتِیْ اُعِدَّ تْ لِلْکٰفِرِ يْنَ ہ ( آلِ عمران :
١٣١ )
" اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لئے تيار کی گئی ہے " ۔
امام ابوحنيفہ رحمتہ
اللہ عليہ اس آيت کے بارے ميں فرمايا
کرتے تھے کہ قرآن
مجيد کی سب سے زيادہ ڈرانے والی آيت
يہی ہے ۔ اس لئے کہ اس
آيت ميں آگ کی وعيد ان لوگوں
کے لئے جو کافر تو
نہيں ليکن اللہ کی حرام ٹھہرائی ہوئی
چيزيں حلال جانتے ہيں
۔
احکاِم الٰہی سے بے
رغبتی اور بے اعتنائی برتنا چونکہ
" تقویٰ " کے منافی ہے
اس لئے اللہ تبارک تعالٰی شيد ائيانِ
اسلام کے لئے ضروری
قرار ديتا ہے کہ وہ سود جسيی قبيح
حرکت سے بچيں ۔فرمانِ
خداوندی ہے :۔
يٰٓ َيُّھَا الَّذِ يْنَ اٰمَنُوْالاَ تَاْ کُلُوْاالّرِ بٰوااَضْعَافاً
مُّضٰعَفَتہً
وَاتَّق |