Naqshbandia Sardaria The Silsila Of Hadhrat Abu Baqar Sidiq (ra)

 

سلسلہ عالیہ نقشبندیہ سرداریہ

 

 
اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِيَآءَ اللّٰهِ لَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَۖ ۚ‏ ﴿٦۲﴾ سن رکھو کہ جو خدا کے دوست ہیں ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ﴿٦۲﴾                                                                                                                                 سلسلہ عالیہ نقشبندیہ سرداریہ                                                                                                            The Silsila Of Hadrat Abu Bakar Sidiq (RA)                                    اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد                 مبارک ھو مسلما نوں اس دور زلا لت میں ھوا اکمل ولی الله یک داھے دھر پیدا کیا جس نے بنظر کرم اپنے فیض باراں سے قلب کے باغ ویراں میں مہبت کا ثمر پیدا     شریعت مصطفے کو جس نے زندا کر کے دکھلایا           میرے حضر ت کو آکر گر عقید ت سے کوئ دیکھے تو اس کے د ل میں  ھو گا دل یقین جلوہ زکر پیدہ                                            اگر کوئ طا لب الله ھو میر ے پا س آے یک لخت اس کو الله والا بنا د و نگا

 

السلسلة علية الطريقة النقشبندية

 

ضرورتِ مرشدِ کامل

مرشد کامل جو عالم ربانی ہی ہوتا ہے، کی صحبت اور تربیت کیوں ضروری ہے اس موضوع پر حضرت امام ربانی مجدّد و منوّر الف ثانی قدس سرہٗ فرماتے ہیں:
مخدوما مقصدِ اقصیٰ و مطلبِ اسنیٰ وصول بجنابِ قدسِ خداوند است جلّ سلطانہ لیکن چوں طالب در ابتدا بواسطہٗ تعلقاتِ شتیٰ درکمال تدنّس و تنزّل است و جنابِ قدسِ او تعالیٰ در نہایت تنزّہ و ترفّع و مناسبتے کہ سبب افاضہ و استفاضہ است درمیانِ مطلوب و طالب مسلوب است لاجرم از پیرِ راہ دان، راہ بین چارہ نبود کہ برزخ بود و ازہر دو طرف حظِّ وافر دارد تا واسطۂ وصول طالب بامطلوب گردد۔

(مکتوب ۱۶۹ دفتر اول حصہ سوم)
اے محترم! انسانی زندگی کا مقصد اعلیٰ بارگاہ قدس میں ہی پہنچنا ہے، لیکن چونکہ مرید شروع میں بہت سے تعلقات سے وابستہ ہونے کی وجہ سے انتہائی میلے پن اور پستی میں ہوتا ہے، جبکہ ذات باری تعالیٰ انتہائی پاکیزہ اور بہت بلند ہے۔ اس لیے فائدہ پہنچانے اور فائدہ حاصل کرنے کے لیے طالب اور مطلوب کے درمیان جو مناسبت چاہیے وہ موجود نہیں، لہٰذا اسکے راستہ سے باخبر اور راستہ کو صحیح دیکھنے والے پیرِ کامل کے سوا کوئی چارہ نہیں جو درمیان میں واسطہ ہو اور اللہ تعالیٰ سے قرب اور عام انسانوں سے رابطہ رکھتا ہو تاکہ وہ مطلوب کے ساتھ طالب کے وصول کا ذریعہ بنے۔

ضرورتِ تصوّف

بنیادی طور پر نفس انسان کو نیک کاموں سے روکتا اور برائیوں پر اکساتا ہے۔ اِنَّ النًّفْسَ لَاَمَّارۃٌ بِالسُوْءِ اِلَّامَارَحِمَ رَبِّی (بے شک نفس برائی کا حکم دیتا ہے مگر جس پر میرے رب نے رحم فرمایا)۔ بلاشبہ نفس انسان کو جھوٹ، فریب، حسد، دھوکہ دہی، قتل و غارت گری جیسی برائیوں پر آمادہ کرتا ہے، اور جو انسان اسکا کہا مانتا ہے وہ عند اللہ ناکام و نامراد ہوجاتا ہے۔ جبکہ وہ خوش قسمت انسان ہے جو اسکا کہا نہیں مانتا، بلکہ نفس کو اپنے زیر کرلیتا ہے اور تمام اخلاقی آلائشوں سے پاک رہتا ہے اور احکام الٰہی کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے۔ اس طرح وہ کامیاب و کامران ہوجاتا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھا۝ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰہا۝ (بے شک وہ کامیاب ہوا جس نے نفس کو پاک کیا اور وہ نامراد ہوا جس نے اس کو خاک میں ملادیا)۔

نفسانی عیوب: عیب تین قسم کے ہیں۔ 1؂ بدعقائد 2؂ بد اعمال 3؂ غفلت۔ ان ہی پر انسان کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار ہے۔ تصوف و سلوک کے ذریعے ایک سالک ان عیبوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے عظیم شیخ حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ فرماتے ہیں ہمارے طریقہ عالیہ نقشبندیہ کا مدار تین چیزوں پر ہے۔ اول اہل السنۃ والجماعۃ کے عقیدوں پر پختہ ہونا، دوم دوام حضور، سوم عبادت۔ جس کسی نے ان تینوں میں سے ایک میں بھی کوتاہی کی تو وہ ہمارے طریقہ عالیہ سے نکل گیا۔ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہیں کہ عزت دیکر پھر ذلیل نہ کرے اور قبول کرکے رد نہ کرے۔

حضرت امام ربانی قدس سرہٗ فرماتے ہیں: مقصود از سلوکِ طریقِ صوفیہ حصولِ از یادِ یقین است بمعتقداتِ شرعیہ کہ حقیقت ایمان است ونیز حصولِ سیر است در احکامِ فقہیہ نہ امر دیگر ورائے آں۔

ترجمہ: صوفیاء کے طریقہ پر چلنے کا مقصد یہ ہے کہ شریعت کے عقائد پر یقین میں اضافہ ہو جو کہ ایمان کی حقیقت ہے، ساتھ ہی فقہی احکام یعنی نماز روزہ وغیرہ ادا کرنے میں آسانی پیدا ہو (اسلئے کہ شیخ کامل کی صحبت کی برکت سے اعمال صالحہ کا شوق پیدا ہوتا ہے) اسکے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں۔

اسی موضوع پر مولانا عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں: ان حضرات کے نزدیک تصوف کا مفہوم محض اس قدر تھا کہ اتباع کتاب و سنت میں انتہائی سعی کی جائے، اسوۂ رسول صلّی اللہ علیہ وسلم و صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو دلیلِ راہ رکھا جائے اور اوامر و نواہی کی تعمیل کی جائے، طاعات و عبادات کو مقصودِ حیات سمجھا جائے، قلب کو محبت و تعلق ماسوا سے الگ کیا جائے، نفس کو خشیت الٰہی سے مغلوب کیا جائے اور صفائی معاملات و تزکیۂ باطن میں جہد و سعی کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ ہونے پائے۔

برصغیر پاک و ہند کے مشہور عالم و عارف حضرت الحاج فقیر اللہ علوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ جن کی بین الاقوامی شہرت یافتہ کتاب ”قطب الارشاد“ کے متعلق ولی کامل مرشدی حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہٗ فرمایا کرتے تھے کہ یہ کتاب حضرت امام غزالی قدس سرہٗ کی مشہور و معروف کتاب احیاء علوم الدین کے پائے کی کتاب ہے، کتابِ مذکور کے صفحہ نمبر 532 میں فرماتے ہیں۔

 

اِنَّ الْعُلَمَآءَ مِنَ الْمُتَکَلِّمِیْنَ وَالْفُقَہَاءِ وَالْمُحدِّثِیْنَ الْمُجْتَہِدِیْنَ وَالْصُوْفِیَۃَ الْوُجُوْدِیَۃَ وَالْشُہُوْدِیَۃَ اَجْمَعُوْا عَلیٰ اَنَّ طَرِیْقَ الْصُوْفِیَۃِ اَصْوَبُ الطُّرُقِ اِلَی اللہ دَائِر عَلیٰ الْکِتَابِ وَالْسُنَّۃِ خَالٍ عَنِ البِدَعِ وَالضَّلَالِ۔

 

بلاشبہ علماء متکلمین، فقہاء، محدثین، مجتہدین، صوفیاء کرام خواہ توحید وجودی کے قائل ہوں یا توحیدِ شہودی کے قائل، سبھی کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ صوفیاء کرام کا طریقہ بارگاہ الٰہی تک پہنچنے کا درست ترین طریقہ ہے جو کہ قرآن و حدیث کے مطابق ہے۔ گمراہی اور بدعتوں سے خالی ہے۔

اسی صفحہ میں اپنے دعویٰ کے ثبوت میں حضرت الحاج فقیر اللہ علوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور کتاب المُنْقِذُ مِنَ الضَّلالِ میں مذکور آپ بیتی ان ہی کی زبانی نقل کی ہے۔

عَلِمْتُ یَقِیْنًا اَنَّ الصُوْفِیۃَ ھُمُ السَّالِکُونَ لِطَرِیْقِ اللہ خَاصَّۃً وَاَنَّ سِیْرَتَہُمْ اَحْسَنُ السِیَرِ وطَرِیْقَہُمْ اَصْوَبُ الطُرُقِ وَاَخْلاقَہُمْ اَزْکیَ الْاَخْلَاقِ فَاِنَّ حَرَکَاتَہُمْ وَ سَکَنَاتَہُمْ فیْ ظَاھِرِھِمْ وَبَاطِنِہِمْ مُقْتَبِسَۃٌ مِنْ مِشْکَوٰۃِ النُّبُوَۃِ وَلَیْسَ وَرَاءَ النُبُوَّۃِ عَلیٰ وَجْہِ الاَرْضِ نُوْرٌ یُسْتَضآءُ بہٖ۔

 

میں نے یقین سے جان لیا ہے کہ بلاشبہ صوفیاء کرام ہی خدا تعالیٰ کے راستے پر گامزن ہیں اور ان کی سیرت احسن سیرت ہے اور انکا طریقہ تمام دوسرے طریقوں سے بہتر طریقہ ہے اور انکے اخلاق تمام اخلاق میں عمدہ ہیں اور انکے حرکات و سکنات ظاہر میں اور باطن میں نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کے سینۂ اطہر سے اخذ کیے ہوئے ہیں اور ظاہر ہے کہ روئے زمین پر نورِ نبوت صلّی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کوئی نور ہے ہی نہیں جس سے روشنی حاصل کی جاسکے۔

جیسا کہ حضرت علوی علیہ الرحمۃ نے تحریر فرمایا کہ تصوف و طریقت قربِ الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہیں، کوئی اور منزلِ مقصود نہیں ہے۔ سالک کی آخری منزل معرفت اور قربِ خداوندی ہے جس کے حصول کے لیے صوفیائے کرام نے مختلف ادوار و اوقات میں مختلف ذرائع و اسباب سے استفادہ کیا ہے، اختصار کے پیش نظر ہم یہاں صرف وہ اصول و ضوابط تحریر کریں گے جو ہمارے مشائخ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں معمول و مروج ہیں۔

کامل ولی کی اہم علامات


قرآن و سنت کا عالم ہو، گو کسی مدرسہ سے فارغ التحصیل عالم نہ ہو لیکن بقدر ضرورت قرآن مجید کے معانی اور کسی حد تک احادیث مبارکہ جانتا ہو۔ فقہی مسائل سے پوری طرح واقف ہو۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ پیرومرشد کا اصل منصب ہی یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کا امر کرے جن کا شریعت نے حکم دیا ہے مثلاً نماز، روزہ، صبر و شکر، قناعت، توکل و تقویٰ کی تلقین کرے اور جن امور سے قرآن و حدیث نے روکا ہے مثلاً جھوٹ، غیبت چوری وغیرہ ان سے لوگوں کو روکے اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب وہ خود ان چیزوں سے باخبر ہوگا، ورنہ ”آنکس کہ خود گم است کرا رہبری کند“ کہ جو خود راستہ سے بھٹکا ہوا ہو وہ کسی اور کو کیا راستہ دکھائیگا۔ اور اس کے ساتھ مریدین کی تربیت حسنِ اخلاق و محبت سے کرے۔ ارشاد الٰہی ہے ”اُدْعُ اِلَیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ باِلحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ“
متقی و پرہیزگار ہو یعنی کبیرہ گناہوں سے محفوظ ہو اور صغیرہ گناہ اگر اتفاقاً سرزد ہوجائے تو اس پر اصرار نہ کرے، جلدی سے توبہ و رجوع الی اللہ کرے۔ دنیا سے زیادہ آخرت کی فکر رکھتا ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیوی کام کاج ہی نہ کرتا ہو، جائز و حلال طریقہ پر جتنا چاہے دنیوی کام بے شک کرے لیکن اسکی وجہ سے آخرت کے معاملہ میں کوتاہی نہ کرتا ہو۔ اعمال صالحہ شوق سے کرتا ہو اور دل سے ہمہ وقت متوجہ الی اللہ رہتا ہو، خواہ بظاہر کتنا ہی وقت دنیوی کاموں میں مصروف رہتا ہو۔ کسی شیخ کامل کی صحبت ادب و محبت سے اختیار کی ہو اور اس سے باطنی نور حاصل کیا ہو۔ یہ اس لیے لازم ہے کہ قدیم سے سنۃ الٰہیہ ہے کہ ”اِنَّ الرَّجُلَ لاے صْلحُ اِلَّا اِذَا رَءَ الْمُصْلَحِیْنَ“ کہ نیک لوگوں کو دیکھ کر ہی کوئی آدمی فلاح پاسکتا ہے۔ یہ بعینہٖ اسی طرح ہے جیسے کوئی علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو علماء کی صحبت اختیار کرتا ہے۔
مریدین کے مال و ملکیت میں طمع و لالچ نہ رکھتا ہو اورنہ یہ چاہے کہ کوئی میری تعریف یا تعظیم کرے۔ مریدوں کی صلاحیتوں سے باخبر ہو اور استعداد و صلاحیت کے مطابق انکی تربیت کرے۔ اگر خدانہ خواستہ کسی ناقص پیر کے حضور سے اس کے پاس کوئی مرید آجائے تو حکیم حاذق کی طرح پہلے اس کے مرض کی تشخیص کرے، اس کے بعد دوائی دے۔ اخلاقی کمزوریوں کو سمجھ کر تلقین کے ذریعے اسکی اصلاح کرے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ ناقص پیر جس نے خود سلوک کی تکمیل نہیں کی اور جذبہ کے مقام پر نہیں پہنچا، اس کی صحبت زہر قاتل ہے اور اسکی طرف رجوع کرنا مرض مہلک ہے۔ ایسے پیر کی صحبت سے بلند استعداد رکھنے والے مرید کی صلاحیتیں ضایع ہوجاتی ہیں۔ سلوک کی تکمیل صرف شیخ کامل مکمل کراسکتا ہے۔ لہٰذا ناقص پیر سے طریقت کی تعلیم حاصل کرنا جائز نہیں اور نہ اس سے جس کے آباء واجداد تو کامل و مکمل ولی تھے لیکن یہ انکی راہ پر نہیں چلا۔ اس لیے اس میں وہ صلاحیت نہیں ہے۔

 

علامات مرشد کامل

تصوف و طریقت کے ضمن میں تو شیخِ کامل کی علامات کا ذکر اجمالاً ہوا، تاہم یہاں مزید وضاحت سے مرشد کامل کی علامات بیان کی جاتی ہیں تاکہ کوئی لاعلم نووارد شخص پیر و مرشد کے نام پر کسی رسمی پیر کے ہتھے نہ چڑھ جائے، جس سے اسے بجائے فائدہ کے نقصان ہو۔ اس اہم موضوع پر طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے مشہور شیخ حضرت حاجی دوست محمد قندھاری قدس سرہٗ اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:
ولی کی پہلی علامت یہ ہے کہ عقائد کے لحاظ سے مکمل سنی ہو، بالفاظہ علامتِ ولی آن است کہ اولاً بر اعتقاد اہل سنت وجماعۃ معتقد و راسخ باشد۔
ترجمہ: ولی کی علامت یہ ہے کہ سب سے پہلے وہ اہل سنۃ والجماعۃ کے پختہ عقائد رکھتا ہو۔
حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہٗ نے بھی خواجہ جمال الدین حسین علیہ الرحمۃ کے نام تحریر کردہ اپنے مکتوب میں مرضیات حق جلّ تعالیٰ سبحانہٗ یعنی اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ امور میں عقائد اہل السنۃ کو سرِ فہرست ذکر کیا۔ آپ نے تحریر فرمایا۔
اولا تصحیح عقائد بمقتضائے آرائے صائبہ اہل السنۃ وجماعۃ شَکَرَ اللہ تَعالیٰ سَعْیھُمْ لازم داند، ثانیا عمل بموجب احکامِ شرعیہ فقہیہ و ثالثا سلوک طریقہ عالیہ صوفیہ قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم وَ مَنْ وُفِّقَ لِہٰذَا فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْ ھٰذَا فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانا مُبِیْنا
(مکتوب ۱۷۷ دفتر اول حصہ سوم)
سب سے پہلے اپنے عقائد اہل سنت والجماعت کے مطابق بنانے کو ضروری سمجھیں۔ دوسرا شرعی فقہی احکام کے مطابق عمل کریں۔ تیسرا صوفیائے کرام کے طریقہ پر چلیں۔ جس شخص کو بھی ان کاموں کی توفیق حاصل ہوئی اسے بڑی کامیابی حاصل ہوگئی اور جو اس سے محروم رہا وہ بڑے خسارے میں مبتلا ہوگیا۔
حضرت حاجی دوست محمد قندھاری علیہ الرحمۃ نے امر ثالث کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا۔
مقامات عشرہ صوفیہ علیہم الرحمۃ چنانچہ توبہ و انابۃ و زہد و ورع و صبر و شکر و توکل و تسلیم و رضا اجمالاً یا تفصیلاً حاصل نمودہ باشد و ایضا صحبتِ اورا اثرے و تاثیرے باشد کہ محبتِ دنیا و اہل دنیا بر دل ہم نشینان اوسر شود و غفلت از ہم صحبتانِ وے برطرف گردد، و ہمان ولی مذکور خود را از جمیع مخلوقات کم تر و بدتر داند نہ آنکہ ثنائے خود بزبان خود کند و باخلاق حمیدہ و اوصاف پسندیدہ از تواضع و علم و تحمل و بردباری و مروت و فتوت و سخاوت و تازہ روئی و نیک خلقی و راستی و عجز و نیاز و کم آزاری و پرہیز گاری از حرام و مشتبہ و مکروہ موصوف باشد۔
الغرض باتیان تمامی اعمال خیر آراستہ باشد و در جمیع امور باخلاق سرور عالم صلّی اللہ علیہ وسلم متخلق بود، پس صحبت ایں چنیں شخص نعمتے است عظمیٰ و دولتے است کبریٰ۔
(مکتوب 19 صفحہ نمبر)
 

صوفیاء کرام کے بیان کردہ مقامات عشرہ: توبہ یعنی رجوع الی اللہ، زہد یعنی دنیا سے بے رغبتی، پرہیز گاری، صبر و شکر، توکل، تسلیم و رضا اجمالاً یا تفصیلاً حاصل کرچکا ہو، نیز اس کی صحبت میں یہ تاثیر ہو کہ جو اس کی ہم نشینی اختیار کرے اس کا دل دنیا اور دنیا داروں سے لاتعلق ہوجائے اور اسکے ہم نشینوں کے دلوں سے غفلت دور ہوجائے، نیز وہ بزرگ اپنے آپ کو جمیع مخلوقات سے کم تر بلکہ بدتر جانتا ہو۔ اپنی تعریف خود نہ کرے اور وہ اخلاق حمیدہ اور اوصاف پسندیدہ مثلاً تواضع، علم، برداشت و بردباری، مروت و سخاوت اور خندہ پیشانی، خوش خلقی، سچائی، عجز و انکساری، سے موصوف ہو۔ دل آزاری سے حتی الوسعۃ دور رہتا ہو۔ حرام مشتبہ اور مکروہ سے پرہیز جیسے اوصاف سے موصوف ہو۔ غرضیکہ وہ تمام اچھے اعمال سے آراستہ ہو اور تمام امور میں نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سے متخلق ہو۔ پھر ایسے شخص کی صحبت نعمۃ عظمیٰ ہے اور بہت بڑی دولت۔

فضیلت سلسلہ عالیہ نقشبندیہ


اہل السنۃ والجماعۃ کے تمام مسالک برحق ہیں۔ قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ اور دوسرے طریقے، انکے مشائخ قابل قدر و قابل تعظیم ہیں۔ لیکن صوفیائے کرام کے دوسرے سلاسلِ طریقت سے طریقہ عالیہ نقشبندیہ کو کئی وجوہ سے فضیلت حاصل ہے۔
اول: اس سلسلہ کی ابتدا میں ذکر قلبی ہے، جس میں جذب ربانی ہے۔ جبکہ ذکر زبانی میں سلوک ہے۔ جذب اور سلوک دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں۔ سلوک میں بندہ ذکر اذکار اور ریاضت و مجاہدہ کے ذریعے خدا تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے، جبکہ جذب میں جو کہ ذکر قلبی کے ذریعے پیدا ہوتا ہے، خدا خود بندہ کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔
مولانا عبدالرحمٰن جامی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

:
نقشبندیہ عجب قافلہ سالار انند
کہ برند از رہِ پنہاں بحرم قافلہ را
از دلِ سالک رہِ جاذبۂ صحبتِشاں
می برد وسوسۂ خلوت و فکر چلہ را


(حضرات نقشبند عجب قافلہ کے سالار ہیں کہ اپنے متعلقین کو پوشیدہ طریقہ سے بارگاہ الٰہی تک لیجاتے ہیں۔ انکی صحبت کی کشش سالک کے دل سے خلوت کے خیال اور چلہ کشی کے فکر کو ختم کردیتی ہے۔)
دوم: سلسلہ نقشبندیہ کی فضلیت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سلسلہ میں اتباع رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کی ترقی و کمال کا تمام تر انحصار اتباعِ سنت پر ہے اور قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق محبوبیت الٰہی کے مقام پر فائز ہونے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہ۝ اے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بتائیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری تابعداری کرو اللہ تمہیں اپنا دوست بنائے گا۔
سوم: سلسلہ نقشبندیہ کے اقرب طرق یعنی خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کا سب سے نزدیکی راستہ ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس سلسلہ میں آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنے کا وسیلہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں جو کہ انبیاء علیہم السلام کے بعد تمام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں۔ ظاہر ہے وسیلہ جس قدر قوی ہوگا راستہ اتنی ہی جلدی اور آسانی سے طے ہوگا۔
چہارم: جہاں پر دوسرے طریقوں کی انتہا ہوتی ہے وہاں سے اس طریقہ کی ابتدا ہوتی ہے۔ اس طرح یہ طریقہ وصول الیٰ اللہ کا قریب ترین راستہ ہے۔ حضرت امام ربانی مجدد منور الف ثانی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں: ”مشائخ طریقہ نقشبندیہ قدس اللہ تعالیٰ اسرار ہم ابتدائے سیر از عالم امر اختیار کردہ اند۔۔۔ تا۔۔ مندرج گشت“۔
ترجمہ: سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے مشائخ نے سیر باطنی کی ابتدا عالم امر سے اختیار کی ہے، عالم خلق کو اسی کے ضمن میں طے کرلیتے ہیں۔ برخلاف دوسرے طریقوں کے مشائخ کے کہ وہ سیرکی ابتدا عالم خلق سے کرتے ہیں اور وہ عالم خلق طے کرلینے کے بعد ہی عالم امر میں قدم رکھتے اور مقام جذبہ میں پہنچتے ہیں۔ یہی و جہ ہے کہ طریقہ نقشبندیہ تمام طریقوں سے اقرب ہے اور یقینی طور پر دوسروں کی انتہا اسکی ابتدا میں ہے۔
اسی موضوع پر حضرت خواجہ احمد سعید فاروقی قدس سرہٗ لکھتے ہیں ”اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ سے لو لگانے کی کمی ہوگئی ہے، اس لیے صوفیائے نقشبند ایسے طالب کو پہلے ذکر قلبی کا طریقہ سکھاتے ہیں اور بجائے ریاضات و مجاہدات شاقہ کے عبادات کا حکم فرماتے ہیں اور تمام حالات میں اعتدال قائم رکھتے ہیں اور ان نقشبندی صوفیائے کرام کی توجہات دوسروں کی کئی چلہ کش توجہات سے بہتر اور اعلیٰ ہوتی ہیں اور طالبوں کو سنت رسول صلّی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور بدعۃ سے اجتناب کا حکم فرماتے ہیں اور جہاں تک ممکن ہوتا ہے ان کے حق میں رخصت پر عمل تجویز نہیں فرماتے۔ اسی لیے ان بزرگوں نے ذکر خفی کو اپنا طریقہ اختیار فرمایا۔

ضرورتِ تصوّف


بنیادی طور پر نفس انسان کو نیک کاموں سے روکتا اور برائیوں پر اکساتا ہے۔ اِنَّ النًّفْسَ لَاَمَّارۃٌ بِالسُوْءِ اِلَّامَارَحِمَ رَبِّی (بے شک نفس برائی کا حکم دیتا ہے مگر جس پر میرے رب نے رحم فرمایا)۔ بلاشبہ نفس انسان کو جھوٹ، فریب، حسد، دھوکہ دہی، قتل و غارت گری جیسی برائیوں پر آمادہ کرتا ہے، اور جو انسان اسکا کہا مانتا ہے وہ عند اللہ ناکام و نامراد ہوجاتا ہے۔ جبکہ وہ خوش قسمت انسان ہے جو اسکا کہا نہیں مانتا، بلکہ نفس کو اپنے زیر کرلیتا ہے اور تمام اخلاقی آلائشوں سے پاک رہتا ہے اور احکام الٰہی کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے۔ اس طرح وہ کامیاب و کامران ہوجاتا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھا۝ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰہا۝ (بے شک وہ کامیاب ہوا جس نے نفس کو پاک کیا اور وہ نامراد ہوا جس نے اس کو خاک میں ملادیا)۔
نفسانی عیوب: عیب تین قسم کے ہیں۔ 1؂ بدعقائد 2؂ بد اعمال 3؂ غفلت۔ ان ہی پر انسان کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار ہے۔ تصوف و سلوک کے ذریعے ایک سالک ان عیبوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے عظیم شیخ حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ فرماتے ہیں ہمارے طریقہ عالیہ نقشبندیہ کا مدار تین چیزوں پر ہے۔ اول اہل السنۃ والجماعۃ کے عقیدوں پر پختہ ہونا، دوم دوام حضور، سوم عبادت۔ جس کسی نے ان تینوں میں سے ایک میں بھی کوتاہی کی تو وہ ہمارے طریقہ عالیہ سے نکل گیا۔ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہیں کہ عزت دیکر پھر ذلیل نہ کرے اور قبول کرکے رد نہ کرے۔
حضرت امام ربانی قدس سرہٗ فرماتے ہیں: مقصود از سلوکِ طریقِ صوفیہ حصولِ از یادِ یقین است بمعتقداتِ شرعیہ کہ حقیقت ایمان است ونیز حصولِ سیر است در احکامِ فقہیہ نہ امر دیگر ورائے آں۔
ترجمہ: صوفیاء کے طریقہ پر چلنے کا مقصد یہ ہے کہ شریعت کے عقائد پر یقین میں اضافہ ہو جو کہ ایمان کی حقیقت ہے، ساتھ ہی فقہی احکام یعنی نماز روزہ وغیرہ ادا کرنے میں آسانی پیدا ہو (اسلئے کہ شیخ کامل کی صحبت کی برکت سے اعمال صالحہ کا شوق پیدا ہوتا ہے) اسکے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں۔
اسی موضوع پر مولانا عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں: ان حضرات کے نزدیک تصوف کا مفہوم محض اس قدر تھا کہ اتباع کتاب و سنت میں انتہائی سعی کی جائے، اسوۂ رسول صلّی اللہ علیہ وسلم و صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو دلیلِ راہ رکھا جائے اور اوامر و نواہی کی تعمیل کی جائے، طاعات و عبادات کو مقصودِ حیات سمجھا جائے، قلب کو محبت و تعلق ماسوا سے الگ کیا جائے، نفس کو خشیت الٰہی سے مغلوب کیا جائے اور صفائی معاملات و تزکیۂ باطن میں جہد و سعی کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ ہونے پائے۔
برصغیر پاک و ہند کے مشہور عالم و عارف حضرت الحاج فقیر اللہ علوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ جن کی بین الاقوامی شہرت یافتہ کتاب ”قطب الارشاد“ کے متعلق ولی کامل مرشدی حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہٗ فرمایا کرتے تھے کہ یہ کتاب حضرت امام غزالی قدس سرہٗ کی مشہور و معروف کتاب احیاء علوم الدین کے پائے کی کتاب ہے، کتابِ مذکور کے صفحہ نمبر 532 میں فرماتے ہیں۔
اِنَّ الْعُلَمَآءَ مِنَ الْمُتَکَلِّمِیْنَ وَالْفُقَہَاءِ وَالْمُحدِّثِیْنَ الْمُجْتَہِدِیْنَ وَالْصُوْفِیَۃَ الْوُجُوْدِیَۃَ وَالْشُہُوْدِیَۃَ اَجْمَعُوْا عَلیٰ اَنَّ طَرِیْقَ الْصُوْفِیَۃِ اَصْوَبُ الطُّرُقِ اِلَی اللہ دَائِر عَلیٰ الْکِتَابِ وَالْسُنَّۃِ خَالٍ عَنِ البِدَعِ وَالضَّلَالِ۔ بلاشبہ علماء متکلمین، فقہاء، محدثین، مجتہدین، صوفیاء کرام خواہ توحید وجودی کے قائل ہوں یا توحیدِ شہودی کے قائل، سبھی کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ صوفیاء کرام کا طریقہ بارگاہ الٰہی تک پہنچنے کا درست ترین طریقہ ہے جو کہ قرآن و حدیث کے مطابق ہے۔ گمراہی اور بدعتوں سے خالی ہے۔
اسی صفحہ میں اپنے دعویٰ کے ثبوت میں حضرت الحاج فقیر اللہ علوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور کتاب المُنْقِذُ مِنَ الضَّلالِ میں مذکور آپ بیتی ان ہی کی زبانی نقل کی ہے۔
عَلِمْتُ یَقِیْنًا اَنَّ الصُوْفِیۃَ ھُمُ السَّالِکُونَ لِطَرِیْقِ اللہ خَاصَّۃً وَاَنَّ سِیْرَتَہُمْ اَحْسَنُ السِیَرِ وطَرِیْقَہُمْ اَصْوَبُ الطُرُقِ وَاَخْلاقَہُمْ اَزْکیَ الْاَخْلَاقِ فَاِنَّ حَرَکَاتَہُمْ وَ سَکَنَاتَہُمْ فیْ ظَاھِرِھِمْ وَبَاطِنِہِمْ مُقْتَبِسَۃٌ مِنْ مِشْکَوٰۃِ النُّبُوَۃِ وَلَیْسَ وَرَاءَ النُبُوَّۃِ عَلیٰ وَجْہِ الاَرْضِ نُوْرٌ یُسْتَضآءُ بہٖ۔ میں نے یقین سے جان لیا ہے کہ بلاشبہ صوفیاء کرام ہی خدا تعالیٰ کے راستے پر گامزن ہیں اور ان کی سیرت احسن سیرت ہے اور انکا طریقہ تمام دوسرے طریقوں سے بہتر طریقہ ہے اور انکے اخلاق تمام اخلاق میں عمدہ ہیں اور انکے حرکات و سکنات ظاہر میں اور باطن میں نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کے سینۂ اطہر سے اخذ کیے ہوئے ہیں اور ظاہر ہے کہ روئے زمین پر نورِ نبوت صلّی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کوئی نور ہے ہی نہیں جس سے روشنی حاصل کی جاسکے۔
جیسا کہ حضرت علوی علیہ الرحمۃ نے تحریر فرمایا کہ تصوف و طریقت قربِ الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہیں، کوئی اور منزلِ مقصود نہیں ہے۔ سالک کی آخری منزل معرفت اور قربِ خداوندی ہے جس کے حصول کے لیے صوفیائے کرام نے مختلف ادوار و اوقات میں مختلف ذرائع و اسباب سے استفادہ کیا ہے، اختصار کے پیش نظر ہم یہاں صرف وہ اصول و ضوابط تحریر کریں گے جو ہمارے مشائخ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں معمول و مروج ہیں۔

تعلیمات مشائخ نقشبند


سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے عظیم شیخ حضرت حاجی دوست محمد قندھاری قدس سرہٗ اپنے ایک مختصر و جامع مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں: فقیر حقیر لاشئی دوست محمد عفی عنہ کی طرف سے شوق و محبت میں پُر سلام مسنونہ کے بعد دوستوں کے لیے نصیحتیں تحریر کی جاتی ہیں۔
معلوم ہونا چاہیے کہ طریقہ صوفیہ کی ترویج اور اجازت کے لیے یہ شرط ہے کہ شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلواۃ والسلام کے احکام پر ظاہری اور باطنی طور پر پوری طرح استقامت سے عمل کیا جائے اور حتیٰ الوسعۃ ذرہ برابر بھی حدود شرعیہ سے تجاوز نہ کیا جائے۔ اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر و مراقبہ میں مشغول رہیں۔ کم بولنا، کم سونا، کم کھانا چاہیے۔ توبہ، دنیا سے بے رغبتی، صبر، قناعت، توکل، شکر، خوفِ خدا، تسلیم و رضا کی وصفیں ہونی چاہییں۔ عام لوگوں کی طرح کشف و کرامت اور خلافِ عادت ظاہر ہونے والی باتوں کو کوئی اہمیت نہ دی جائے۔ اپنی ذات اور جملہ مخلوق سے امیدیں وابستہ نہ رکھی جائیں، مریدوں کے مال میں کوئی طمع نہ ہونی چاہئے۔ لوگوں کے عزت و احترام دینے یا رد کرنے کی پرواہ نہ کرنی چاہیے۔ دنیا اور دنیا داروں سے پرہیز کی جائے اور علماء اور فقراء کی خدمت جان و مال اور تن سے کی جائے۔ مخلوقِ خدا کی غیبت اور مذمت سے اجتناب کیا جائے۔ یہی شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلٰوۃ والسلام کا اجمالی بیان ہے۔
اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنَا مُتَابَعَۃَ حَبِیْبِکَ فِعْلاً وَ قَوْلًا وَ اِعْتِقَاداً، اَوَّلًا وَ اٰخِراً، ظَاھرا وَ بَاطِنًا۔

بیعت


تصوف کی راہ میں بیعت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے بغیر  کامل فائدےکا حصول ناممکن ہے اور یہ قرآن حکیم و احادیث مبارکہ سےبھی ثابت ہے۔
 جس طرح قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ إِنَّ الَّذِینَ یُبَایِعُونَکَ إِنَّمَا یُبَایِعُونَ اللَّہ تحقیق وہ لوگ جو آپ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرتے ہیں در
 حقیقت وہ خدا تبارک و تعالیٰ کی بیعت کرتے ہیں۔بیعت کی معنیٰ: بیعت کی لغوی معنیٰ حوالے کرنا، سپرد کرنافروخت کرنا کی جاتیہے۔ تصوف میں مرید کا اپنے شیخ کامل کے ہاتھ پر اپنےنفس کو سپرد کرنے اور فروخت کرنے کا نام بیعت ہے۔ یعنی اپنے تمام تر ارادوںو اختیارات اور خواہشاتنفسانی کو ختم کرکے خود کو شیخ کامل کے حوالے کردےاور راہ سلوک میں اسکی رضا و منشا کے خلاف کوئی بھی قدم نہ اٹھائے۔ اوراگر اس کے بعض احکاممرید کو صحیح معلوم نہ ہوں تو اس کو اپنے عقل کا قصور سمجھے اور ان افعالو اقوال کو افعال خضر علیہ السلام کے مثل سمجھے۔گویا کہ اپنے شیخ کے ہاتھوںمیں مردہ بدست زندہ بن کر رہے۔ اس کو ہی بیعت سالکین کہا جاتا ہے اور یہی مقصودمشائخ مرشدین ہے اور یہی وہ راستہ ہے جو خدائے عزوجل تک آسانی سے رسائیحاصل کرواتا ہے۔ یہی بیعت آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نےصحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے لی۔حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ہم نے رسول اکرم صلّیاللہ علیہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی کہ ہر آسانیو دشواری، ہر خوشی و ناگواریمیں حکم سن کے قبول کریں گے اور اس حکم کی اطاعت کاملہ کریں گے اور صاحب حکم کے کسی حکم میں چوں چرا نہیں کریں گے۔ شیخ کامل کا حکم بھی درحقیقت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہی ہوتا ہے، کیونکہ ولی کامل نائب رسول صلّی اللہ علیہ وسلم ہوتا ہے اور ولی کامل کی تعریف ہی یہی ہے کہ جو کامل طریقے سے اتباع رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم پر کاربندہو۔ تو اس کا کوئی بھی حکم شریعت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کےخلاف نہیں ہوگا، اس طرح شیخ کامل کا حکم رسول کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کا ہوا اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کا حکم اللہ کا حکم ہے اور اللہ عزوجل کے حکم میں مجال دم روا نہیں۔بیعت کی حیثیت و اہمیت: ائمہ دین اور مشائخ طریق کا اس امر میں اختلاف ہے کہ آیابیعت فرض ہے یا واجب، سنت ہے یا مستحب۔ جو افرادبیعت کو فرض کا درجہ دیتےہیں وہ اپنے مؤقف کے لیے قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کو دلیل بتاتے ہیں۔
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ وَابْتَغُواْ إِلَیہِ الْوَسِیلَۃوَجَاہِدُواْ فِی سَبِیلِہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونت
رجمہ: اے ایمان والو خدا سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور خدا تعالیٰ کےراستے میں جہاد کرو تاکہ تم کامیابی حاصل کرو۔دوسری آیت میں ہے وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ۝ اور اس شخص کے راستے کی پیروی کرو جو میری طرف رجوع کرتا ہو۔چونکہ مذکورہ دونوں آیات میں امر کا صیغہ لایا گیا ہے، اس لیے بیعت کو فرض سمجھا گیااور اس کے ساتھ جب بیعت علم الاحسان کا دروازہ ہے تواس کی فرضیت میں کیا شبہ ہے کیونکہ یہی عبادات کا مغز ہے۔بعض مفسرین کرام جو وجوب بیعت کے قائل ہیں انہیں
 دو مذکورہ آیات کی تفسیر کرتےلکھتے ہیں کہ صیغہ امر وجوب کی تعریف میں آتا ہے اوراگر بیعت فرض ہوتی تو اسکا انکار کرنے والا کافر ہوتا، حالانکہ علماء کا اتفاق ہے کہ بیعت سے انکار کرنے والا کافر نہیں ہے۔ اکثر علماء کا یہ خیال ہے کہ صیغہ امرسے مراد استحاب ہے دلیل کے طور پر کہتے ہیں کہ اگر بیعت فرض یا واجب ہوتی تواس کے ترک کرنےوالے کے لیے شارع علیہ السلام کے طرف سے کوئی وعید ہوتااور اس کو ترک کرنےوالا فاسق ہوجاتا مگر شریعت میں ایسا کوئی امر نہیں ہے اور طریقت شریعت کی ہی تابع ہے۔بیعت کا سنت ہونا: احادیث مشہور میں نقل کیا گیا ہےکہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس پربیعت کرتے تھے۔اکثر ارکان اسلام پر استقامت کے لیے بیعت کرتے تھے۔ کبھی معرکوں میں ثابت
قدم رہنے کے لیے، کبھی ہجرت کے لیے تو کبھی جہادکے لیے جیسے بیعت رضوان۔ قرآن کریم میں ان بیعتوں کا تذکرہ موجود ہے۔ سورہ فتح میں ارشاد ہے
إِنَّ الَّذِینَ یُبَایِعُونَکَ إِنَّمَا یُبَایِعُونَ اللَّہَ یَدُ اللَّہِ فَوْقَ أَیْدِیہِمْ فَمَن نَّکَثَ فَإِنَّمَاَنکُثُ عَلَی نَفْسِہِ وَمَنْ أَوْفَی بِمَا عَاہَدَ عَلَیْہُ اللَّہَ فَسَیُؤْتِیہِ أَجْرًا عَظِیمًا
آیت ۱۰ سورہ الفتح 
وہ در حقیقت اللہ عزوجل کی بیعت کررہے ہیں، اللہ تبارکترجمہ جو لوگ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کررہے ہیں و تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے۔ پھر جو شخص بیعت کو توڑے گا تو بیعت توڑنے کا وبال اسی پر ہوگااور جو شخص اس عہد کو پورا کرے گا جس کا بیعت کے وقت خدا سے وعدہ کیا تھا تو خدائے عزوجل جلد اس کو اجر عظیم عطا فرمائے گا ایک اور آیت میں ارشاد ہے:،:
لَقَدْ رَضِیَ اللَّہُ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ إِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْت
شَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِی قُلُوبِہِمْ فَأَنزَلَ السَّکِینَۃَ عَلَیْہِمْ وَأَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیبًا
اسورہ فتح آیت ۱۸
ترجمہ: بیشک اللہ تبارک و تعالیٰ مؤمنین سے راضی ہوا جب یہ لوگ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کررہے تھے اور جو کچھ ان کے قلوب میں تھاوہ اللہ کو معلوم تھا سو اللہ نے ان پر اطمینان نازل فرمایا اور قریبی فتح عطا فرمائی۔ان تمام تر آیات و دلائل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بیعت سنت ہے اورنہ صرف مردوں کے لیے بلکہ عورتوں کیلیے بھی، اور آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین و ائمہ ہادین و مشائخ عظام نے اس سنت کو جاری و رائج رکھا اور خواتین کو باپردہ بیعت سے نوازتے رہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیعت سنت ہے اور اس کی تاکید بھی ہے۔بیعت کا فائدہ: صاحب عوارف المعارف لکھتے ہیں کہ شیخ کے زیر حکم ہونا اللہ اور اس کے رسول کے زیر حکم ہونا ہے اور اس سنت کو وہی زندہ کرتا ہےجس نے اپنے جسم و روح کو شیخ کے حوالے کردیا اور اپنےارادے سے نکل آیا اور اپنا اختیار چھوڑ کر شیخ میں فنا ہوگیا۔ غرضیکہ بیعت فلاح باطنی ک لیے ہے جس سے یہ مقصود ہوتا ہے کہ اپنے اندر کوےخراب و پلید چیزوں سےپاک کرکے اسے روشن کیا جائے اور اپنے دل سے شرک خفی کو نکالاجائے۔ توجب بھی کوئی مرید نیت صحیحہ و اخلاص کے ساتھ اپنے شیخ کامل کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے اور اس کی صحبت میں رہ کر تمام آداب کو بجا لاتا ہےتو شیخ کامل کی باطنی نظر سے روحانی فیوض و برکات اس مرید کے قلب و باطن میں سرایت کرجاتےہیں اور مرید کا باطن روشن و منور ہوجاتا ہے۔ اس روحانی و باطنی انوار و تجلیات کاحصول شیخ کامل کی محبت و صحبت پر ہی منحصر ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب مریدشیخ کامل کی خدمت و صحبت میں حاضری کے وقت اپنے قلب و روح کو تمام تر توجہ کےساتھ پیر کی طرف مرکوز رکھے تاکہ شیخ کامل کی پاکیزہ فطرت و وظائف باطنی کے تناسب سے مرید کے اندر بھی روحانی ربط و ضبط بڑھتا رہےاور وہ عروج حاصل
 کرتا ہوا خدا کا قرب حاصل کرلے۔ مگر سالک ہمیشہ یہ یادرکھے کہ ان تمام منازلروحانی کا دارومدار شیخ کامل کی بیعت و صحبت میں ہی منحصر ہے۔
 

صحبت شیخ

جب یہ واضح ہوا کہ روح کی پاکیزگی و طہارت اور باطن کی ترقی اور خدائے عزوجل کے قرب کو حاصل کرنے کے لیے بیعت شیخ و صحبت شیخ ایک اہم ذریعہ ہے۔ اب ضروری یہ ہے کہ صحبت شیخ کی اہمیت و مقام کو پہچانا جائے تاکہ کامل طریقے سے مطلوبہ فوائد کو حاصل کیا جائے۔ سالک جب پیر کی صحبت میں حاضر ہو تو اپنے روح و قلب کو پیر کی طرف ہی متوجہ رکھے۔ کیونکہ پیر اپنی توجہ سے سالک کو فیض پہنچاتا ہے۔ اگر مرید باطنی طرح پیر کی طرف متوجہ نہ ہوگا تو اس کے حصے کا فیض کسی دوسرے مشتاق و متوجہ مرید کو حاصل ہوجائے گا کیونکہ مریدکی باطنی بے توجہی شیخ کامل کو اس کی طرف سے بے رغبت کردیتی ہے اور شیخ کامل مشتاق و متوجہ شخص کو اپنی توجہات سے نواز دیتا ہے۔ اس لیے صحبت میں بے توجہی سے بیٹھنا اپنے آپ کو محروم کردینا ہے۔
امام ربانی مجدد و منور الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ صحبت مرشد سے استفادہ حاصل کرنے کے بارے میں حکیم عبدالوہاب کو لکھتے ہیں کہ اولیاء کے پاس خالی ہوکر آنا چاہیے تاکہ بھرے ہوئے واپس جائیں، اور اپنی مفلسی کو ظاہر کرنا چاہیے تاکہ ان کو شفقت آئے اور مرید کے لیے فائدہ حاصل کرنے کا راستہ کھل جائے۔ سیر آنا اور سیر چلے جانا کچھ مزا نہیں دیتا، کیونکہ پرشکمی کا پھل بیماری کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ استغناء و بے پرواہی سے سوائے سرکشی کے اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔
امام ربانی علیہ الرحمۃ کے اس مکتوب مبارک سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پیر کی صحبت میں ہمیشہ اپنے باطن و قلب کی طرف مکمل دھیان رکھا جائے اور ان کی صفائی و درستگی کے لیے کوشاں رہا جائے۔ وہاں موجود دیگر سالکین، ذاکرین و شاغلین کی نگرانی نہ کرتا پھرے، اور اس کے علاوہ پیر کی صحبت میں یا اس کی درگاہ و خانقاہ میں کسی بھی ایسے فعل و قول سے دور رہے جس سے وہاں پر موجود کسی بھی شخص کو تکلیف یا ایذاء پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ پیر کے سامنے کبھی بھی فضول اور لایعنی بات نہ کرنی چاہیے کیونکہ اکثر اوقات اس طرح کی باتوں سے شیخ کامل کے قلب میں کلفت یعنی ناراضگی پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے جو کہ مرید کی ترقی کے لیے نہایت نقصان دہ چیز ہے۔ اس کے علاوہ مرید کو یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ صرف دور بیٹھے فون یا خط کے ذریعے پیر کو اپنے واقعات و حالات سے آگاہ رکھنا فائدہ مند نہیں، بلکہ صحبت شیخ میں حاضری ضروری و لازمی چیز ہے۔ صحبت شیخ کے بغیر مرید کو نفع بخش چیزیں حاصل نہیں ہوسکیں گی۔ اگر صحبت شیخ کے بغیر کوئی بھی مرید لاکھ اوراد و وظائف میں مصروف رہے تب بھی کچھ نفعہ حاصل نہیں کرسکتا۔ کیونکہ خدائے عزوجل کا طریقہ عطا یہ ہے کہ وہ نفعہ، انعام و فیض ہمیشہ وسیلے سے ہی جاری فرماتا ہے۔ اس لیے مرید کے لیے لازم ہے کہ نہ صرف صحبت میں آمدورفت کو ضروری سمجھے بلکہ اس میں کثرت کو لازم رکھے۔
حضرت خواجہ غریب نواز پیر مٹھا رحمت پوری رحمۃ اللہ علیہ اپنے مکتوبات مبارک میں تحریر فرماتے ہیں کہ صحبت شیخ میں اس قدر آمدورفت ہوکہ پیر کے وطن کو اپنا وطن اور گھر سمجھنے لگے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اولیائے کاملین نے صحبت شیخ کے لیے محبت شیخ کو شرط اول قرار دیا ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مکتوبات میں تحریر فرماتے ہیں کہ اگر الفت و محبت کے بغیر سالہا سال صحبت رہے تو بھی کوئی فائدہ برآمد نہ ہوگا۔ اس لیے مرید پر لازم ہے کہ فائدہ کے حصول کے لیے کامل محبت، مکمل توجہ اور یکسوئی کے ساتھ پیر کی صحبت میں حاضری دے۔ اسی طرح ہی مرید اس نظر کیمیا کا مستحق ہوسکے گا جو تمام عمر کے لیے سعادت بن جائے گی۔ اسی لیے ہمیشہ مشتاق بن کر محبت کی حق ادائیگی بجا لانی چاہیے تاکہ اس نظر کیمیا کا مستحق بن پائے۔

ذکر کرنے کا طریقہ


ذکر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بائیں جانب سینے کے اندر انسان کا دل واقع ہے۔ اس دل میں ذکر اسم ذات اللہ کا خیال رکھا جائے۔ جس طرح ہمیں پیاس لگتی ہے تو ہمارا خیال پانی کی طرف ہوجاتا ہے۔ مگر ہم زبان سے پانی پانی کا لفظ نہیں پکارتے۔ بس خیال سارا پانی کی طرف رہتا ہے۔ تو جس طرح پیاسے آدمی کا خیال و توجہ پانی کی طرف رہتا ہے اسی طرح یہ خیال دل میں پکانا چاہیے کہ میرا دل اللہ اللہ پکار رہا ہے۔ اس دوران زبان خاموش رہے بلکہ بہتر ہے کہ تالو کے ساتھ چسپاں رہے اور اس ذکر کا خیال ہر وقت و ہر لمحہ رکھنا چاہیے۔ اس کے لیے نہ وضو کی شرط ہے، نہ جسم کی پاکائی کی شرط ہے، نہ لباس کے پاک ہونے کی شرط ہے۔ تنہائی بھی شرط نہیں ہے۔ چوبیس گھنٹے آپ اپنے کام میں مصروف رہیں۔ کاروبار کرتے رہیں، سفر میں ہوں یا حضر میں، بازار میں ہوں یا گھر میں، صرف دل میں یہ خیال ہونا چاہیے کہ دل اللہ اللہ پکار رہا ہے۔ اس دوران اگر کوئی دوسرا خیال آئے تو اسے دفع کریں۔ کیونکہ خود خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے رِجَالُ لا تُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللہ۝ اللہ کے بندے وہی ہیں جن کو دنیاوی کام کاج اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتا۔ تو اس طرح کا خیال چند دن رکھنے سے دل اللہ کے ذکر میں جاری ہوجاتا ہے اور اس ذکر کے کرنے سے دل پاک و صاف ہوجاتا ہے اور دل میں خشیت و خوف خدا پیدا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے شریعت محمدی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر عمل آسان ہوجاتا ہے۔
حضرت خواجہ احمد سعید نقشبندی قدس سرہٗ تحریر فرماتے ہیں کہ اسم ذات کا ذکر اس طرح کرنا چاہیے کہ مرید و سالک زبان کو تالو سے لگائے اور دل کو تمام خیالات سے خالی کردے۔ پھر جس بزرگ سے ذکر لیا ہے، ان کے متعلق یہ سمجھے کہ وہ میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ پھر دل کی زبان سے اللہ، اللہ کہے، یعنی اللہ، اللہ کا مفہوم اپنے خیال میں رکھے اور یہ خیال کرے کہ میں اس ذات پر ایمان لایا جو تمام صفات کاملہ سے متصف ہے اور تمام صفاتِ ناقصہ سے پاکیزہ ہے۔ اکثر اوقات اسی ذکر پر ہمیشگی کرے یہاں تک کہ دل ذاکر ہوجائے۔
حضرت امام ربانی مجدد و منور الف ثانی قدس سرہٗ فرماتے ہیں۔
در ابتدا از ذکر گفتن چارہ نبود باید کہ متوجہ قلب صنوبری گردی کہ آں مضغہ ہمچوں حجرہ ایست مر قلبِ حقیقی را و اسم مبارک اللہ را براں قلب گذاری و دریں وقت بقصد ہیچ عضوے را حرکت نہ دہی و بکلیت متوجہِ قلب نشینی و در متخلیہ صورتِ قلب را جاند ہی وبآں ملتفت نباشی چہ مقصود توجہ بقلب است نہ تصویر صورت آں و معنیٰ لفظ مبارک اللہ را بیچونی و بے چگونی ملاحظہ نمائی و ہیچ صفت را بآں منضم نہ سازی۔
(مکتوب نمبر ۱۹۰ دفتر اول حصہ سوم)
یعنی ابتداء سلوک میں سالک کے لیے ذکر کے سوا کوئی چارہ نہیں، چاہیے کہ اپنے قلب کی طرف متوجہ رہے کہ یہ گوشت کا ٹکڑا حقیقی قلب کے لیے حجرہ کی مانند ہے۔ اسم مبارک اللہ کو اسی قلب پر گذاریں اور اس وقت جان بوجھ کر کسی عضو کو حرکت نہ دیں بلکہ پوری طرح سے اپنے قلب کی طرف متوجہ ہونا چاہیے نہ کہ اس کی شکل و صورت کی طرف، لفظ مبارک اللہ کے معنیٰ کو بے مثل و بے مثال سمجھتے ہوئے ملاحظہ کریں لیکن اسکے ساتھ بھی کسی صفت کو خیال میں نہ لائیں۔

ذکر قلبی
ذکر اللہ خواہ قلبی ہو یا زبانی انفرادی ہو خواہ اجتماعی، اسکی فضیلت و اہمیت مسلم ہے۔ لیکن قرآن و حدیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ذکرِ قلبی کی فضیلت بدرجہا ذکرِ زبانی سے زیادہ ہے۔ البتہ اگر اللہ تعالیٰ کسی بندے پر خصوصی فضل فرمانا چاہے اور اپنے حضور اسے خوش قسمت بندہ لکھ دے اور اس کو یہ توفیق دے کہ ہر وقت زبانی ذکر بھی کرتا رہے اور اسکا دل بھی اسی کے موافق ذکر میں شاغل رہے اور اسے زبانی ذکر سے قلبی ذکر کی طرف ترقی حاصل ہوجائے۔ یہاں تک کہ اگر زبان خاموش ہو پھر بھی دل خاموش نہ ہو، اسی کو ذکرِ کثیر کہا جاتا ہے۔
ذکر کی فضیلت میں بین الاقوامی شہرت کے حامل ایک اور محقق و محدث حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بیان کی ہے۔
عَنْ اَبِی الدَّرْدآءِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم اَلا اُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرِ اَعْمَالِکُمْ وَ اَزْکٰہَا عِنْدَ مَلیْککُمْ وَاَرْفَعِہَا فیْ دَرَجَاتِکُمْ وَ خَیْرٍ لَّکُمْ مِّنْ اِنْفَاقِ الذَّہَبِ وَالْوَرْقِ وَ خَیْرٍ لَّکُمْ مِّن اَنْ تَلْقُوْا عَدُوَّکُمْ فَتَضْرِبُوْا اَعْنَاقِہُمْ وَیَضْرِبُوْا اَعْنَاقَکُمْ قَالُوْا بَلیٰ قَالَ ذِکْرُ اللہ
(مشکواۃ المصابیح صفحہ ۱۹۸)
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں تمہارے اعمال میں سے بہتر عمل کی خبر نہ دوں جو تمہارے رب کے نزدیک زیادہ پاکیزہ ہو، جو تمہارے اعمال میں سب سے بلند مرتبہ ہو، جو تمہارے سونا اور چاندی کے خیرات کرنے سے زیادہ اچھا عمل ہو، جو تمہارے لیے اس عمل سے بھی بہتر ہو کہ تم دشمنوں سے مقابلہ کرکے انہیں قتل کرو اور وہ تمہارے گردنوں پر وار کریں؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہاں یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔
محدث کبیر حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
اَلْمُرَادُ الذِّکْرُ الْقَلْبِیُّ فَاِنَّہٗ ھُوَ الَّذِیْ لَہُ الْمَنْزِلَۃُ الزَّائِدَۃُ عَلیٰ بَذْلِ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ لِاَنَّہ عَمَلُ نَفْسِیُّ وَفِعْلُ الْقَلْبِ الَّذِیْ ھُوَ اَشَقُّ مِنْ عَمَلِ الْجَوَارِحِ بَلْ ھُوَ الْجِہَادُ الْاَکْبَرُ
(مرقاۃ المفاتیح صفحہ نمبر ۲۲ جلد ثالث)
اس ذکر سے ذکر قلبی مراد ہے۔ یہی وہ ذکر ہے جس کا مرتبہ جان و مال خرچ کرنے سے بھی زیادہ ہے۔ کیونکہ یہ باطنی عمل ہے اور دل کا عمل ہے جو کہ دوسرے اعضاء کے اعمال سے نفس کے لیے زیادہ سخت ہے۔ بلکہ یہی جہاد اکبر ہے۔

ذکر قلبی کا اجر ستر گنا زیادہ ہے
محدث کبیر حضرت علامہ ملا علی قاری قدس سرہ نے اپنی مرتب کی ہوئی احادیث کی کتاب مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح کے صفحہ ۳۴۲ جلد اول پر حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ذکر کی ہے۔
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُوْل اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم لَفَضْلُ الذِکْرِ الخَفِیِّْ الَّذِیْ لَا یَسْمَعُہُ الحَفَظَۃُ سَبْعُونَ ضِعْفًا اِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِے امَۃِ وَجَمَعَ اللہ الخَلَائِقَ لحِسَابِہِمْ وَ جَائَتِ الْحَفَظَۃُ بِمَا حَفِظُوْا وَکَتَبُوْا، قَالَ لَھُمُ انْظُرُوْا ھَلْ بَقِیَ لَہٗ مِنْ شَیْئٍ فَیَقُوْلُونَ مَا تَرَکْنَا شَیْئًا اِلَّا وَقَدْ اَحْصَیْنَاہُ وَکَتَبْنَاہ ُفَیَقُوْلُ اللہ اِنَّ لَکَ عِنْدِیْ حَسَناً لَا تَعْلَمُہٗ وَاَنَا اَجْزِیْکَ بِہٖ وَھُوَ الذِکْرُ الخَفِیّ، کَذا ذَکَرَہٗ السیوطی فی البدورِالسافرۃِ
(ذکر الرحمٰن صفحہ ۱۷)
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس مخفی ذکر کو انسان کے ساتھ رہنے والے فرشتے نہیں سنتے وہ ستر مرتبہ اس ذکر سے جس کو فرشتے سنتے ہیں یعنی زبانی ذکر سے فضیلت میں بڑھ کر ہے۔ جب قیامت کا دن ہوگا اور اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کو حساب کتاب کے لیے پیش ہونے کا ارشاد فرمائے گا تو جو کچھ فرشتوں کو یاد ہوگا یا جو انہوں نے لکھا ہوگا وہ سب لے آئیں گے، اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا دیکھو اس بندہ کے اعمال میں سے کوئی چیز رہ تو نہیں گئی ہے؟ فرشتے عرض کریں گے کہ یا الٰہ العالمین جو کچھ ہم جانتے ہیں اور جو ہم نے یاد کیا وہ پوری طرح لکھ کر لے آئے ہیں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائیگا تیری ایک نیکی میرے پاس موجود ہے جسے یہ فرشتے نہیں جانتے اور میں تجھے اس کا بدلہ ضرور دوں گا اور وہ نیکی ذکر خفی ہے۔


حلقۂ ذکر و مراقبہ


صوفیاء کرام کے یہاں مراقبہ کے بہت سے طریقے رائج ہیں۔ ہمارے مشائخ طریقہ عالیہ نقشبندیہ غفاریہ بخشیہ میں جو مراقبہ مروج ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ دل کو ادھر ادھر کے خیالات سے فارغ کرکے پورے اطمینان سے ذات باری تعالیٰ کی طرف اپنے شیخ کامل کے توسط سے متوجہ ہوا جاتا ہے۔ یہ مراقبہ اجتماعی طور پر بھی کیا جاتا ہے اور انفرادی طور پر بھی۔ بزرگان دین کے یہاں ذکر کے لیے جمع ہوکر گول دائرہ کی شکل میں بیٹھ کر ذکر کرنا متقدمین سے لیکر آج تک مروّج رہا ہے اور یہ تمام سلاسل میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ بعض جہری ذکر کرتے اور بعض تلاوت قرآن مجید اورحمد و نعت کی صورت میں حلقہ ذکر قائم کرتے ہیں۔ مقصد سبھی کا ایک ہے یعنی کچھ دیر کے لیے دنیا ومافیہا سے تعلقات توڑ کر ہمہ تن اپنے خالق و مالک کی طرف متوجہ ہوا جائے۔
اس قسم کے حلقۂ ذکر و مراقبہ کی اصل درج ذیل حدیث شریف ہے۔
عَنْ انس قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم اِذَا مَرَرْتُمْ بِرِیَاضِ الْجَنَّۃِ فَارْتَعُوْا قَالُوْا وَمَا رِیَاضُ الجَنَّۃِ قَالَ حِلَقُ الذِّکْرِ۔
الجامع للترمذی
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے جب تم جنت کے باغوں کے قریب سے گذرو تو خوب کھالیا کرو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم جنت کے باغ کونسے ہیں؟ فرمایا ذکر کے حلقے یعنی گول دائرہ کی شکل میں بیٹھ کر ذکر کرنا۔
اس حدیث شریف کی شرح میں برصغیر پاک و ہند کے مشہور محدث حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہٗ لکھتے ہیں: و درایں حدیث دلیل است برآں کہ تحلیق برائے ذکر مشروع است۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ذکر کے لیے گول دائرہ بنانا شریعت مطہرہ کے مطابق ہے۔
ذکر اللہ کے لیے جمع ہونا، ذکر کرنا، سننا، بلکہ خاموشی سے ذکر والوں کی مجلس میں بیٹھنا بھی باعثِ برکت و نزولِ رحمت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم لَایَقْعُدُ قَوْمٌ یَذْکُرُونَ اللہ اِلَّا حَفَّتْہُمُ المَلَاِئِکَۃُ وَغَشِیَتْہُمُ الرَحْمَۃُ وَنَزَلَتْ عَلَیْہِمُ السَکِیْنَۃُ وَ ذَکَرُھُمُ اللہ فِیْمَنْ عِنْدَہٗ۔
(رواہ مسلم مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ۱۹۶)
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو بھی قوم ذکر اللہ کے لیے بیٹھتی ہے تو ان کو فرشتے گھیرلیتے ہیں اور ان پر رحمت الٰہی چھا جاتی ہے اور ان پر اطمینان و سکون نازل ہوتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ ان ذکر کرنے والوں کو اپنے مقرب فرشتوں میں یاد فرماتا ہے۔
مذکورہ احادیث سے حلقہ و مراقبہ کی فضیلت واضح ہوتی ہے۔ اسی لیے صوفیائے کرام نے اللہ تعالیٰ کے ذکر قلبی کی مشق کرنے اور اس کو جاری کرنے کے لیے مراقبہ کو نہایت اکسیر قرار دیا ہے۔ مراقبہ کا طریقہ یہ ہے کہ جب فراغت ہو آنکھیں بند کرلیں اور اگر کپڑا میسر ہو تو اپنے سر ڈال لیں، دل سے تمام خیالات محو کرکے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو موجود سمجھ کر یہ تصور کریں کہ اللہ کا ذکر ہورہا ہے، اور حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کا فیض اللہ والوں کے سینوں سے ہوتا ہوا میرے قلب میں پہنچ رہا ہے۔ جس طرح ہم اندھیرے میں ٹارچ جلاتے ہیں تو اس سے روشنی کی شعاع نکلتی ہے جس کی وجہ سے سامنے ہر چیز واضح ہوجاتی ہے۔ اسی طرح یہ تصور کریں کہ ایک نورانی شعاع ہمارے قلب میں پہنچ رہی ہے اور ہمارا قلب منور ہورہا ہے۔ اس طریقے سے معرفت الٰہی کا راستہ سہل و آسان ہوجاتا ہے۔ مصنف قطب الارشاد حضرت الحاج فقیر اللہ علوی مراقبہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
اَلْمَرَاقَبَۃُ وَھِیَ اَشْرَفُ اَسْبَابِ الوُصُوْلِ وَاَسْھَلُ طُرُقِ حُصُوْلِ الْمَعْرفَۃِ وَ اَقْرَبُہَا وَھِیَ مُشْتَقَّۃٌ مِنْ التَرَقُّبِ وھُوَ انْتِظَارُ الْمَطْلُوبِ اَوْ مِنَ الرَّقِیْبِ وَھِیَ مُحَافَظَۃُ القَلْبِ۔
(قطب الارشاد صفحہ ۵۶۱)
مراقبہ وصول الی اللہ کے اسباب میں زیادہ معتبر اور معرفۃ الٰہی کے حصول کا آسان اور قریب تر راستہ ہے، مراقبہ ترقب سے مشتق ہے اور اسکا مقصد ہے مطلوب حقیقی کا انتظار کرنا یا رقیب سے مشتق ہے اور اسکا مقصد ہے اپنے قلب کی حفاظت کرنا۔
حضرت خواجہ احمد سعید قدس سرہ فرماتے ہیں مراقبہ کا مادہ رقب ہے جسکا معنیٰ ہے انتظارکرنا اور مراقبہ کا مطلب یہ ہے کہ سالک بغیر ذکر اور بغیر رابطۂ شیخ اپنے دل کو خیالات فاسدہ سے محفوظ رکھ کر پوری طرح اللہ تعالیٰ کے طرف دھیان رکھے اور اسکا طریقہ یہ ہے کہ عاجزی اور انکساری کے ساتھ ہر وقت ذات الٰہی کی طرف متوجہ رہے تاوقتیکہ بلاشرکت غیر، توجہ الی اللہ اسکی عادت بن جائے۔ اس کو حضور بھی کہتے ہیں اور ذکر سے مقصود بھی یہی ہے۔ اسی لیے حضرت مولانا عبداالرحمان جامی علیہ الرحمۃ نے کیا خوب فرمایا ہے۔ شعر:
نقشبندیہ عجب قافلہ سالاراند
برندہ پنہاں بحرم قافلہ را
مشائخ نقشبند قافلہ طریقت کے عجیب قائد ہیں کہ روحانیت کے مخفی راستے سے اپنے قافلہ کو بارگاہ الٰہی میں پہنچادیتے ہیں۔

اصطلاحات طریقہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ


اے عزیز جاننا چاہیے کہ طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے چند اصول ہیں جن پر طریقہ عالیہ کا دارومدار ہے اور ان پر عمل کیے بغیر نقشبندی سلسلہ کی نسبت حاصل نہیں ہوتی، الاماشاء اللہ۔
اصطلاحات نقشبندیہ کے نام سے مشہور ان پرتاثیر و مفید اصول میں سے
ہوش دردم
نظر بر قدم
سفر در وطن
خلوت در انجمن
یاد کرد
باز گشت
نگہداشت
یادداشت۔

یہ آٹھ اصطلاحات خواجۂ خواجگان حضرت عبدالخالق غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہیں، جبکہ انکے بعد تین اور اصطلاحات
وقوف زمانی
وقوف عددی اور
وقوف قلبی

کا خواجہ خواجگان حضرت شاہ نقشبند بخاری قدس سرہٗ نے اضافہ فرمایا ہے۔

 اس طرح اصطلاحات سلسلہ نقشبندیہ کی تعداد گیارہ ہے۔تشریح اصطلاحات


۱۔ ہوش در دم
ہوش در دم کا مطلب یہ ہے کہ سالک اپنی ہر سانس کے متعلق ہوشیار و بیدار رہے کہ خدا کی یاد میں صرف ہوا یا غفلت میں، اور یہ کوشش کرے کہ ایک سانس بھی اس کی یاد سے غفلت میں نہ گذرے۔ اس لیے چاہئے کہ ہر ساعت کے بعد اس طرح غور کرتا رہے تاوقتیکہ اسے دائمی حضور حاصل ہوجائے۔ غور کرنے پر اگر کبھی غفلت معلوم ہو تو استغفار کرے اور آئندہ کے لیے توبہ کرے اور اس سے بچنے کا پختہ ارادہ کرلے۔


دم بدم دم را غنیمت دان و ہمدم شو بدم
واقفِ دم باش در دم ہیچ دم بیجا مدم


ہر وقت ہر سانس کو غنیمت جان اور دم کے ساتھ ہمدم ہوجا۔ اپنے ہر ایک سانس سے باخبر رہ کوئی ایک سانس بھی بے مقصد نہ لے۔
حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند قدس سرہٗ نے فرمایا ہے ”اس طریقہ کا دارو مدار ہی دم یعنی سانس پر ہے۔ سانس اندر آتے یا باہر جاتے وقت غفلت میں ضایع نہ ہونے پائے۔ ہر ایک سانس حضورِ دل سے ہو۔“
حضرت شاہ نقشبند قدس سرہٗ کا ذاتی عمل کیا تھا اور انہوں نے کس طرح اپنے دم کی حفاظت کی، اس بارے میں حضرت مولانا عبدالرحمٰن جامی قدس سرہٗ تحفۃ الاحرار میں فرماتے ہیں

کم زدہ بے ہمدمی وہوش دم
در نگذشتہ نظرش از قدم
بس زخودکردہ بسرعت سفر
باز نماندہ قدمش ازنظر


یعنی حضوری اور غور کے سوا کم ہی سانس لیے تھے، انہوں نے قدم سے آگے اپنی نظر نہ بڑھائی تو جلدی سے آگے کا سفر شروع کیا اور ان کا قدم رکا نہ رہا بلکہ قرب الٰہی حاصل کرلیا۔


۲۔ نظر بر قدم


نظر بر قدم سے یہ مراد ہے کہ سالک چلتے پھرتے وقت اپنی نظر پاؤں پر یا اسکے قریب رکھے۔ آگے دور دور تک بلاوجہ نہ دیکھے اور بیٹھنے کی صورت میں اپنے سامنے دیکھے، دائیں یا بائیں نہ دیکھے۔ نہ ہی عام لوگوں کی بات چیت کی طرف متوجہ ہو کہ ممکن ہے ادھر ادھر دیکھنے سے کسی غیر محرم پر نظر پڑجائے یا نامناسب کلام سن لے اور اس طرف متوجہ ہوجائے اور مقصد اصلی سے توجہ ہٹ جائے جو کہ بہت بڑا خسارہ ہے۔
شرع شریف میں بحالت نماز قیام کے وقت سجدہ کی جگہ اور رکوع میں پشت قدم اور سجدہ میں ناک کی چوٹی پر اور قعدہ میں اپنی جھولی پر نظر رکھنے کا حکم بھی اس لیے ہے کہ نمازی کو جمعیۃ قلبی حاصل رہے اور اسکے خیالات منتشر نہ ہونے پائیں۔
ایک مفید نقل: حضرت ربیع بن خیثم رضی اللہ عنہ ہمیشہ سر جھکائے رہتے تھے، یہاں تک بعض لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ شاید آپ نابینا ہیں۔ حضرت مسعود رضی اللہ عنہ جن کے گھر بیس برس سے آتے جاتے تھے، ان سے فرماتے تھے بخدا اے ربیع اگر رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم آپ کو دیکھتے تو بہت خوش ہوتے۔ اسی طرح اور بھی بہت سے بزرگوں کے متعلق مشہور ہے کہ انہوں نے چالیس چالیس برس تک سر اٹھا کر آسمان کی طرف نہ دیکھا۔
صوفیاء کرام کے دیگر اعمال کی طرح نظر بر قدم کا یہ عمل بھی قرآن مجید سے ثابت ہے۔ ارشاد خداوندی ہے قُلْ لِلْمُؤمِنِیْنَ یغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ۔ اے پیغمبر صلّی اللہ علیہ وسلم آپ مسلمانوں سے فرمادیں اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔


وقت رفتن برقدم بایدنظر
ہست سنت خیر البشر
اندریں حکمت بس است وبے شمار
دیدہ خواہد طالبِ حق آشکار


ترجمہ: چلتے وقت نظر پاؤں پر ہونی چاہیے کہ یہ نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور اس میں بہت سی حکمتیں ہیں، جن کو طالب ظاہر ظہور دیکھے گا۔
شیخ العرب والعجم حضرت پیر فضل علی قریشی مسکین پور ی قدس سرہٗ فرمایا کرتے تھے کہ ہر وقت نظر بر قدمِ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم رہے، یعنی ہر لمحہ شریعت و سنت پیش نظر ہو اور تمام حرکات و سکنات، اخلاق و عادات سنت نبویہ کے مطابق ہوں اور یہی طریقہ عالیہ نقشبندیہ کی امتیازی علامت ہے۔


۳۔ سفر در وطن


سفر در وطن سے باطنی و روحانی سفر مراد ہے اور اسکا مطلب یہ ہے کہ سالک گھر بیٹھے بری بشری صفات مثلاً حسد، تکبر، کینہ، حب جاہ و مال وغیرہ کو ترک کرکے مَلکی یعنی فرشتوں والی صفات مثلاً صبر و شکر، رضا بالقضا، اعمالِ صالحہ اور ان میں اخلاص اختیار کرلے۔ ایسا کرنے سے غیر اللہ کی محبت دل سے ختم ہوجائیگی اور روحانی ترقی حاصل ہوگی۔ اگر کبھی دل میں غیر کی محبت معلوم ہو تو اس کو اپنے لیے خسارہ کا باعث جان کر کلمہ ”لا“ سے اسکی نفی کرے اور ”الَّا اللہ“ کے کلمہ مبارکہ سے محبت الٰہی کا اثبات کرے اور پھر سے اپنے خالق و مالک و مولیٰ عزوجل کی طرف متوجہ ہوجائے اور گھر بیٹھے قرب الٰہی سے لطف اندوز ہو، بقول مولانا عبدالرحمٰن جامی قدس سرہٗ السامی


آئینۂ صورت از سفر دور است
کآں پذیرائے صفت از نور است


ترجمہ: آئینہ صورت کی طرف سفر نہیں کرتا کیونکہ صورت کا قبول کرنا اسکی اپنی صفائی اور نورانیت کے سبب سے ہے۔ یہ تو ایک مشاہدہ کی بات ہے کہ کوئی بھی صورت منعکس کرنے کے لیے خود آئینہ کسی کے پاس نہیں جاتا۔ اگر آئینہ صاف و شفاف ہے تو جو بھی شکل و صورت اسکے سامنے آجائے گی اس میں نقش دکھائی دیگی۔ اسی طرح دل کا آئینہ بھی اگر موجودات کے تصورات کی آلائشوں سے پاک و صاف ہوگا تو گھر بیٹھے محبوب حقیقی جل وعلیٰ کی تجلیات کا اس پر نزول ہوگا اور وہ دل حدیث نبویہ ”قَلْبُ الْمُؤْمِنِ بَیْتُ اللہ“ کہ مؤمن کا دل خدا کا گھر ہے، کے مطابق خدا کا گھر بن جائے گا۔
سیدی و مرشدی سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہٗ فرمایا کرتے تھے کہ جس نے اپنے دل میں مال و دولت اور خواہشات نفسانیہ کو جگہ دی تو بمطابق ”ولے سلطان محبوباں غیور است“ یعنی محبوبوں کا سردار بہت غیرت مند ہے، تو اس دل میں مالک کون و مکان، خالق انس و جان رب العزۃ جل تعالیٰ سبحانہٗ کا ٹھکانا نہیں ہوسکتا اور اس دل کو قلب المؤمن بیت اللہ کا شرف حاصل نہیں ہوسکتا۔ البتہ اس صورت میں یہ ممکن ہے کہ دل میں یاد الٰہی ہو اور اس میں ذرہ برابر بھی غیر اللہ کی محبت و الفت نہ ہو، ساتھ ہی اسکے پاس مال و دولت بھی ہو لیکن اسکا دل اس کی محبت سے خالی ہو۔
فائدہ: یاد رہے کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام اور اولیاء اللہ علیہم الرحمۃ والرضوان کی محبت اور اسی طرح اگر کسی اور چیز یا شخص سے محبت اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہے تو وہ غیر اللہ کی محبت میں شمار نہیں ہوگی۔ بلکہ انکی صحبت و محبت باطنی ترقی اور قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ مفسر قرآن علامہ صاوی علیہ الرحمۃ آیت نمبر ۳۵ سورہ مائدہ کے تحت لکھتے ہیں وسیلہ جس سے قرب الٰہی حاصل ہوتا ہے وہ انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء اللہ کی محبت، صدقات و خیرات، اہل اللہ کی زیارت، کثرۃ دعا، صلہ رحمی، کثرۃ ذکر وغیرہ یہ سبھی وسیلہ میں سے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ جس چیز سے اللہ کا قرب حاصل ہو اس کو لازم پکڑو اور جو اس سے دور کرے اس سے دور رہو۔


۴۔ خلوۃ در انجمن


اس کا مطلب یہ ہے کہ سالک کا دل ہمیشہ یاد الٰہی میں مشغول رہے، خواہ خاموش ہو یا بات چیت کر رہا ہو یا کھا پی رہا ہو، لیکن اس کا دل پلک جھپکنے کی دیر بھی اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ ہو۔ بزرگان دین فرماتے ہیں: اَلْصُوْفِیْ کَائِنٌ فِیْ الخَلْقِ بِحَسْبِ الظَاھِرِ وَباَئِنٌ عَنِ الخَلْقِ بِحَسْبِ البَاطِن۔ یعنی صوفی وہ ہے جو ظاہر میں تو لوگوں سے میل جول رکھتا ہو لیکن اس کا باطن مخلوق سے بالکل جدا ہو۔
حضرت شاہ نقشبند قدس سرہٗ فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ ”رِجَالٌ لَاتُلْہِیْھِم ْتِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللہ۝“ (وہ ایسے لوگ ہیں جن کو تجارۃ اور خرید و فروخت اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل نہیں کرتی) اسی مذکورہ حالت کی طرف اشارہ ہے۔ یہ آیت حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جس میں انکے ہر وقت ذکر کرنے اور متوجہ الی اللہ رہنے کا ذکر اور ساتھ ہی بعد والوں کے لیے اسکی ترغیب ہے۔
طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے ایک اور شیخ حضرت عزیزان علی رامیتنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، شعر


از دروں شو آشنا و از بروں بیگانہ اش
ایں چنیں زیبا روش کم مے شود اندر جہاں


ترجمہ: اپنے باطن کے متعلق باخبر رہ اور بیرونی اشیاء سے بے خبر ہوجا، کیونکہ ایسی عمدہ وصف جہاں میں کم ہی پائی جاتی ہے۔
مروی ہے کہ کسی شخص نے حضرت شاہِ نقشبند قدس سرہٗ سے دریافت کیا کہ آپکے طریقہ کی بنیاد کس چیز پر ہے۔ آپ نے جواباً ارشاد فرمایا خلوت در انجمن پر یعنی ظاہر باخلق اور باطن باخدا ہونے پر ہمارے طریقہ عالیہ کا مدار ہے۔
سیدی و مرشدی حضرت سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ ذکر قلبی کی تلقین کے وقت عموماً یہ ارشاد فرماتے تھے دست بکار و دل بیار۔ یعنی ہاتھ کام کاج میں مصروف رہیں لیکن دل محبوب حقیقی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے۔ مزید فرماتے تھے کہ ہاتھوں سے جائز و حلال طریقہ پر خواہ چوبیس گھنٹے تجارت، زراعت، ملازمت یا مزدوری کرتے رہو، مگر تمہارے دل میں ہر وقت یہ خیال رہے کہ میرا دل ذکرکررہا ہے اللہ، اللہ، اللہ۔۔۔۔۔۔


از بروں درمیانِ بازار
و از دروں خلوتے است بایارم


ترجمہ: میرا جسم تو بازار میں ہے لیکن میرا باطن اپنے یار یعنی اللہ رب العزت کے ساتھ ہے۔
۵۔ یادکرد
یادکرد کا مطلب یہ ہے کہ سالک کو مرشد کامل نے جس طرح بھی ذکر اسم ذات کی تلقین کی ہو، اسی کے مطابق ذکر میں مشغول رہے۔ خواہ وہ ذکر قلبی ہو یا جہری یانفی و اثبات۔ اس میں سستی و کوتاہی نہ کرے۔ دل کی محبت اور لگن کے ساتھ مسلسل ذکر کرتا رہے یہاں تک کہ حضورِ حق تعالیٰ حاصل ہوجائے۔


ذکر کن ذکر کن تا ترا جان است
پاکئے دل زذکرِ رحمان است


ترجمہ: ذکر کرتے رہو، ذکر کرتے رہو جب تک تمہاری جان میں جان ہے۔ دل کی پاکیزگی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہی حاصل ہوتی ہے۔
آیہ کریمہ وَاذْکُرُوا اللہ کَثِیْرًا لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۔ کہ اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ ذکر کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ سے صراحۃ ثابت ہوتا ہے کہ کامیابی و کامرانی کا مدار ذکر اللہ پر ہے۔
حضرت شاہ نقشبند قدس سرہٗ فرماتے ہیں اَنَّ الْمَقْصُوْدَ مِنَ الذِکْرِ اَنْ یَکُونَ القَلْبُ دَائِماَ حَاضِرًا مَعَ الحَقِ بِوَصْفِ المَحِبَّۃِ والتَعْظِیْمِ لِاَنَّ الذِّکْرَ طَرْدُ الغَفْلَۃ۔ یعنی ذکر سے مقصود یہ ہے کہ دل ہر وقت اللہ تعالیٰ کے حضور محبت اور تعظیم کے اوصاف کے ساتھ حاضر رہے، اس لیے کہ ذکر نام ہی غفلت دور کرنے کا ہے۔
حضرت خواجہ علاؤالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
باش دائم اے پسر در یادِ حق
گر خبر داری زعدل وداد حق
ترجمہ: اے صاحبزادہ اگر تجھے اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کا علم ہے تو چاہیے کہ ہر وقت اسے یاد کرتا رہ۔


۶۔ بازگشت


یعنی رجوع کرلینا اور اسکا مطلب یہ ہے سالک کچھ دیر ذکر کرنے کے بعد بارگاہ الٰہی میں یہ مناجات کرے


خداوندا مقصود ما توئی و رضائے تو
محبت معرفت خود مرا بدہ


ترجمہ: الٰہی میرا مقصود تو اور تیری رضا ہے، مجھے اپنی محبت و معرفت عطا کردے۔ یہ کلمات دل ہی دل میں کمال عجز و انکساری سے کہے، تاکہ ذکر و فکر سے جو سرور یا نور حاصل ہوا ہو اس پر طالب مغرور نہ ہو، نہ ہی اسکو اپنا مقصود سمجھ لے، بلکہ محبت و رضائے الٰہی کے لیے کوشاں رہے۔


مولانا روم علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
اے برادر بے نہایت در گہے است
ہرچہ بروے می رسی دروے مأیست


ترجمہ: بھائی جان یہ بے انتہا درگاہ ہے، جس مقام پر بھی تو پہنچے وہاں کھڑا نہ رہ جا بلکہ آگے بڑھتا رہ۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد مرشد قدس سرہٗ سے سنا ہے کہ ذکر میں بازگشت شرط عظیم ہے، لائق نہیں کہ سالک اس سے غافل رہے، ہم نے جو کچھ پایا اسی کی برکت سے پایا ہے۔


۷۔ نگہداشت


نگہداشت کا مطلب یہ ہے کہ سالک ذہنی تصورات اور وسوسوں کو دل سے نکال باہر کردے اور ہر وقت ان خیالات و خطرات کے دل میں آنے سے بیدار و ہوشیار رہے تاکہ کوئی خطرہ دل میں جاکر گھر نہ بنالے کہ پھر اس کے نکالنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ جب بیرونی خطرات و خیالات کا آنا ختم ہوجائے گا تو سالک کو ملکہ جمعیۃ و طمانیت یعنی ایک طرح سے سکون و فرحت حاصل ہوجائے گی اور وہ فناء قلب کا مقام حاصل کرلیگا۔ البتہ اگر پھر بھی خیالات پیدا ہوں یا زائل نہ ہوں تو سالک کو چاہیے کہ ذکر اللہ میں محو ہوجائے اور اپنے شیخ کامل و مکمل کا تصور کرلے تو انشاء اللہ تعالیٰ غیر کے خیالات اور وسوسوں سے چھٹکارہ حاصل ہوجائے گا۔
حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند بخاری قدس سرہٗ فرماتے ہیں، سالک کو چاہیے کہ خطرہ و خیال کو ابتداء ہی سے روک دے ورنہ جب یہ ظاہر ہوجائیں گے تو نفس ان کی طرف مائل ہوجائے گا اور جب نفس میں انکا اثر مضبوط ہوجائے گا تو پھر ان کا دور کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔
نگہداشت کا ملکہ حاصل ہوجانے کے بعد سالک نہ فقط غیر کے خیالات و خطرات سے دور رہتا ہے، بلکہ بعض اوقات اسے اپنی جان تک کا علم نہیں رہتا چنانچہ خواجۂ خواجگان حضرت پیر مٹھا رحمت پوری رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق مشہور ہے کہ تبلیغ دین اور وعظ و نصیحت میں آپ اس قدر محو و مستغرق رہتے تھے کہ آپ کو گرمی، سردی، بھوک و پیاس کا کوئی احساس نہیں رہتا تھا، اسی برس کے قریب عمر اور خوراک چوبیس گھنٹوں میں فقط ایک چھٹانک آٹے کی روٹی، پھر بھی تبلیغ دین کا اس قدر جذبہ کہ نماز فجر کے بعد جو وعظ شروع فرماتے دوپہر کے ایک دو بج جاتے، بعض اوقات تو نماز ظہر ادا کرکے ہی دولت خانہ میں تشریف لے جاتے تھے۔


۸۔ یادداشت


نگہداشت کی مسلسل کوشش کے بعد سالک کا قلب بلاتکلف خود بخود بے مثل و بے مثال ذات حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور وہ آیت مبارکہ ”وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَمَا کُنْتُمْ“ یعنی وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں تم ہو۔ اسے یادداشت کہتے ہیں اور یادداشت کا ملکہ حاصل ہوجانے کے بعد سالک کا دل ذکر حق میں اس قدر محو و مستغرق ہوجاتا ہے کہ خیالات کو پراگندہ و منتشر کرنیوالی چیزوں کا دل پر گذر بھی نہیں ہوتا۔


۹۔ وقوف زمانی


وقوف زمانی سے مراد یہ ہے کہ سالک اپنے نفس کا جائزہ لیتا رہے اور ہر ساعت کے بعد غور سے دیکھے، اگر گذشتہ وقت اللہ تعالیٰ کی یاد میں گذارا ہو تو شکر کرے اور اگر غفلت ہوئی ہو تو توبہ و استغفار کرے اور آئندہ کے لیے اس سے بچنے کا پختہ ارادہ کرلے اور کبھی بھی شرعی حدود سے باہر قدم نہ رکھے۔ ارشاد خداوندی ”وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ“ یعنی ہر جان دیکھ لے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے۔ میں اسی جانب اشارہ ہے۔
سیدنا امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، آپ نے فرمایا ”حَاسِبُوْا قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْ وَزِنُوْ ا قَبْلَ اَن ْتُوْزَنُوْا واَسْتَعِدُّوْا لِلعَرْضِ الاَکْبَرِ“۔
ترجمہ: محاسبہ کیے جانے سے پہلے اپنا محاسبہ خود کرلو اور وزن کیے جانے سے پہلے خود وزن کرلو اور تیار ہوجاؤ عرض اکبر یعنی قیامت کے دن کے واسطے جہاں تم سے حساب لیا جائے گا اور تمہارے اعمال تولے جائیں گے۔


۱۰۔ وقوف عددی

ذکر نفی و اثبات میں طاق عدد کی رعایت کرنے کو وقوف عددی کہتے ہیں۔ یعنی ایک ہی سانس میں تین سے لیکر اکیس مرتبہ تک کسی بھی طاق عدد پر سانس لے لے، ابتداء کم عدد مثلاً تین یا پانچ سے کرے اور آہستہ آہستہ تعداد بڑھاتا جائے۔ ”اِنَّ اللہ وِتْرُیُحِبُّ الْوِتْرَ“ کہ اللہ طاق یعنی ایک ہے اور طاق کو پسند کرتا ہے۔ اس حدیث کے مطابق طاق عدد جفت سے افضل ہے۔ عدد کی رعایت اس لیے کی جاتی ہے کہ خیالات ادھر ادھر نہ بھٹکیں۔ بالفرض اگر اکیس عدد تک پہنچنے کے باوصف اسکے اثرات ظاہر نہ ہوں تو چاہیے کہ پھر سے ذکر نفی و اثبات شروع کرے۔


۱۱۔ وقوف قلبی


وقوف قلبی کا مطلب یہ ہے کہ سالک ہر دم اپنے دل کی طرف جو بائیں پستان کے نیچے دو انگل کے فاصلہ پر واقع ہے، متوجہ رہے۔
حضرت خواجہ عبیداللہ احرار قدس سرہٗ فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ کی جناب میں دل کی ایسی آگاہی اور حاضری کا نام وقوف قلبی ہے جسکی بدولت دل کو حق تعالیٰ کے سوا کسی اور کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند بخاری قدس سرہٗ نے حبس دم اور عدد طاق کی رعایت کو ذکر میں لازم نہیں فرمایا، مگر وقوف قلبی کو ذکر کے لیے ضروری قرار دیا ہے، اس لیے کہ بغیر وقوف قلبی کے غفلت کا دور ہونا مشکل ہے اور غفلت کے ساتھ کیا جانے والا عمل بے اثر ہوتا ہے۔ مولانا رومی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں


بر زبان تسبیح و در دل گاؤ و خر
ایں چنیں تسبیح کے دارد اثر

 

ترجمہ: تمہاری زبان پر تسبیح اور دل میں گائے اور گدھے کے خیالات ہیں، اس قسم کی تسبیح کیا اثر رکھے گی۔

اسباق طریقہ عالیہ نقشبندیہ


شیخ المشائخ حضرت خواجہ احمد سعید قدس سرہ اربع انہار میں قیوم ربانی حضرت مجدد الف ثانی نوّر اللہ مرقدہ کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں۔
لطائف عشرہ
انسان دس لطائف سے مرکب ہے جن میں سے پانچ کا تعلق عالم امر سے ہے اور پانچ کا تعلق عالمِ خلق سے ہے۔
لطائف عالم امر یہ ہیں۔ ۱۔ قلب۲۔ روح ۳۔ سر ۴۔ خفی ۵۔ اخفیٰ
لطائف عالمِ خلق یہ ہیں ۱۔ لطیفۂ نفس اور لطائف عناصر اربعہ یعنی ۲۔ آگ ۳۔ پانی ۴۔ مٹی ۵۔ ہوا۔
لطائف عالم امر کے اصول (مرکز) عرش عظیم پر ہیں اور لامکانیت سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ان جواہر مجردہ کو انسانی جسم کی چند جگہوں پر امانت رکھا ہے۔
دنیوی تعلقات اور نفسانی خواہشات کی وجہ سے یہ لطائف اپنے اصول کو بھول جاتے ہیں، یہاں تک کہ شیخ کامل و مکمل کی توجہ سے یہ اپنے اصول سے آگاہ و خبردار ہوجاتے ہیں اور انکی طرف میلان کرتے ہیں۔ اس وقت کشش الٰہی اور قرب ظاہر ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی اصل تک پہنچ جاتے ہیں۔ پھر اصل کی اصل تک، یہاں تک کہ اس خالص ذات یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ تک پہنچ جاتے ہیں جو صفات و حالات سے پاک و مبرّا ہے۔ اس وقت ان سالکین کو کامل فنائیت اور اکمل بقا حاصل ہوجاتی ہے۔
اصلاح لطائف
مشائخ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ قدس اللہ اسرارہم کے یہاں باطن کی صفائی کے لئے سب سے پہلے لطائف عالمِ امر کی اصلاح کا معمول ہے اور اس کے لئے ان حضرات نے تین طریقے مقرر فرمائے ہیں:
طریق اول: ذکر
طریقِ دوم: مراقبہ
طریقِ سوم: رابطہ شیخ

سالکِ طریقت جس قدر ان امور کا زیادہ اہتمام کریگا اسی قدر سلوکِ طریقت میں اسے ترقی حاصل ہوگی اور جس قدر ان امور میں کوتاہی کریگا اسی قدر باطنی راستہ طے کرنے میں اسے تاخیر ہوگی۔
طریق اول: ذکر
ذکر کے دو قسم ہیں۔ اول ذکر اسم ذات۔ دوم ذکر نفی و اثبات۔ ذکر اسم ذات کے اسباق یہ ہیں:
سبق اول: ذکر لطیفۂ قلب
وضاحت: دل انسان کے جسم میں بائیں پستان کے نیچے دو انگشت کے فاصلہ پر قدرے پہلو کی جانب واقع ہے، (اس لئے ہمارے مشائخ تلقین ذکر کے وقت اس مقام پر انگشت شہادت رکھ کر تین مرتبہ اسم ذات اللہ، اللہ، اللہ، کہتے ہوئے سالک کے دل پر خصوصی توجہ فرماتے ہیں) ذکر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سالک اپنے دل کو دنیوی خیالات و فکرات سے خالی کرکے ہر وقت یہ خیال کرے کہ دل اسم مبارک اللہ، اللہ کہہ رہا ہے۔ زبان سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں بلکہ زبان تالو سے چسپاں رہے اور سانس حسب معمول آتا جاتا رہے، بس اس طرح اپنے خالق و مالک کی طرف دل کا توجہ ہونا چاہئے، جس طرح ایک پیاسا آدمی زبان سے تو پانی پانی نہیں کہتا لیکن اسکا دل پانی کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
بیشک دنیا کے کام کاج کرتے رہیں اس سے کوئی منع نہیں، لیکن دست بکار و دل بیار کے مصداق دل کا توجہ اور خیال ہر وقت اپنے خالق و مالک کی طرف رہے۔ یوں سمجھے کہ فیضان الٰہی کا نور حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کے سینہ اطہر سے ہوتا ہوا پیرومرشدکے سینہ سے میرے دل میں آرہا ہے اورگناہوں کے زنگ و کدورات ذکر کی برکت سے دور ہورہے ہیں۔ اگرادھر اُدھر کے خیالات دل میں آئیں تو ان کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ انشاء اللہ تھوڑا ہی عرصہ اس طریقہ پر محنت و توجہ کرنے سے دل ذاکر ہوجائیگا اور جب دل ذاکر ہوگیا تو سوتے جاگتے، کھاتے پیتے ہر وقت دل ذکر اللہ، اللہ، اللہ، کرتا رہے گا۔
فائدہ: لطیفۂ قلب جاری ہونے کی ظاہری علامت یہ ہے کہ سالک کا دل نفسانی خواہشات کی بجائے محبوب حقیقی کی طرف متوجہ ہوجائے، غفلت دور ہو اور شریعت مطہرہ کے مطابق عمل کرنیکا شوق پیدا ہو۔ ذکر جاری ہونے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اسکا دل حرکت کرنے لگے یا اسے کشف ہونے لگے، بلکہ ان چیزوں کے درپے ہونا سالک کے لئے مفید نہیں۔ سالک کا اول و آخر مقصد رضائے الٰہی ہونا چاہئے نہ کہ کشف و کیفیات کا حصول۔
جب سالک کا لطیفہ قلب جاری ہوجاتا ہے تو پیرومرشد مذکورہ طریقہ پر لطیفۂ روح کی تلقین فرماتے ہیں۔
سبق دوم: ذکر لطیفۂ روح
لطیفۂ روح کا مقام داہنے پستان کے نیچے دو انگشت کے فاصلہ پر قدرے پہلو کی جانب واقع ہے۔ سالک کو چاہئے کہ اس مقام پر بھی اسمِ ذات اللہ، اللہ کا توجہ و خیال کرے۔ لطیفۂ روح جاری ہونے سے باطن کی مزید صفائی ہوتی ہے۔
فائدہ: لطیفہ روح جاری ہونے کی علامت یہ ہے کہ طبیعت میں صبر کی وصف پیدا ہوتی ہے اور غصہ پر قابو کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
سبق سوم: ذکر لطیفۂ سرّ
لطیفۂ سر کی جگہ بائیں پستان کے برابر دو انگشت سینہ کی جانب مائل ہے۔ اس لطیفہ میں بھی اسم ذات اللہ کا خیال رکھنے سے ذکر جاری ہوجاتا ہے اور مزید باطنی ترقی حاصل ہوتی ہے۔
فائدہ: لطیفہ سر جاری ہونے کی علامت یہ ہے کہ ذکر کے وقت عجیب و غریب کیفیات کا ظہور ہوتا ہے، حرص و ہوس میں کمی اور نیکی کے کاموں میں خرچ کرنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔
سبق چہارم: ذکر لطیفۂ خفی
لطیفۂ خفی کا مقام داہنے پستان کے برابر دو انگشت وسط سینہ کی جانب ہے۔ اس لطیفہ کے ذکر کے وقت ”یا لَطِیْفُ اَدْرِکْنِیْ بِلُطْفِکَ الْخَفِیِّ“ پڑھنا مفید ہے۔
فائدہ: اس لطیفہ کے جاری ہونے کی علامت یہ ہے کہ صفات رذیلہ حسد و بخل سے بیزاری حاصل ہوجاتی ہے۔
سبق پنجم: ذکر لطیفہ اخفی
اس لطیفہ کا مقام وسط سینہ ہے۔ سابقہ لطائف کی طرح اس لطیفہ میں بھی ذکر کا تصور و خیال کرنا چاہئے۔
فائدہ: ذکر لطیفہ اخفیٰ کرنے سے فخر و تکبر وغیرہ زائل ہوجاتے ہیں اور یہی لطیفۂ اخفیٰ جاری ہونے کی علامت ہے۔ نیز سالک کو چاہئے کہ لطائف میں ترقی کے ساتھ ساتھ پہلے والے لطائف پر بھی علاحدہ علاحدہ ذکر کرتا رہے یہاں تک کہ تمام لطائف جاری ہوجائیں۔
سبق ششم: ذکر لطیفہ نفس
لطیفہ نفس کی جگہ وسط پیشانی ہے۔ اس لطیفہ میں بھی سابقہ لطائف کی طرح ذکر کا خیال ہی کرنا ہے۔
فائدہ: لطیفہ نفس کی اصلاح کی علامت یہ ہے کہ سالک ذکر کی لذت میں اس قدر محو ہوجاتا ہے کہ نفس کی رعونت و سرکشی بالکل ختم ہوجاتی ہے۔
سبق ہفتم: ذکر لطیفہ قالبیہ
اس لطیفہ کا دوسرا نام سلطان الاذکار ہے۔ اسکا مقام وسط سر ہے، اس لئے اسکی تعلیم دیتے وقت مشائخ وسط سر یعنی دماغ پر انگلی رکھ کر اللہ، اللہ کہتے ہوئے توجہ دیتے ہیں، جس سے بفضلہ تعالی تمام بدن ذاکر ہوجاتا ہے اور جسم کے روئیں روئیں سے ذکر جاری ہوجاتا ہے۔
فائدہ: لطیفہ قالبیہ جاری ہونے کی ظاہری علامت یہ ہے کہ جسم کا گوشت پھڑکنے لگتا ہے، کبھی بازو کبھی ٹانگ اور کبھی کسی اور حصہ جسم میں حرکت محسوس ہوتی ہے۔ بعض اوقات تو پورا جسم حرکت کرتا محسوس ہوتا ہے۔
سبق ہشتم: ذکر نفی و اثبات
توجہ و خیال کی زبان سے لَاأِلٰہَ اِلآَااللّٰہُ کے ذکر کو نفی و اثبات کہتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ سالک پہلے اپنے باطن کو ہر قسم کے خیالات ماسویٰ اللہ سے پاک و صاف کرے، اس کے بعد اپنے سانس کو ناف کے نیچے روکے اور محض خیال کی زبان سے کلمہ ”لا“ کو ناف سے لیکر اپنے دماغ تک لے جائے، پھر لفظ ”اِلٰہَ“ کو دماغ سے دائیں کندھے کی طرف نیچے لے آئے اور کلمہ ”اِلاَّ اللہُ“ کو پانچوں لطائف عالم امر میں سے گذارکر قوت خیال سے دل پر اس قدر ضرب لگائے کہ ذکر کا اثر تمام لطائف میں پہنچ جائے۔ اس طرح ایک ہی سانس میں چند مرتبہ ذکرکرنے کے بعد سانس چھوڑتے ہوئے خیال سے ”مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ“ کہے۔ ذکر نفی و اثبات کے وقت کلمہ طیبہ کی معنیٰ کہ سوائے ذات پاک کے کوئی اور مقصود و معبود نہیں، کا خیال رکھنا اس سبق کے لئے شرط ہے۔ کلمہ ”لا“ ادا کرتے وقت اپنی ذات اور تمام موجودات کی نفی کرے اور ”اِلَّا اللّٰہُ“ کہتے وقت ذات حق سبحانہ و تعالیٰ کا اثبات کرے۔
فائدہ: ذکر نفی و اثبات میں طاق عدد کی رعایت کرنا بہت ہی مفید ہے۔ اس طور پر کہ سالک ایک ہی سانس میں پہلے تین بار پھر پانچ بار اس طریقہ پر یہ مشق بڑھاتا جائے یہاں تک کہ ایک ہی سانس میں اکیس بار یہ ذکر کرے۔ البتہ یہ شرط و لازم نہیں ہے۔ طاق عدد کی اس رعایت کو اہل تصوف کی اصطلاح میں وقوف عددی کہا جاتا ہے۔ نیز چاہئے کہ ذکر کے وقت بزبان حال کمال عجز و انکساری سے بارگاہ الٰہی میں یہ التجا کرے۔
خداوندا مقصود من توئی و رضائے تو
محبت و معرفت خود مرا بدہ

ترجمہ: الٰہی تو ہی میرا مقصود ہے اور میں تیری ہی رضا کا طالب ہوں۔ تو مجھے اپنی محبت و معرفت عطا فرما۔
چونکہ ذکر نفی و اثبات میں غیر معمولی حرارت و گرمی ہوتی ہے، اسلئے ہمارے مشائخ عموماً سردی کے موسم میں اسکی اجازت دیتے تھے۔ جبکہ بعض لوگوں کو سردیوں میں بھی سانس روکنا دشوار ہوتا ہے، ایسے لوگوں کو سانس روکے بغیر اور بلا رعایت تعداد ذکر نفی و اثبات کی اجازت دی جاتی ہے۔
چونکہ ذکر نفی و اثبات تمام سلوک کا خلاصہ اور مکھن ہے اور اس سے غیر کے خیالات کی نفی، محبت الٰہی میں اضافہ اور قلب میں رقت پیدا ہوتی ہے تو اس سے بعض اوقات تو کشف بھی حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا سالک کو چاہئے کہ اسکے حصول کی پوری طرح کوشش کرے۔ اگر کچھ عرصہ ذکر کرنے کے باوجود مذکور فوائد حاصل نہ ہوں تو سمجھے کہ میرے عمل میں کسی قسم کی کمی رہ گئی ہے۔ لہٰذا پھر سے بتائے گئے طریقے کے مطابق ذکر شروع کرے۔
نیز مشائخ نے فرمایا ہے کہ اس ذکر کے دوران اعتدال طبع کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔ مرغّن غذا اور ہضم کے مطابق دودھ استعمال کرنا چاہئے تاکہ گرمی کی وجہ سے دماغ میں خشکی پیدا ہوکر ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔
سبق نہم: ذکر تہلیل لسانی
ذکر تہلیل لسانی کا طریقہ بعینہ وہی ہے جو ذکر نفی و اثبات میں بیان ہوا۔ فرق یہ ہے کہ اس میں سانس نہیں روکا جاتا اور کلمہ طیبہ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ کا ذکر زبان سے کیا جاتا ہے۔
فائدہ: رات اور دن میں کم ازکم گیارہ سو مرتبہ کلمہ طیبہ کا یہ ذکر کیا جائے۔ اسکی اعلیٰ تعداد پانچ ہزار ہے۔ اس سے زیادہ جتنا چاہے کلمہ شریف کا یہ ورد کرے۔ اس سے زیادہ فائدہ حاصل ہوگا۔ ایک ہی وقت میں یہ تعداد مکمل کرنا بھی ضروری نہیں اورنہ ہی باوضو ہونا شرط ہے۔ البتہ باوضو ہونا بہتر ہے۔ رات اور دن میں جب چاہے حضور قلب کے ساتھ معنی کا خیال کرکے ذکر کیا جائے۔
ذکر تہلیل لسانی سے حضور قلب حاصل ہوتا ہے اور لطائف کو اپنے موجودہ مقامات سے اوپر کی طرف ترقی حاصل ہوتی ہے اور غیر کے خطرات و خیالات کی نفی ہوتی ہے۔ بعض اوقات واردات کا نزول بھی ہوتا ہے۔
طریق دوم مراقبہ
لطائف عالم امر کی اصلاح کا دوسرا طریقہ مراقبہ ہے۔ جس کامطلب یہ ہے کہ ذکر اور رابطہ شیخ کے سوا تمام خیالات و خطرات سے دل کو خالی کرکے رحمت الٰہی کا انتظار کیا جائے۔ اسی انتظار کا نام مراقبہ ہے۔ چونکہ فیض و رحمت الٰہی کا نزول لطائف پر ہوتا ہے اس لئے لطائف کی مناسبت سے ان مراقبات کے نام بھی جدا جدا اور انکی نیات بھی مختلف ہیں۔
سبق دہم: مراقبہ احدیت
مراقبہ احدیت کی نیت کرتے وقت سالک دل میں یہ پختہ خیال رکھے کہ میرے لطیفہ قلب پر اس ذات والاصفات سے فیض آرہا ہے جو اسم مبارک اللہ کا مسمیٰ (مصداق) ہے۔ وہی جامع جمیع صفات کمال ہے اور ہر عیب و نقص سے پاک ہے۔ یہ خیال کرکے فیض الٰہی کے انتظار میں بیٹھ جائے۔ اس مراقبہ سے سالک کو حق تعالیٰ کا حضور اور اسکے ماسوا سے غفلت حاصل ہوتی ہے۔
فائدہ: مراقبہ احدیت کے بعد ولایت صغریٰ کے مراقبات مشارب کا مقام آتا ہے جسے دائرہ ممکنات بھی کہا جاتا ہے۔ اس قسم کے مراقبات مشارب پانچ ہیں۔ ان میں سے ہر ایک لطیفہ کا مراقبہ کرتے وقت سالک کو چاہئے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم تک اپنے سلسلہ کے تمام مشائخ کے ان لطائف کو اپنے لطیفہ کے سامنے تصور کرکے یہ خیال کرے کہ اس لطیفہ کا خاص فیض جو بارگاہِ الٰہی سے حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کے اس لطیفہ مبارک میں آرہا ہے، بترتیب مشائخ سلسلہ عالیہ کے، اسی لطیفہ سے ہوتا ہوا میرے اس لطیفہ میں پہنچ رہا ہے۔ نیز جاننا چاہئے کہ ان میں سے ہر ایک لطیفہ کا اثر و فائدہ دوسرے سے مختلف ہے۔ اسلئے جب تک پہلے والے لطیفہ کا اثر سالک کے لطیفہ میں محسوس نہ ہو، دوسرا مراقبہ شروع نہ کیا جائے۔ ورنہ سلوک کا اصل مقصد یعنی مقام فنا تک رسائی نصیب نہ ہوگی۔
مراقبات مشارب
سبق یازدہم: مراقبہ لطیفہ قلب
اس مراقبہ میں سالک اپنے لطیفہ قلب کو حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کے لطیفہ قلب کے بالکل سامنے تصور کرکے زبانِ خیال سے بارگاہِ الٰہی میں یہ التجاکرے ”یا الٰہی تجلیات افعالیہ کا وہ فیض جو آپ نے ہمارے آقا و مولیٰ صلّی اللہ علیہ وسلم کے لطیفہ قلب سے حضرت آدم علیہ السلام کے لطیفہ قلب میں القا فرمایا ہے وہ حضرات پیران کبار کے طفیل میرے لطیفہ قلب میں القا فرما۔“
فائدہ: سالک کو جب لطیفہ قلب کی فنا حاصل ہوجاتی ہے تو اپنے افعال بلکہ تمام مخلوق کے افعال کو حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ کے افعال کا اثر و پرتو سمجھنے لگتا ہے اور کائنات کی تمام ذات و صفات کو حق تعالی کی ذات و صفات کا مظہر سمجھتا ہے اور اسکا قلب دنیا کی خوشی خواہ غم سے متاثر نہیں ہوتا۔ یہ اسلئے ہے کہ اسوقت اسے فاعل حقیقی یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سوا کسی اور کا فعل نظر ہی نہیں آتا۔
سبق دوازدہم: مراقبہ لطیفۂ روح
اس مراقبہ کے وقت سالک اپنے لطیفۂ روح کو آنحضرت سرور عالم صلّی اللہ علیہ وسلم کے لطیفہ روح کے سامنے تصور کرکے بزبان خیال بارگاہ الٰہی میں یہ عرض کرے ”یا الٰہی ان صفات ثبوتیہ یعنی علم قدرت، سمع، بصر و ارادہ وغیرہ کی تجلیات کا فیض جو تونے آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے لطیفۂ روح سے حضرت نوح علیہ السلام کے لطیفہ روح اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لطیفہ روح میں مرحمت فرمایا تھا، حضرات پیران کبار کے طفیل میرے لطیفہ روح میں القا فرما۔“
فائدہ: سالک کو جب لطیفہ روح میں فنا حاصل ہوجاتی ہے تو اسکی نظر سے اپنی اور تمام مخلوقات کی صفات اوجھل ہوجاتی ہیں اور وہ تمام صفات حق تعالیٰ ہی کے لئے سمجھنے لگتا ہے۔
سبق سیزدہم: مراقبہ لطیفہ سر
اس مراقبہ میں سالک اپنے لطیفہ سر کو حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کے لطیفہ سر مبارک کے سامنے تصور کرکے زبانِ خیال سے بارگاہِ الٰہی میں یہ التجا کرے ”یا الٰہی ان تجلیاتِ ذاتیہ کا فیض جو تونے سید المرسلین صلّی اللہ علیہ وسلم کے لطیفہ سر سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لطیفہ سر میں القا فرمایا ہے، حضرات پیران کبار کے صدقے میں میرے لطیفہ سر میں القا فرما۔“
فائدہ: سالک کو جب لطیفہ سر میں فنا حاصل ہوجاتی ہے تو وہ اپنی ذات کو ذاتِ حق تعالیٰ میں اس قدر مٹا ہوا پاتا ہے کہ اسے ذات حق سبحانہ و تعالی کے سوا کوئی اور ذات نظر ہی نہیں آتی۔ اس مقام پر سالک کو نہ تو کسی کی تعریف و توصیف کرنے سے خوشی حاصل ہوتی ہے، نہ کسی کے طعن و ملامت کی پرواہ ہوتی ہے۔ بس ہر وقت ذات حق سبحانہ وتعالیٰ میں مستغرق رہتا ہے۔
سبق چہاردہم: مراقبہ لطیفہ خفی
اس سبق میں سالک اپنے لطیفہ خفی کو سرور عالم صلّی اللہ علیہ وسلم کے لطیفہ خفی کے سامنے تصور کرکے زبانِ خیال سے بارگاہ الٰہی میں یہ التجا کرے ”یا الٰہی تجلیات صفات سلبیہ کا فیض جو تونے آنحضرت سرور عالم صلّی اللہ علیہ وسلم کے لطیفہ خفی مبارک سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لطیفہ خفی میں القا فرمایا ہے، حضرات پیران کبار کے طفیل میرے لطیفہ خفی میں القا فرما۔“
فائدہ: صفات سلبیہ سے وہ تمام صفات مراد ہیں جو نقص و عیب میں شمار ہوتی ہیں اور ذات باری تعالیٰ ان سے پاک و منزہ ہے۔ مثلاً اولاد، بیوی، جسم، جوہر، عرض، زمان و مکان وغیرہ۔
سبق پانزدہم: مراقبہ لطیفہ اخفیٰ
اس سبق میں سالک اپنے لطیفہ اخفیٰ کو آنحضرت سرور عالم صلّی اللہ علیہ وسلم کے لطیفہ اخفیٰ کے سامنے تصور کرکے زبان خیال سے یہ عرض کرے ”یا الٰہی تجلیات شان جامع کا وہ فیض جو آپ نے آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے لطیفہ اخفیٰ مبارک میں القا فرمایا ہے، حضرات پیران کبار کے طفیل میرے لطیفہ اخفیٰ میں القا فرما۔“
فائدہ: سالک کو جب لطیفہ اخفی میں فنائیت حاصل ہوجاتی ہے تو اسے حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ کا خصوصی قرب حاصل ہوجاتا ہے۔ اسلئے اس کے لئے اخلاق الٰہی اور اخلاق نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے متصف ہونا آسان ہوجاتا ہے۔ بالخصوص نماز میں بہت لذت حاصل ہوتی ہے۔
فائدہ: عالم امر کے ان پانچوں لطائف کی فنائیت کے بعد دائرہ امکان کی سیر ختم ہوجاتی ہے۔ بعض مشائخ نے انوار و تجلیات دیکھنے کو اس دائرہ کے طے کرنے کی علامت فرمایا ہے۔ واضح رہے کہ دائرہ امکان کا نصف زمین سے عرش تک ہے اور دوسرا نصف عرش سے اوپر ہے۔ جبکہ عالم خلق عرش سے نیچے ہے۔ اسکی شکل یہ ہے:
اس کے بعد مراقبہ معیت کیا جاتا ہے۔
سبق شانزدہم: مراقبہ معیت
اس مراقبہ میں آیت کریمہ ”وَ ھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَمَا کُنْتُمْ“ یعنی وہ ہر جگہ تمھارے ساتھ ہے، کی معنیٰ کا خیال کرکے خلوص دل کے ساتھ یہ خیال و تصور کرے کہ اس ذات پاک سے میرے لطیفہ قلب پر فیض آرہا ہے، جو میرے ساتھ اور تمام موجودات کے ہر ذرہ کے ساتھ ہے، اس شان کے مطابق جو وہ چاہتا ہے۔ اس سبق میں منشاء فیض ولایت صغریٰ کا دائرہ ہے جو اولیاء عظام کی ولایت اور اسماء حسنہ اور صفات مقدسہ کا سایہ ہے۔ اس مقام میں تہلیل لسانی یعنی ”لا الٰہ الا اللہ“ کا زبانی ذکر معنی کا لحاظ کرتے ہوئے، اس طرح کہ سالک کی توجہ قلب کی طرف ہو اور قلب کی توجہ اللہ تعالی کی طرف ہو، بہت فائدہ دیتا ہے۔
فائدہ: اس مقام پر سالک کو فنائے قلبی اور بقائے قلبی و دوام حضور حاصل ہوتا ہے۔ یعنی یاد الٰہی میں اس قدر مستغرق ہوجاتا ہے کہ اس کے ماسوا کو بالکل بھول جاتا ہے اور کسی بھی لمحہ اس کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔ اس مقام پر سالک کو لوگوں سے وحشت اور بیگانگی ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ ذکر اور مقام حیرت میں محو رہتا ہے۔
نوٹ: واضح رہے کہ دائمی حضور و بقا پر دائرہ ولایت صغریٰ کی تکمیل ہوتی ہے۔

رابطہ شیخ


یار رفت ازچشم لیکن روز و شب در خاطر است
گر بصورت غائب است اما بمعنیٰ حاضر است


ترجمہ: میرا محبوب میری نظروں سے تو دور چلا گیا ہے لیکن رات دن میرے دل میں موجود ہے۔ اگرچہ ظاہری طور پر وہ غائب ہے لیکن حقیقت میں وہ حاضر ہی ہے۔
رابطہ کا لفظ ربط سے مشتق ہے جسکی معنیٰ ہے کسی چیز کو مضبوط باندھنا۔ اس لئے عربی میں گلدستہ اور پیکٹ کو ربط کہتے ہیں۔ تصوف و طریقت میں رابطہ شیخ کامطلب یہ ہے کہ مرید اپنے شیخ سے مضبوط و مستحکم نسبت و تعلق قائم کرے اور اس جیسے اخلاق و اعمال اپنانے کے لئے اسکی صحبت و خدمت اختیار کرے اور جب شیخ موجود ہو تو ادب و عقیدت سے اس کے دونوں ابروؤں کے درمیان نظر رکھے، کسی اور طرف توجہ نہ کرے، اور جس وقت شیخ موجود نہ ہو تو اس کی صورت کو پیشِ نظر تصور کرے۔ جس طرح آدمی گھر سے باہر ہوتا ہے تو دانستہ یا نادانستہ اپنے گھر میں بسنے والے افراد اور قیمتی مال و متاع کا تصور کرلیتا ہے کہ فلاں آدمی فلاں جگہ پر ہوگا اور فلاں چیز کمرے کے فلاں کونے یا الماری میں ہوگی، اسی طرح اپنے شیخ کو مسجد و محفل میں یا عبادتِ الٰہی میں مصروف تصورکرے۔ چونکہ اولیاء اللہ کے تمام اعمال و افعال اور اقوال احکامِ الٰہی کے عین مطابق ہوتے ہیں، مضبوط و مستحکم نسبت رکھنے والا مرید بھی ”اِنَّ الْمُحِبَّ لِمَن یُّحِبُ مُطِیع“۔ یعنی محبت کرنے والا اپنے محبوب کی اطاعت کرتا ہے، کے مطابق وہی اخلاق و اعمال اپنانے کی کوشش کرتا ہے، جو اسکے شیخ کے ہوتے ہیں۔
تصور شیخ کا قرآن مجید سے ثبوت
سورۃ یوسف میں ارشادِ خداوندی ہے۔ وَلَقَدْ ہَمَّتْ بِہِ وَہَمَّ بِہَا لَوْلا أَن رَّأَی بُرْہَانَ رَبِّہِ۝
ترجمہ: اگر حضرت یوسف علیٰ نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام اپنے پروردگار کے برہان کو نہ دیکھتے تو سیدہ زلیخا کی طرف متوجہ ہوجاتے۔
اس آیہ کریمہ میں وارد لفظ برہان کے متعلق مفسرین کرام کی رائے یہ ہے کہ اس سے حضرت یعقوب علیہ السلام مراد ہیں، جن کی شکل مبارک اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام کو نظر آئی اور آپ سے کلام بھی فرمایا تھا۔ حالانکہ اس وقت باپ بیٹے ایک دوسرے سے بظاہر کوسوں دور تھے، لیکن باہمی قلبی رابطہ انتہائی مضبوط و مستحکم تھا۔ اس کے علاوہ بہت سے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء اللہ کا ذکر فرمایا اور ساتھ ہی قرآنی آیات میں غور و فکر کرنے کا بھی امر فرمایا ہے۔ دیکھئے سورۃ بقرہ آیت نمبر ۲۶، سورہ غاشیہ آیت نمبر ۱۷ اور سورۃ نحل آیت نمبر ۸۔ ظاہر ہے جب آدمی ان آیات مبارکہ کی تلاوت کریگا اور ان کے معانی و مطالب پر غور کریگا تو کسی نہ کسی صورت میں ان افراد و اشیاء کا تصور تلاوت کرنے والے کے ذہن و خیال میں آئیگا اور وہ اس کی نصیحت عبرت اور تقویت ایمان کا باعث بھی بنے گا، اسی طرح شیخ کامل کا غائبانہ تصور جسے صوفیاء کرام رابطہ کہتے ہیں سالک کی ہدایت و اصلاح کا باعث بنتا ہے۔


رابطہ شیخ کا ثبوت حدیث شریف سے


حضرت مولانا عبدالحی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب حلیۃ الاولیاء کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے الفاظ مبارک نقل کیے ہیں: ”وَاللّٰہِ کَاَنِّیْ اَرَیٰ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلّی اللہ علیہ وسلم فِیْ غزْوَۃِ تَبُوْکَ“ یعنی خدا کی قسم گویا کہ میں غزوہ تبوک کے موقعہ پر رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں۔ حضرت مولانا عبدالحی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث شریف ذکر کرنے کے بعد وضاحت سے تحریر فرمایا۔
فَبِھٰذَا الْحَدِیثِ وَاَمْثَالِہِ الْوَارِدَۃِ فِی الصِّحَاحِ اسْتَنْبَطُوْا جَوَازَ تَصَوُّرِ الشَّیْخِ وَلَہ وَجْہٌ لَٰکِنَّہٗ لَایَفْھَمُ الْمُنَاظِرُ
(ھدایۃ الانسان صفحہ ۱۰۲)
اس حدیث شریف اور اس جیسی دوسری احادیث جو کہ صحاح ستہ یعنی صحیح بخاری شریف، صحیح مسلم شریف، جامع ترمذی، نسائی شریف و دیگر کتب حدیث میں موجود ہیں، سے صوفیاء کرام نے تصور شیخ کو جائز ثابت کیا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے لیکن اس بات کو مناظرے کرنے والے (جن کو تنقید برائے مخالفت کی عادت ہے) نہیں سمجھ پائیں گے۔
رابطہ شیخ کے بارے میں حضرت امام ربانی مجدد و منور الف ثانی قدس سرہ فرماتے ہیں: سالک کے لئے سب سے زیادہ قریب راستہ رابطہ شیخ ہے۔
بالفاظہ بدانند کہ حصول رابطۂ شیخ مرید را بے تکلف و بے تعمل علامتِ تام است درمیان پیر و مرید کہ سبب افادہ و استفادہ است و ہیچ طریقے اقرب بوصول از طریقِ رابطہ نیست، تاکدام دولتمند را بآں سعادت مستسعد سازند۔
(مکتوب نمبر ۱۸۷ دفتر اول حصہ سوم)
جاننا چاہئے کہ بلاتکلف و محنت رابطۂ شیخ میسر آجائے تو یہ پیر و مرید کے مابین مکمل مناسبت کی علامت ہے اور یہی فائدہ حاصل کرنے اور فائدہ پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ وہ خوش قسمت آدمی ہے جسے یہ سعادت نصیب ہو۔
اسی موضوع پر مشہور بزرگ عارف باللہ حضرت شیخ شرف الدین احمد بن یحییٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں۔
مرید را باید کہ ربطِ قلب با پیر بود و معنیٰ ربطِ قلب ایں است کہ بداند کہ مرا بخدائے تعالیٰ نرساند مگر پیرِ من ”اَلشَّیْخُ فِیْ قَوْمِہٖ کَالنَّبِیِّ فِیْ اُمَّتِہٖ“ اشارہ در حقِ ایشاں است و ہرچہ پیر بفرماید ازاں تجاوز نکند اگرچہ ہزاراں ہم عصر بآنجا باشند و درآں وقت دیگراں ہم پیراں و مرشد آں باشند و گویند کہ اگر مرید بداند کہ بہتر از پیر من دیگرے ہست درکار مریدی درست نباید و غرض او حاصل نہ شود۔
(لطائف المعانی ملفوظات حضرت یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ صفحہ ۴)
یعنی مرید کو چاہیے کہ اپنے پیر سے رابطہ قلب قائم کرلے۔ رابطہ قلب کا مطلب یہ ہے کہ مرید یہ سمجھے کہ مجھے میرا پیر ہی خدا تعالیٰ سے ملائیگا کوئی دوسرا نہیں۔ پیر اپنے مریدین کو اس طرح فائدہ اور فیض پہنچاتا ہے جس طرح نبی اپنی امت کو۔ ”الشیخ فی قومہ کالنبی فی امتہ“ میں اسی جانب اشارہ ہے۔ مرید کو چاہیے کہ جو کچھ پیر حکم فرمائے اس پر عمل کرے، اس سے آگے نہ بڑھے، اگرچہ انکے ہزاروں ہم عصر دوسرے پیر و مرشد بھی موجود ہوں۔ نیز مشائخ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مرید یہ خیال کرے کہ میرے پیر سے بڑھ کر اور کوئی بزرگ ہے تو اس کی مریدی ابھی ناتما م ہے اور اسے پورا فائدہ حاصل نہ ہوگا۔

 معمولات، ایصال ثواب اور  ختم خواجگان

مفصل ختم شریف

یہ ختم جو سالانہ اجتماعات کے مواقع پر ہمارے مشائخ کا معمول رہا ہے اس کا طریقہ کار یہ ہے۔

اَعُوْذُ بِاللہِ الیٰ آخرہ اور بِسْمِ اللّٰہ الیٰ آخرہِ کے بعد تین بار درود شریف، اس کے بعد بِسْمِ اللّٰہِ الیٰ آخرہٖ کے ساتھ سورہ ملک (تَبَارَکَ الَّذِیْ) آخر تک، اس کے بعد ایک بار بِسْمِ اللّٰہ الیٰ آخرہ تک کے ساتھ سورہ اخلاص (قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدُ) تین بار، اس کے بعد بِسْمِ اللّٰہِ الیٰ آخرہ کے ساتھ سورہ فلق (قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ) ایک بار، اس کے بعد بِسْمِ اللّٰہِ الیٰ آخرہٖ کے ساتھ سورہ الناس (قُلْ اَعُوْذ ُبِرَبِّ النَّاسِ) ایک بار، اس کے بعد بِسْمِ اللّٰہِ الیٰ آخرہٖ کے ساتھ سورہ فاتحہ ایک بار، اس کے بعد بِسْمِ اللّٰہِ الیٰ آخرہٖ کے ساتھ سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات (الٓمّ سے وَلَہُمْ عَذَابٌ عظِیمٌ) تک ایک بار، اس کے بعد بِسْمِ اللّٰہِ الیٰ آخرہ کے ساتھ سورہ بقرہ کی آخری آیات (آمَنَ الرَّسُوْلُ تا الیٰ آخر سورہ) ایک بار، اس کے بعد بِسْمِ اللّٰہِ الیٰ آخرہ کے ساتھ آیت لَقَدْجَآءَ کُمْ رَسُوْلُ سے رَبُّ العَرْشِ الْعَظِیْم تک ایک بار، اس کے بعد ”دَعْوَاھُمْ فِیْھَا سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَتَحِیَّتُھُمْ فِیْھَا سَلامُ وَ آخِرُ دَعْوَاھُمْ اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ“ ایک بار، اس کے بعد آیت ”مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ“ آخر آیت تک ایک بار، اس کے بعد آیت ”اِنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَیٰ النَّبِیِّ“ سے لیکر تَسْلِیْمَا تک، اس کے بعد ”سُبْحَانَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّتِ عَمَّا یَصِفُوْنَ وَسَلَامٌ عَلَیٰ الْمُرْسَلِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ“ پڑھ کر تین بار اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اَللّٰہ ُاَکْبَرُ، اَللّہُ اَکْبَرُ، وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ پڑھ کر خشوع و خضوع کے ساتھ کافی دیر تک ایصال ثواب کی دعا کی جاتی ہے۔

دعائے ایصالِ ثواب

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلامُ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلانَا مُحَمَّدِ وَّآلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ، اَللّٰھمَّ بَلِّغْ ثَوَابَ ھٰذَا الْکَلامِ (اور اگر ایصال ثواب کے لئے کھانا بھی تقسیم کیا گیا ہو تو الکلام کے بعد وَالطَّعَامِ کا لفظ بڑھایا جائے) بِجَنَابِ سَیِّدِ الْمُعَلَّیٰ سَیِّدِ الاَنْبِیَآءِ قُرَّۃِ عُیُوْنِنَا وَ رَاحَۃِ رُوْحِنَا وَ ضِیَآءِ قُلُوْبِنَا مُحَمَّدٍ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ وَآلِہ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاھِرِیْنَ وَاَھْلِ بَیْتِہ وَ اَزْوَاجِہِ الْمُطَھَّرَاتِ وَخُلَفَآئِہِ الرَّاشِدِیْنَ الْھَادِیْنَ الْمُھْتَدِیْنَ وَجَمِیْعِ اَصْحَابِہٖ وَاَحْبَابِہٖ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْھُمْ وَ اِلَیٰ جَنَابِ مَشَائِخِ جَمِیْعِ السَّلاسِلِ الْقَادِرِیَّۃِ وَالْجسْتِیَّۃِ وَالسَّھْروَرْدِیَۃِ وَ خَاصَّۃً اِلیٰ اَصْحَابِ الطَّرِیْقَۃِ الْعَالِیَۃِ الَنَقْشبَنْدِیَۃِ، خُصُوْصًا اِلیٰ جَنَابِ الْمُعَلَّیٰ مُرْشِدِنَا وَھَادِیْنَا الْمجَدِّدِ وَ الْمنَوِّرِ لِلْمِاَۃِ اَرْبَعَۃَ عَشَرَ خواجۂ خواجگان پیر پیران سُلْطَانِ الْعَارِفِیْنَ وَ وَسِیْلَتِنَا فِی الدَّارَیْن حضرت الحاجّ اللّٰہ بخش سھنا سائین قَلْبِیْ وَ روْحِیْ فَدَاہ، اَللّٰھُمَّ مَتِّعْنَا مِنْ فُیُوْضَاتِھِمْ وَ بَرَکَاتِھِمْ، اَللّٰھُمَّ مَتِّعْنَا مِنْ فُیُوْضَاتِھِمْ وَبَرَکاَتِھِمْ،، اَللّٰھُمَّ مَتِّعْنَا مِنْ فُیُوْضَاتِھِمْ وَ بَرَکَاتِھِمْ وَ اھْدِنَا سَبِیْلَھمْ، رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ، وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ، وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالَیٰ عَلَیٰ سَیِّدِنَا وَ مَوْلانَا مُحَمَّدِ وَّآلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ۔ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔

وضاحت

دعا کوئی بھی ہو اگر رسول صلّی اللہ علیہ وسلم کی پیاری بولی یعنی عربی زبان میں ہو تو بہتر ہے، لیکن یہ لازمی اور ضروری نہیں۔ لہٰذا ایصال ثواب کے لئے بھی بعینہ مذکورہ الفاظ میں دعا مانگنا ضروری نہیں۔ اہلِ علم حضرات ان میں کمی بیشی کرسکتے ہیں، البتہ عوام الناس اپنی طرف سے کوئی رد و بدل نہ کریں۔ البتہ اگر چاہیں تو حمد اور صلٰوۃ وسلام کے بعد سندھی، اردو یا کسی بھی زبان میں ایصال ثواب کرسکتے ہیں مثلا

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلَوٰۃُ وَالسَّلام ُعَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدِ وَّآلَہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ۔ یا اللہ اس کلام و طعام کا ثواب سید الانبیاء والمرسلین حضرت محمد مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وسلم کی روح پر فتوح کو پہنچا اور آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی آل پاک، اہل بیت عظام، ازواج مطہرات، حضرات خلفاء راشدین اور آپ کے جمیع صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پہنچا اور جمیع سلاسل کے مشائخ عظام بالخصوص سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے مشائخ خاص کر ہمارے پیر و مرشد ہادی و رہبر سلطان العارفین حضرت قبلہ  قلبی و روحی فداہ کی روح پرفتوح کو پہنچا۔ یا اللہ ہمیں اپنے ان مقرب بندوں کے فیوض و برکات سے بہرہ ور فرما، یا اللہ ہمیں اپنے ان مقرب بندوں کے فیوض و برکات سے بہرہ ور فرما، یا اللہ ہمیں اپنے ان مقرب بندوں کے فیوض و برکات سے بہرہ ور فرما، اور ہمیں انکے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ ہماری عاجزانہ دعائیں قبول فرما اور ہماری کوتاہیوں سے درگذر فرما۔ وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا و مولانا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین آمین برحمتک یا ارحم الراحمین۔

حل مشکلات کے لیے ختم خواجگان نقشبندیہ  

 

قضائے حاجات و حلِ مشکلات کے لیے ہمارے مشائخ سلسلہ کے یہاں جو ختمِ خواجگان مروج ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ بعد از نماز عصر (کسی دوسرے وقت بھی پڑھ سکتے ہیں) چند افراد گول دائرہ کی شکل میں بیٹھ جائیں اور جو مشکل در پیش ہو، ذہن میں رکھ کر پہلے سورہ فاتحہ مع بسم اللہ سات مرتبہ پڑھیں، اگر شریک افراد زیادہ ہوں تب بھی فاتحہ فقط سات افراد ایک ایک بار پڑھیں، اس کے بعد کنکریاں یا کھجور کی گٹھلیاں جو میسر ہوں ان پر ایک سو ایک (۱۰۱) مرتبہ درود شریف پڑھیں، پھر اناسی (۷۹) مرتبہ سورہ الم نشرح پڑھیں، اس کے بعد ایک ہزار مرتبہ سورہ اخلاص (قل ھو اللہ) پڑھیں، اس کے بعد سورہ فاتحہ پہلے کی طرح فقط سات بار پڑھیں اس کے بعد

  • ایک سو ایک بار یَا قَاضِیَ الحَاجاتِ

  • ایک سو ایک بار یَا کافِیَ الْمُھَمَّاتِ

  • ایک سو ایک بار یَا مُجِیْبَ الدَّعَوَاتِ

  • ایک سو ایک بار یَا حَلَّ الْمُشْکَلاتِ

  • ایک سو ایک بار یَا دَافِعَ الْبَلِیَّاتِ

  • ایک سو ایک بار یَا رَافِعَ الدَّرَجَاتِ

  • ایک سو ایک بار یَا شَافِیَ الْاَمْرَاضِ

  • ایک سو ایک بار یا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ

پڑھ کر اس کا ثواب سلطان العارفین، حضرت خواجہ بایزید بسطامی، حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی، حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی، حضرت خواجہ ابویوسف ہمدانی، حضرت خواجہ عارف ریوگری، حضرت خواجہ عزیزان علی رامیتنی، حضرت خواجہ بابا سماسی، حضرت خواجہ سید امیر کلال، خواجہ خواجگان پیرِ پیران حضرت بہاؤ الدین نقشبند بخاری اور حضرت خواجہ ابو منصور ماتریدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی ارواح پاک کو ایصال ثواب کریں اور ان کے وسیلہ سے اپنی حاجت کے لیے دعا کریں۔ انشاء اللہ تعالیٰ ان حضرات قدسی صفات کے صدقہ میں اللہ تعالیٰ مشکل حل فرمادیگا۔ یہ ختم شریف تین یا سات یوم تک پڑھا جاتا ہے۔ ختم شریف میں شامل حضرات جس قدر نیک و صالح ہونگے اسی قدر قبول دعا کی زیادہ امید ہے۔

مناجات بدرگاہ قاضی الحاجات

اے خداوندا بذاتِ کبریا کے واسطے
قرۃ العینین احمد مصطفی کے واسطے

بے حساب و بے عقاب و بے عتاب بخش دے
لخت جو کبد النبی خیر النساء کے واسطے

ہے رضامندی تیری مطلوب در ہر دوسریٰ
لافتیٰ الا علی حسنُ العلیٰ کے واسطے

رکھ مجھے در ہر دو عالم زیر سایۂ عاطفت
سید الشہداء شہیدِ کربلا کے واسطے

حضرت سجاد زین العابدیں کا واسطہ
باقر و جعفر امام الاتقیا کے واسطے

کشتی میری ڈوبتی کو پار کردے یا خدا
موسیٰ کاظم امام علی رضا کے واسطے

حضرت سید محمد ہے تقی جس کا لقب
جود کر نابود پر اس ذوالعطا کے واسطے

تاجدار ہر دو عالم حضرت علی النقی
عاقبت محمود کر اس رہنما کے واسطے

موت کی تلخی نہ دیکھوں گور میری کر منیر
احسن حسن العسکری شمس الہدیٰ کے واسطے

موت دے جب، ذات تیری راضی و خوشنود ہو
سید موعود مہدی پیشوا کے واسطے

دیدہ گریاں سینہ بریاں بے قراری اضطراب
عشق اپنے میں فنا کر دائما کے واسطے

تا قیامت عشق تیرے میں ہوں جاں گداز
آل امجاد النبی بدر الدجیٰ کے واسطے

دین و دنیا کے سبھی اعداء میرے مقہور کر
حضرت فضل علی ظل ہما کے واسطے

مشکلیں آسان فرما دین و دنیا کی تمام
حضرت محمد عبدالغفار حق نما کے واسطے

 

اٰمِیْنَ یَا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ وَصَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلیٰ خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ

ماہِ رجب المرجب کے فضائل اور نوافل

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم  

رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ماہ رجب کی

 بیمشار فضیلت ہے اس ماہ مبارک کی عبادت بہت افضل ہے

 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب

 ماہ رجب کا چاند دیکھو تو پہلے ایک مرتبہ یہ دعاء پڑھو :۔

 اَ للّٰھُمَّ بَارِک لَنَا فِی رَجَبَ و شُعبَانَ وَبَلَّغنَا اِلٰی شَھرِ رَمَضَانَ ط

نفل نماز

ماہ رجب کی پہلی شب نماز عشاء کے بعد دس رکعت نماز پانچ

 سلام سے پڑھے ہر رکعت میں بعد سورہ فاتحہ کے سورہ

 کافرون تین تین مرتبہ اور سورہ اخلاص تین دفعہ پڑھے۔

 انشاءاللہ تعالٰی اس نماز کے پڑھنے والے کو اللہ پاک

 قیامت کے دن شہیدوں میں شامل کرے گا اور ہزار درجہ

 اس کے بلند کرے گا۔

لآ اِلٰہَ اِلآ اللہُ وَحدَہ لاَ شَرِیکَ لَہ لَہُ المُلکُ وَلَہُ الحَمدُ یُحی

 وَیُمِیتُ وَھُوَ حَیٌ لاَ یَمُوتُ بِیَدہِ الخَیر وَھُوَ عَلٰی کُلِ شَی ءٍ قَدِیر

ٌ اَللّٰھُمَ لاَ مَانِعَ بِمَآ اَعطَیتَ وَلاَ مُعطِیَ لِمَا سَامَنَعتَ وَلاَ یَنفَعُ

ذَالجَدِ مِنکَ الجَدُّ۔

پہلی شب بعد نماز عشاء چار رکعت نماز دو سلام سے

 پڑھے ہر رکعت میں بعد سورہء فاتحہ کے سورہ نشرح

ایک بار سورہ اخلاص ایک بار سورہ فلق ایک بار

 سورہ ناس ایک بار پڑھے جب دو رکعت کا سلام پھیرے

 تو کلمہ توحید تینتیس (33) بار اور درود شریف تینتیس

(33) مرتبہ پڑھے۔ پھر دو رکعت کی نیت باندھ کر پہلی

 دو رکعت کی طرح پڑھے پھر بعد سلام کے کلمہء توحید

 تینتیس دفعہ دورد شریف تینتیس دفعہ پڑھ کر جو بھی

 حاجت ہو اللہ پاک سے طلب کرے۔ انشاءاللہ تعالٰی ہر

حاجت قبول ہوگی۔

ماہ رجب کی پہلی تاریخ بعد نماز ظہر دو رکعت نماز پڑھے۔

 ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے سورہ اخلاص پانچ پانچ

مرتبہ پڑھنی ہے۔ بعد سلام کے اپنے پچھلے گناہوں سے

 توبہ کرے۔ انشاءاللہ تعالٰی درگار رب العزت سے اس نماز

 پڑھنے والے کے تمام گناہ معاف ہو کر مغفرت ہوگی۔

ماہ رجب کی ہر شب جمعہ نماز عشاء دو رکعت نماز پڑھے

 پہلی رکعت میں بعد سورہ فاتحہ کے سورہ بقر کا آخری

 رکوع امن الرسول سے کافرین ط تک سات مرتبہ پڑھے۔

 پھر دو رکعت میں بعد سورہ فاتحہ کے سورہ حشر کی

 آخری آیات ھواللہ الذی تا الحکیم ط سات مرتبہ پڑھے۔

 بعد سلام کے بارگاہ الٰہی میں جو بھی حاجت ہو طلب

کرے انشاءاللہ تعالٰی جو دعا مانگے قبول ہوگی۔ ہر مراد کے

 لئے یہ نماز بہت افضل ہے۔

لیلۃ الرغائب اسی مہینہ میں ہوتی اور اس لئے مہینہ کے

 پہلے جمعہ کی رات کا نام لیلۃ الرغائب ہے اس رات

 میں بعد مغرب کے بارہ رکعت نفل چھ سلام سے ادا کی

 جاتی ہیں۔ ہر رکعت میں بعد الحمد کے انا انزلنا تین بار

 اور اخلاص بارہ مرتبہ پڑھے بعد فراغ ستر بار پڑھے :۔

 اَلّٰھُمَ صلِّ عَلٰی مُحَمَدٍ ن النّٰبِیّ الامُیِّ وَعَلٰی اٰلِہ وَسَلَّم

پھر سجدہ میں جاکر ستر بار پڑھے

سُبُّحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ المَلآئِکَۃِ وَالرُّوحِ

 اور پھر سر اٹھائے اور کہے

رَبِّ اغفِر وَارحَم وَیحَادَ دَرُعَّمَا تَعلَم اِنَّکَ اَنتَ العَزِیزُ الاَعظَم

ستر مرتبہ پھر دوسرا سجدہ اسی طرح کرے۔ پھر جو دعا

 مانگے گا قبول ہوگی۔ انشاءاللہ تعالٰی

 ماہ رجب کے پہلے جمعہ کو ظہر اور عصر کے درمیان چار

 رکعت نماز ایک سلام سے پڑھے۔ ہر رکعت میں بعد سورہ

 فاتحہ کے آیۃ الکرسی سات بار سورہ اخلاص پانچ مرتبہ پڑھے۔

 بعد سلام کے پچیس مرتبہ یہ پڑھے۔

لاَ حَولَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَ بِاللہِ الکَبِیرِ المُتَعَالِ ط

پھر ایک سو مرتبہ یہ استغفار پڑھے :۔

 اَستَغفِرُاللہَ الَّذِی لاَاِلٰہ اِلاَّ ھُوَ الحَیُّ القَیّوُمُ غَفَّارُ الذُ نُوبِ وَسَتَّارُ

 العُیُوبِ وَاَتُوبُ اَلَیہِ ۔

بعد ازاں ایک سو مرتبہ دورد شریف پڑھ کر جو بھی دعا

 کرے خواہ دنیاوی یا دینی انشاءاللہ تعالٰی درگار الٰہی میں

 ضرور قبول ہوگی۔

پندرھویں شب کو بعد نماز عشاء دس رکعت نماز پانچ سلام

 سے پڑھے۔ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص

 تین تین دفعہ پڑھے۔ بعد نماز کے یہ دعاء پڑھے :۔

لاَاِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَحدَہ لاَ شَریِکَ لَہ لَہُ المُلکِ وَلَہُ الحَمدُ یُحیٰی وَیُمِیتُ

 وَھُوَ حَق لاَ یَمُوتُ بِیَدہ الخَیرُ وَھُوَ عَلٰی کل شَیءٍ قَدیِرٌ۔

 اس نماز کے پڑھنے والے کے گناہ ایسے جھڑیں گے جیسے

 درخت کے سوکھے پتے جھڑ جاتے ہیں۔

ماہ رجب کے کسی جمعہ کی شب کو بعد نماز عشاء دو رکعت

 نماز پڑھے۔ ہر دو رکعت میں بعد سورہ فاتحہ کے آیۃ الکرسی

 گیارہ مرتبہ سورہ زلزال گیارہ مرتبہ ۔ سورہ تکاثر گیارہ مرتبہ

 پڑھے بعد سلام کے درگاہ الٰہی میں اپنے گناہوں کی مغفرت

 طلب کرے۔ انشاءاللہ تعالٰی اس نماز پڑھنے والے کے تمام

 گناہ معاف فرما کر اللہ پاک اس کی بخشش فرمائے گا۔

نفل نماز شبِ معراج

ماہ رجب کی ستائیسویں شب کو بارہ رکعت نماز تین سلام سے

 پڑھے پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ قدر تین تین

مرتبہ ہر رکعت میں بعد سلام کے ستر مرتبہ بیٹھ کر یہ پڑھے

لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ المَلِکُ الحَقُ المُبینُ

دوسری چار رکعت میں بعد سورہ فاتحہ کے سورہ نصر تین تین

 مرتبہ ہر رکعت میں بعد سلام کے بیٹھ کر ستر مرتبہ پڑھے۔

 اِنَّکَ قَویُّ مُّعِینٌ وَاحِدِیٌ دَلِیلٌ بِحَقِّ اِیَّاکَ نَعبُدُ وَ اِیَّاکَ نَستَعِینُ۔

تیسری چار رکعت میں بعد سورہ فاتحہ کے سورہ اخلاص تین تین

 مرتبہ ہر رکعت میں بعد سلام کے بیٹھ کر ستر مرتبہ سورہ الم

 نشرح پڑھے پھر درگاہ رب العزت میں دعاء مانگے،

 انشاءاللہ تعالٰی جو حاجت ہو گی وہ اللہ تعالٰی قبول فرمائے گا۔

ماہ رجب کی ستائیس (27) تاریخ بعد نماز ظہر چار رکعت

 نماز ایک سلام سے پڑھے پہلی رکعت میں بعد سورہ فاتحہ

 کے سورہ قدر تین مرتبہ۔ دوسری میں بعد سورہ فاتحہ کے

 سورہ اخلاص تین دفعہ تیسری میں بعد سورہ فاتحہ کے

 سورہ فلق تین مرتبہ چوتھی میں بعد سورہ فاتحہ کے

 سورہ ناس تین دفعہ پڑھے۔ بعد سلام کے دورد پاک ایک

 سو مرتبہ پڑھے۔ یہ نماز ہر مراد کے لئے انشاءاللہ تعالٰی

 بہت افضل ہے۔

 آخر ماہ رجب میں دس رکعتیں پانچ سلام سے پڑھے۔ ہر رکعت

 میں سورہ الحمد کے بعد سورہ کافرون تین بار اور سورہ

 اخلاص تین بار پڑھے۔ پھر بعد نماز کے ہاتھ اٹھائے اور

 یہ دعا مقدسہ پڑھے۔

لاَاِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَحدَہ لاَ شَریِکَ لَہ لَہُ المُلکُ وَلَہُ الحَمدُ یُحی وَیُمِیتُ

وَھُوَ حَیٌّ لاَ یَمُوتُ بِیَدِہِ الخَیرُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدیِرٌ وَصَلّٰی اللہُ

 عَلٰی سَیِدِناَ مُحَمَدٍ وَعَلٰی اٰلِہ الطَاھِرِینَ وَلاَ حَولَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَ

 بِاللہِ العَلِیِّ العَظِیمِ ۔

 پھر مانگ تو اپنے رب سے حاجت اپنی قبول کی جاوے

 گی دعا تیری اور کرے گا اللہ تعالٰی درمیان تیرے اور دوزخ

 کے ستر خندق ہر ایک خندق کی چوڑائی پانچ سو برس

 کی راہ ہوگی اور لکھے گا اللہ تعالٰی تیرے واسطے بدلے

 ہر رکعت کے ثواب ہزار رکعت کا جب سنی یہ حدیث سلمان نے

 تو روتے ہوئے خدا کے شکر کے لئے اس کثیر ثواب کے

 انعام پر سجدہ میں گر پڑے۔

وظائف

ماہ رجب میں پہلی تاریخ سے ہر نماز کے بعد تین مرتبہ اس

 دعا کو پڑھنے کی بہت فضیلت ہے۔

 اَستَغفِرُاللہُ العَظِیمَ الَّذِی لاَ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ الحَیُّ القَیُّومُ ط اِلَیہِ تَوبَۃَ

عَبدٍ ظَالِمٍ لاَ یَملِکُ نَفسِہ ضَراً وَّلاَ نَفَعاً وَّلاَ موتاً وَلاَ حَیٰوۃً وَّ لاَ نَشُوراً ط

ماہ رجب المرجب کی پندرہ تاریخ کسی نماز کے بعد ایک مرتبہ

 یہ استغفار پڑھنی بہت افضل ہے۔ اس دعاء کے پڑھنے والے

 کی تمام برائیاں مٹا کر اللہ پاک اسے نیکیوں میں بدل دے گا۔

 اَستَغفِرُاللہَ الَّذِی لاَ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ الحَیُّ القَیُّومُ غَفَّارُ الذُ نُوبِ وَسَتَّارُ

 العُیُوبِ وَاَتُوبُ اِلَیہِ ۔

ماہ رجب کی کسی تاریخ کو نماز ظہر یا مغرب یا عشاء کی

 نماز کے بعد سورہ کہف ایک بار سورہ یٰس ایک بار۔ سورہ

 حٰم ایک بار سورہ دخان ایک بار سورہ معارعہ ایک بار

 پڑھے پھر سورہ اخلاص ایک ہزار مرتبہ پڑھے اللہ پاک

 ان سورتوں کے پڑھنے والے پر خاص رحمت و برکت عطا فرمائے گا۔

نفل روزہ

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ماہِ رجب کے

 روزوں کی بہت بڑی فضیلت ہے اور سب سے زیادہ ستائیس

 تاریخ کے روزہ کا بہت بڑا ثواب ہے اس روزہ سے عذاب

قبر اور نار دوزخ سے محفوظ رہے گا۔ ماہِ رجب کے ایک

 روزہ کا ثواب ہزار روزوں کے برابر ہے۔

ماہِ رجب المرجب

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم  

اسلامی سال کے ساتویں مہینے کا نام رجب المرجب ہے

-رجب ترجیب سے ما خوذ ہےجس کے معنی ہیں تعظیم کر نا

 اہل عرب اس مہینہ کو اللہ تعا لٰی کا مہینہ کہتے تھے-اور

 اس کی تعظیم کر تے تھے-اس لیےاس کو رجب کا نام دیا گیا-

اس مہینہ کی یکم تاریح کو سیدنا خضرت نوح علیہ السلام

 کشتی پر سوار ہوئےاور اسی ماہ کی چو تھی تاریح کو جنگ

 صفین کا وا قعہ پیش آیا اور اس ماد کی ستا ئیسویں شب

 کو حبیب پروردگار نبیوں کے سالار دو عالم کے مالک

 و مختار محمد مصطفٰٰی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج

 شریف کرائی گئ جس میں آسمانی سیر اور جنت و دوزخ

 کا ملا حظہ کرنا اور دیدارالٰہی سے مشرف ہونا تھا-

محترم مسلمان بھا ئیو !
اس ماہ مبارک میں عباد تیں اور دعائیں مقبول ہوتی ہیں

-زمانہ جاہلیت میں جب مظلوم طالم کےلیے بددعاکرنا چاہتا

 تو رجب کے ماہ میں بددعا کرتا جو مقبول بار گاہ الٰہی ہوتی-

رحمتوں کی بارش:

پیارے مسلمان بھائیو! رجب شریف میں نفلی روزےرکھنابے

حد ثواب اور سعادت کاباعث ہے-لہذا ہرمسلمان بھائی اور

 بہن اس مہینےمیں بالکل سُستی نہ کریں اورجس قدرممکن

 ہو روزے رکھیں دنیاو آخرت میں بے شمار انعامات میسر ہونگے-
رسول اللہ نے ایک موقع پر ارشادفرمایا “رجب ایک عظیم

الشان مہینہ ہے اس میں اللہ تعا لٰی نیکیوں کود گنا کرتا ہے

-جوکوئی رجب میں ایک دن کا روزہ رکھتاہےگویااس نے

 سال بھر کے روزے رکھےاور جو کوئی رجب میں سات دن

 کے روزے رکھے گا اس پر دوزخ کے سات دروازے بند

 کئے جاتے ہیں، اور جوکوئی اس ماہ میں آٹھ دن روزے

 رکھے گا اس کیلئے جنت کے آٹھ دروازے کھول دئیے

 جائیں گے اور جو کوئی اس ماہ میں دس دن روزے رکھے

 تو اللہ عزوجل سے جس چیزکا سوال کرے گا اسے دی

 جائے گی-اورجو کوئی پندرہ دن کے روزے رکھے گا تو

 آسمان سے ایک منادی ندا کرتاہے تیرے گزشتہ گناہ

 معاف کر دئیےگئے ہیں-اور اب نئے سرے سے عمل کر

 اور جو کوئی اس سے زیادہ روزے رکھے گا اللہ عزوجل

 اسےاس سے زیادہ عطا کرےگا-(ماثبت من السنہ صفحہ 126)

شب معراج کی فضیلت:

رجب المرجب کی ستاسئیسویں رات کو شب معراج کہتے ہیں

۔اس رات کواللہ عزوجل نے اپنے پیارے محبوب: کو معراج شریف

 کی دولت عطا فرمائی اور پیارے آقا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم

 نے جنت اور دوزخ کو ملا حظہ فرمایا اور چشمان مبارک

 سے اللہ عزوجل کا دیدار کیا۔لہذا اس رات کوخوب

 عبادت میں گزارنا چاہنے۔حضور نے ارشاد فرمایا جو کوئی

 ستائیسیویں رجب کو روزہ رکھے گا اسے ساٹھ مہینوں

 کے روزوں کاثواب ملےگا۔(غنیتہ الطالبین)

 

تقوی کا معنی اور مفہوم

تقوی کيا ہے؟

 تقوی انسانی زندگی کی وہ صفت ہے جو تمام انبياء کی تعليم کا نچوڑ رہی۔اس کا لغوی معنی تو کسی شے سے دور رہنے،اس سے بچنے يااسےچھوڑنےہی کےہوتے ہيں۔ليکن شريعت اسلام ميں تقوی نہايت وسيع معنی رکھتا ہے۔

مختصرطور پر تقویٰ کی تعريف کے سلسلہ ميں يوں کہا جا سکتا ہے کہ يہ دل کی اس حالت کا نام ہے جس کی موجودگی ميں انسان ہر اس فعل سے بچنے کی کوشش کرتا ہے جو اللہ پاک کو ناپسند ھو۔

 "انمال الاعمال با النيات"کے تحت جس طرح نيت ہر عمل کی جان ہوتی ہے اسی طرح تقوی ميں بھی اسے بڑا دخل ہے۔اگر ارتکاب گناہ اور خدا کی نافرمانی سے صرف اس ليے بچا جاۓ کہ خدا ناراض ہو گا يا رحمت الہی سے محرومی ہو گی تو تقویٰٰ کی حقيقت حاصل ہوتی ہے ورنہ اگرخيال رسوائی يابدنامی کاڈر ہو يا کوئی عمل دکھلاؤے کے ليے کيا جائے تو تقویٰ نہيں ہوگا۔

قرآن وحديث ميں لفظ" تقویٰ "مختلف صورتوں ميں بےشمارمقامات پرا ستعمال کيا گيا ہے۔ ہے۔مختلف استعمالات کے پيشٍ نظراس کی تعريف يوں کی جا سکتی ہے۔

" تقویٰ رذائل سے بچنے اور فضائل سے آراستہ ہونے کا نام ہے"۔

نصرآبادی فرمايا کرتےتھے کہ تقویٰ يہ ہے کہ انسان اللہ کے سوا ہر چيز سے بچے------- طلق ابن خبيب کا قول ہے کہ

"اللہ کے عذاب سے ڈر کر اس کے نور کے مطابق ا طاعت خداوندی يعنی اس کے احکا م پر عمل کرنے کا نام تقویٰ ہے"۔ (رسالہ تشريہ)

حضرت جمشيد نقشبندی رحمتہ اللہ عليہ کا قول ہے کہ:۔

" زندگی اطاعتِ مصطفٰے صلی اللہ عليہ وسلم ميں گذارناتقویٰ ہے۔"

"حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ سے تقویٰ کی تعريف پوچھی تو حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کيا:"کيا آپ کبھی خاردار راستے پر چلے ہيں؟" آپ نے جواب ديا:" ہاں": پھر پوچھا کہ"آپ نے کياطريقہ استعمال کيا؟" حضرت عمر رضی اللہ عنہ فر مانے لگے":ميں کانٹوں سے بچ بچ کر اور کپڑوں کو سميٹ کر چلا۔"حضرت کعب رضی اللہ عنہ بولے :" يہی "تقویٰ " ہے۔

 اس کا مطلب يہ ہے کہ دنيا کی مثال خا ر دار راستے کی ہے۔مومن کا کام يہ ہے کہ اس ميں سے گزرتے ہوئےدامن سميٹ کرچلے۔اس کی کاميابی اسی ميں ہے کہ ہر کام ميں ديکھے کہ اس ميں خدا کی خوشنودی مضمر ہے يا نہيں۔

 ابو عبد اللہ رودباری فرمايا کرتے تھے کہ " تقوی يہ ہے کہ ان تمام چيزوں سے اجتناب کيا جائے جواللہ سے دور رکھنے والی ہوں ۔"

حضرت واسطی رحمتہ اللہ عليہ فرماتے تھے کہ

"اپنے تقویٰ سے بچنے کا نام تقویٰ ہے"۔

 متقی آدمی کے لئے ضروری ہے کہ وہ ريا سے بچے اس لئے کہ يہ اعمال کو اس طرح کھاتی ہےجس طرح ديمک لکڑی کو کھاجاتی ہے۔کہتے ہيں کہ حضرت ذوالنون مصری عليہ الرحمتہ کے علاقہ ميں ايک بار قحط پڑ گيا۔لوگ آپ کے پاس دعا کروانے کے لئے آئے ۔آپ فرمانے لگے":بارش اس لئے نہيں ہوتی کہ گناہ گار زيادہ ہو گئے ہيں اورسب سے بڑا گناہ گار ميں ہوں ۔اگر مجھے شہر سے نکال ديا جائے تو بارانٍ رحمت برسنے لگ جائے گی۔

 اللہ ان لوگوں پر رحمتيں برسائے عظيم ہوتے ہوئے بھی ان کے ہاں دعویٰ نہيں تھااوراسی کانام تقویٰٰ ہے ۔

فر وتنی است دليل رسيد گانٍ کمال

کہ چوں سوار بمنزل رسد پيادہ شود

يعنی اہل کمال کی نشانی عاجزی اور انکساری ہوتی ہے ۔آپ نے ديکھانہيں کہ سوار جب منزل مقصود پر پہنچتاہے تو پيادہ ہو جاتا ہے۔

 تقویٰ کے مدارج

پہلا درجہ

 التوقی عن العذاب المخلد باالتبری عن الشرک۔ (انور التنزيل جلد اول ص ١٦)

عذاب آخرت سے ڈر کر اپنے آپ کو شرک سے بچانا تقویٰ ہے۔

 اللہ تعالٰی کو اس کی ذات،صفات اور افعال ميں يکتا جاننا تقویٰ کا پہلا زينہ ہے۔مومن کے عرفانی مدارج کا کمال يہ ہوتا ہے کہ اس کی رگ وجان میں توحيد رچی بسی ہوتی ہے۔وہ اللہ ہی کومعبود سمجھتا ہے۔اوراسی ذات کو مقصود تصور کرتا ہے۔

گو يہ سب کو تسليم ہے کہ معبود وہی ہے

مگر کم ہيں جو سمجھتے ہيں کہ مقصود وہی ہے

متقی شرک کو ظلم عظيم سمجھتا ہے۔اس کی دعوت و تبليغ کا محوراثبات توحيد اور ترديد شرک ہوتا ہے ۔ليکن ياد رہے کہ توہين انبياء اورگستاخ اولياء توحيد نہيں بلکہ جرم عظيم ہے۔ جس طرح خدا کی ذات و صفات میں کسی کو شريک ٹھہرانا کفر ہے ،اسی طرح انبياء ومرسلين کو اپنی طرح سمجھنا يا اپنے آپ کو ان کے مثل جاننا صريح کفر ہے۔اللہ پاک ہر قسم کے شرک سے بچائے۔آمين يا رب العالمين۔

عقا ئد کا ٹھيک ہونا تقویٰ کی جان ہے ۔سورہ بقرہ ميں متقی کی تعريف ميں اس کے اعمال کے ساتھ ساتھ راسخ عقائد ہی کا ذکر کيا گيا ہے۔

 اَلَّذِيْنَ يُوْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ ہلا وَالَّذِيْنَ يُوْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ج وَبِااْلاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ ہ (القرآن ۔ ٢تا٦)

 " وہ لوگ جو غيب پر ايمان رکھتے ہيں۔نماز قائم کرتے ہيں،اور ہمارے ديئے ہوئے سے خرچ کرتے ہيں جو آپ پر اور آپ سے پہلے نازل ہونے والی وحی پر ايمان لاتے ہيں اور آخرت پر يقين رکھتے ہيں۔"

 دوسرا درجہ

 التجنب عن کل ما يؤ ثم من ادرك حتٰی الصغا ئر۔ (انوارالتنزيل جلد اول ص١٦)

 " ہر وہ فعل جس ميں گناہ کا انديشہ ہو يہاں تک کہ صغيرہ گناہوں سے بچنا بھی تقویٰ کہلاتا ہے "۔

 تقویٰ کے اس مرتبہ کی طرف قرآن حکيم نے اس طرح اشا رہ فرمايا ہے:۔

 وَلَوْ اَنّ َ اَھْلَ الْقُرآي اٰمَنُوْاوَ اتَّقُوْا۔ (الاعراف۔٩٦)

 " کاش بستيوں والے ايمان لاتے اور تقویٰ اختيار کرتے"۔

 متقی کے لئے ان حدود کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے جو کائنات کے خالق نے متعين کی ہيں۔يہ سب کچھ اسی صورت ميں ممکن ہوتا ہے جب خوف الٰہی دل ميں پوری طرح جاگزيں ہو اور انسان ہر وقت يہ سوچے کہ يہ دنيا اندھيرنگری نہيں،بلکہ امتحان گاہ ہے اورايک نہ ايک دن اسے اپنے اعمال کے بارے ميں جواب دہ ہونا ہے۔

 تيسرا درجہ

علامہ ناصر الدين ابو سعيد عبداللہ بن بيضاوی لکھتے ہيں:۔

 والثالثۃ ان يتنزہ عما يشغل سرہ عن الحق ويتبتل اليہ بشراشرہ وھو التقوی الحقيقی المطلوب۔ (انوار التنزيل ص١٦ جلد اول)

 " ہروقت اللہ تعالٰی سے تعلق قائم رکھنا اور اس سے غافل کر دينے والی اشياء سے لا تعلق ہونا تقویٰ ہے اور تقویٰ کی حالت حقيقی اور مطلوب ومقصود ہے"۔

 يہاں تعلق سے مراد ہر وقت خدا کو ياد کرنا ہے۔ہر فعل ميںاس کی رضا ديکھنا ہے۔بعض صوفياء کا "پاس انفاس"کا معمول بھی تقویٰ کے اس مفہوم ميں آسکتا ہے۔دوسرے لفظوں ميں تقویٰ کی اس حالت کو"ماسوی اللہ بس"سے بھی تعبير کيا جا سکتا ہے۔يعنی اللہ کے سوا ہرچيز سے بے نياز ہو جا نا۔

 قرآن مجيد ميں پروردگارٍ عالم ارشاد فرماتے ہيں:۔

 يٰآاَيّھُاَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْااتَّقُوااللہَ حَقَّ تُقَا تِہٰ ط ۔ (آل عمران : ١٠٢)

"اے ايمان والو تقویٰ اختيار کرو جيسا کہ تقویٰ کا حق ہے"۔

 انسان کو ہر وقت اس کو شش ميں لگے رہنا چاہيے کہ کوئی چيز راہ ٍدين سے غفلت کا سبب نہ بنے۔شيطانی طاقتيں اس پر غا لب نہ آئيں۔نفس امارہ اسے اپنے دامن ميں نہ لے لے،اور يہ سب کچھ عمل پہيم اور جہادِ مسلسل سے ہی حاصل ہو سکتا ہے ۔ فکر اورجذ بہ صا د ق اس سلسلہ ميں ممّد اور معاون ثابت ہوتے ہيں۔

 تقویٰ کی اہميت

متيقا نہ زندگی انسان کو نمونے کا انسان بنا ديتی ہے ۔مسلمان صرف اجتماعی زندگی ہی ايک ضابطے کا پابند نہيں بلکہ وہ انفرادی زند گی ميں بھی ايک دستور اور قا نون کے مطابق تعمير اور تطہير حيات کی منازل طے کرتا ہے ۔اس کا اٹھنا بيٹھنا ،چلنا پھرنا اور قول وفعل رضائے الہٰی کے حصول کے لئے ہوتے ہيں۔

 تقویٰ کی اہميت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا يا جا سکتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ عليہ وسلم سے ايک با ر پو چھا گيا :'' آل نبی کون لوگ ہيں"؟ توآپ نے ارشادفرمايا:"متقی"۔ علاوہ ازيں اسلام کا سارا نظام عبادت يہی مقصد رکھتا ہے کہ لوگ "متقی"يعنی صاحب کردار بن جائيں۔

 رسول کريم صلی اللہ عليہ وسلم اکثر اوقات "تقویٰ " کے لئے دعا فرماتے ۔حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہيں کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم فرما يا کرتے:۔

 اَللّٰھُمَّ اٍنّیٍْ اَسْاََ لُكَ الْھُدیٰ وَالتَّقیٰ وَالْعَفَافَ وَالٰغٍنیٰ ۔

"اے اللہ ! ميں تجھ سے ہدايت ،تقویٰ اور عفت وغِنا کا سوال کرتا ہوں"۔

تقوي کی حد

 انبياء کرام معصوم ہستياں ہوتے ہيں۔اللہ تعالٰی ان کی تخليق ہی ايسی کرتا ہے کہ وہ بشري کمزوريوں سے پاک ہوتے ہيں۔" تقویٰ "اگر پوري آب وتاب کے ساتھ کہيں دکھائی دے سکتا ہے تو وہ انبياء ہی ہيں۔اس کے علاوہ کسی شخص کی زندگی ميں"تقویٰ" اس کا مليّت کے ساتھ جو ان کے ہاں ہوتا ہےنہيں پايا جاتا۔يہی وجہ ہے کہ قرآنِ کريم نے اس کي کوئی حد مقرر نہيں کی۔بلکہ ارشاد فرمايا:۔

 فَاتَّقُواللہ مَا اسّتَطَعْتُمْ۔ ( التغابن : ١٦)

 پس ڈرو اللہ سے اپني بساط کے مطابق۔

 يعني تقويٰ کا حق ادا کرنے ميں تم کوئی کسر نہ اٹھا رکھو بلکہ ہر شخص اپني طاقت کے مطابق يہ کوشش کرے کہ اس کی زندگی احکام الٰہی کے مطابق بسر ہو۔

 تقويٰ کے اثرات

 اسلامي کردار يعني تقویٰ کے اختيار کرنے سے ايک مسلمان کی زندگی پر بےشمار اثرات مرتب ہوتے ہيں۔دينی اور دنياوي زندگی ميں اس کی بدولت انسانی ضمير کو سکون و چين ميسر ہوتا ہے۔

 قران کی روشنی ميں تقويٰ کے اثرات پر ہم ايک طائرانہ نظر ڈالتے ہيں۔

 تقويٰ اور انسانی عظمت کا راز

عظمت اور بزرگی کی تلاش انسانی فطرت ہے۔ہر شخص معاشرہ ميں اعلٰی سے اعلٰی مقام حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اسلام کي نظر ميں عظمت و شرافت اور بلندي مراتب کا معيار دولت کی کثرت نہيں۔مال و زر کا ہونا نہيں اور نا ہی حسن و جمال کو اس ميں کوئی دخل ہے بلکہ اپني زندگي کو اللہ کي رضا کي خاطر گزارنا فضيلت کي اصل کسوٹي ہے۔ قرآن مجيد اس بات کي ترديد يوں کرتا ہے:

 اِنّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقَاکْمْ۔( الحجرات۔١٣ )

 اللہ کے نزديک معزز ترين شخص وہ ہے جو تم ميں زيادہ پرہيزگار ہے۔

 رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کے ايک قول سے بھی يہی پتہ چلتا ہے کہ حقيقی شرف تقویٰ ہی ميں ہے۔آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے قبا کے خطبہ ميں ايک بار ارشاد فرمايا:"تقویٰ عزت دلاتا ہے اور اللہ کو خوش کرتا ہے"۔

 معلوم ہوا کہ حسب و نسب کی روحانی اور مقصودی زندگی ميں کوئی اہميت نہيں بلکہ يہ وہ بت ہيں جن کی پوجا سے ہماری قوم مسلم قوميت کھوتی جا رہی ہے۔نسلی اور معاشی امتيازات نے ہمارے اسلامی معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر ديا ہے۔علاقائی تعصبات دل و دماغ پر پوري طرح تسلط جما رہے ہيں اور يہ سب کچھ تقویٰ کے منافی ہے۔

 تقویٰ اور فلاح حقيقی

 انسان جب تک نظامِ وحی سے رہنمائی حاصل نہيں کرتا نقصان اور خسارے ميں رہتا ہے۔ہدايت کے ليے وجدان اور عقل اس کے ليے نا کافی ثابت ہوتے ہيں۔اگر وہ اپنے خالق اور ہادي کی طرف رجوع نہ کرے تو وہ اکثر فيصلے غلط کرتا ہے۔اس کی دماغی اور ذہنی قوتيں زندگی کی پر پيچ راہوں ميں اس کی ساتھی نہيں بنتيں۔وہ يہاں پہنچ کربے بس ہو جاتا ہے۔اس کی نگا ہيں کس ہادی کو تلاش کرتی ہيں ۔اگر اس بے چارگی کے عالم ميںوہ فطرت کی آواز سن کر اپنے خالق و مالک کے "نظام ہدايت"جو مختلف ادوار ميں انبياء کی وساطت سے انسانيت کی رہنمائی کرتا رہا کو پہچان لے تو فطرت اسے فلاح کا پيغام ديتی ہے۔

 وہ لوگ جن کے سينے ايمان سے خالی ہيں اور ان کے اعمال قرآن و سنت کے بر عکس ہيں بے شک وہ انسان تو ہيں ليکن "نظام وحی"سے عدم تمسّک کی بناء پر نقصان و خُسران ان کا مقدر ہے۔

 اِنَّ الْاِنْسَانَ لّفْيِ خُسْر ٍ۔ ( العصر۔٢ )

"بے شک انسان خسارے ميں ہے"۔

 نقصان کے مقابلہ ميں قرآن "فلاح" کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔اور "فلاح" کی شرائط ميں تقویٰ کو ايک خاص اہميت حاصل ہے۔ سورۃ "البقرہ" ميں متقی کی چھ صفات بيان کرنے بعد رب ذوالجلال ارشاد فرماتے ہيں:

 اُولٰئِکَ عَلٰي ھُدًي مِّنْ رَّبِھِمْ وَاُوْلٰئکَ ھُمُ الْمُفْلِحُونَ ہ ( البقرہ۔٥ )

 "يہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدايت پر ہيں اور يہی لوگ کا مياب و کامران بھی ہيں۔"

 تقویٰ اور سکون زندگی

کون نہيں جانتا کہ ہماری زندگی ميں جتنی بھی مشکلات ہيں ۔"قرآن"سے بغاوت ہی کا نتيجہ ہے۔اگر ہم اپنے آپ کو تربيت کے ليے قرآنی سانچوں ميں ڈھالتے ہيں اس کا مطلوبہ کردار جس کو وہ "تقویٰ" کا نام ديتا ہے اپنے اندر پيدا کر ليتے تو يقيناً ہماری زندگی ميں اس قدر بے چينياں نہ ہوتيں بلکہ سکون و آرام سے دن گزارتے۔

 وَمَنْ يّتَّقيِ اللہَ يَجْعَلْ لَّہُ مِنْ اَمْرِہ يُسْرًا۔

 اور جو اللہ سے ڈرے وہ اس کے کام ميں آسانی فرما دے گا۔

 تقویٰ اور قرب الٰہی

 قرآن مجيد ميں ارشاد رب العزت ہے:

 اِنْ اَوْلِياءَ ہ اِلّاَ الْمُتَقُوْنَ وَ لکِٰنَّ اَکْثَرَ ھُمْ لاَ يَعْلَمُوْنَ ہ ( الانفال:٣٤ )

 "بلا شبہ متقی ہی اللہ کے دوست ہوتے ہيں ليکن اکثر لوگ جانتے نہيں۔

 اگر صحيح معانوں ميں پرہيزگاري ہمارا شعار بن جائے۔خدا کا خوف ہمارے دلوں ميں راسخ ہو جائے تو"نَخْنُ اَقْرَبُ اِلَيْہِ منْ حَبْلِ الْوَرِيْد" ( ہم شہ رگ سے بھی زيادہ قريب ہيں ) کی نويد جا نفرا آج بھی قرآن مجيد سنا رہا ہے۔متقی ہی کے بارے ميں رب ذوالجلال ارشاد فرماتے ہيں:

 اِنَّ اللہَ يُحِبُ الْمُتَّقِينَ ہ ( التوبہ:٧ )

 بے شک اللہ پاک متقی لوگوں ہی سے محبت کرتا ہے۔

 انوار الٰہيہ کے مشتاق کے لئے اس سے بڑا انعام کيا ہو سکتا ہےکہ محبوب و مطلوب اپنی توجہ والتفات کے جيتنے کا نسخہ خود تجويز فرما رہا ہے۔کيا يہی وہ مقام نہيں جس کی خاطر بدر و حنين کے معرکے وجود ميں آئے۔کربلا ميں اہل بيت اطہار کا خون گرا۔باپ نے بيٹے کی گردن پر چھُري رکھی۔

 اے بندگانِ خدا :اگر تم بھی چاہتے ہو کہ محبت الٰہی کی سوغات تمھارے حصے ميں بھی آئے تو اپنے آپ ميں متقی لوگوں کی صفات پيدا کيجيے۔

 تقویٰ اور امتياز

 تقویٰ کے اجتماعی اثرات ميں سے ايک يہ بھی ہے کہ وہ معاشرہ جو" من حيث الجماعت " (پوري جماعت کی حيثيت سے )اپنے آپ کو کتاب و سنت کے مطابق بنا ليتا ہے۔اقوام عالم ميں اس کي شان نرالي اور امتيازي بن جاتي ہے۔

 ارشاد رب العزت ہے:

 يٰٰآ َيُّھَا الّذِينَ اٰمَنُوْآ اِنْ تَتَّقُوا اللہَ يجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَاناَ۔( الانفال: ٢٩ )

 "اے اہل ايمان :اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے امتياز قائم کے دے گا"۔

"امتياز"کي مختلف نو عيتيں ہو سکتي ہيں۔يعنی اس سے ايک معنی تو يہ بھي ليا جا سکتا ہے کہ تم ميں اچھي اور بري چيز ميں امتياز کرنے کي قوت پيدا فرما دے گا يعني بصيرت عطا کر دے گا ، اور يہ بھي ہو سکتا ہے کہ اقوام ميں تمھيں امتيازی شان عطا کر دے۔

 تقویٰ اورکشادگیِ رزق

 روٹی،کپڑے اور مکان کامسئلہ ہر دور ميں بڑی اہميت کا حامل ہوتا ہے۔قرآن نے معاشی آسودگی بھی اپنی حدوں ميں قائم رہنے ہی ميں قرار دی۔ارشادِ رب العزت ہے:۔

 "وَمَنْ يَّتَّيِق اللہَ يَجْعَلْ لہَّ مَخْرَ جاً ۔وَّ يَرْ رُقُہ مِنْ حَيْثُ لاَ يَحْتَسِبُ "۔( اطلاق : ٢۔٣ )

"متقی کے ليے اللہ تنگی سے نکلنے کے لئے سامان مہيا کرتا ہے، اور اسے وہاں سے روزی ديتا ہے کہ اس کا وہم و گمان بھی نہيں ہوتا ہے"

 اسلامی نظام کا مکمل مطا لعہ کرنے سے اچھی طرح اس نتيجہ پر پہنچا جا سکتا ہے کہ اسلام کيسے "معاشی خوشحالی " ديتا ہے ۔

 اس کے بر وعکس "اعراض عن القرآن" سے اقوام و ملل کی معاش و معيشت تنگ کر کے رکھ دي جاتی ہے۔قرآن نے معاشی تنگی کي وجہ ہي اس نظام سے بغاوت کو قرار ديا ہے۔

 وَ مَنْ اَعْرَاضَ عَنْ ذِ کُرِیُ فَاِنَّ لَہُ مَعِيْشَہً ضَنْکاً وَّ نَحْشُرُہ يَوْمَ الْقِيَامَةَِ اَعْمٰی۔( ٰطہٰ : ١٢٤)

 "جس نے ہماری ياد سے غفلت برتی بے شک معيشت تنگ ہو جائے گی اور ہم اسے قيامت کے دن اندھا اٹھائيں گے۔

باب دوم

تشکيل تقویٰ کی بنياديں

مضبوط ايمان

ايمان کی مضبوطی اور استحکام تعميرٍ سيرت ميں ہر روز نئی آن اور نئی شان پيدا کرتے ہيں۔اگريہ تسليم کرليا جائے کہ قربٍ الٰہی اور اتقاء لازم وملزوم ہيں تو پھر يہ سمجھنے ميں دشواری نہيں ہوگی کہ قربٍ خداوندی کا پہلا زينہ ہی استحکام ايمان ہے۔ايمان جتنا مضبوط  ہوگا کردار اتنا ہی اعلٰی ہو گا۔ايمان کی کمزوری سيرت و کردار کو کمزور کرتی ہے۔

يہی وجہ ہے کہ قرآن نے جب بھی مردٍ مومن کو کسی عمل اور جہاد کے لئے تيار ہو نے کی دعوت دی۔"ايمان"کا ذکر ضرور کيا۔وہ تجارت عظيم جس کو"عذابُ اليم"(دردناک عذاب) سے چھٹکا ر ے کا با عث قرا ر د يا گيا۔اس ميں بھی سب سے پہلے ايمان باللہ اور ايمان باالرسول  (صلی اللہ عليہ وسلم)کا ہی ذکر کيا گيا۔

تُوْ مٍنُوْنَ باٍللہٍ وَرَسُوْ لٍہٰ وَ تُجَا ھِدُوْنَ فِیْ سَبٍيْلٍ اللہٍ بٍاَمْوَالٍکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ۔( الصف : ١١)

" اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم پر ايمان لاؤ اور خدا  کے راستے ميں اپنے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرو"۔

کردار کی تعمير

" تقویٰ " کا ترجمہ اگر عام فہم الفاظ ميں کيا جائے تو يہ کہا جا سکتا ہے کہ تقویٰ "اسلامی کردار" کا دوسر انام ہے۔ياد رہے کہ تعميرٍ کردار کے لئے قرآن کثرت عبادت کا ايک نسخہ بھی تجويز کرتا ہے ۔ مثلاً  بے حيائی سے رُ کنے کے لئے يا صبر کی صفت پيدا  کرنے کے لئے نماز کا  پڑھنا تجويز کيا گيا۔

انسانی طبا ئع ميں رَچ بَس جانے والی مذموم حرکتيں کثرتِ زُہد ہی سے عا د ات ِحسنہ  سے بدلتی ہيں۔

پروردگار عالمين ايک جگہ ارشاد فرماتے ہيں:۔

ٰيآَ يّھُاَ النَّاسُ اعْبُدُوْارَبَّکُمُ الّذَیِْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ہ   (البقرہ : ٢٠ )

" اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہيں اور تم سے پہلے لوگوں کو پيدا فرما يا ،تا کہ تم متقی بن جاؤ "۔

رمضان المبارک کے روزوں کا ملسفہ بھی يہی بيان فرمايا :۔

يٰآَ يّھُاَ الَّذِ يْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَماَ کُتِبَ عَلیَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ہ (البقرہ : ١٢٣ )

" اے اہل ايمان ! تم پر پہلے لوگوں کی طرح روزے فرض کر ديئے گئے تا کہ تم متقی بن جاؤ۔"

تلاش مرشد

ايمان کی حرارت،محبت کی گرمی اور عشق کی تپش شيخٍ کامل کی وجہ ہی سے حاصل ہو سکتی ہے ۔قرآنٍ حکيم بھی تعمير سيرت ، پختگئی کردار ، تشکيل تقویٰ اور آنکھوں سے غفلت  کی پٹياں دُور کرنے کے لئے "وسيلہ" ضروری قرار ديتا ہے۔

يٰآَ يّھُاَ الَّذِ يْنَ اٰمَنُوْااتَّقُوااللہَ وَابْتَغُوْ آاِلَيْہٍ الْوَ سِيْلَتہ وَجَاھِدُوْا فِیْ سَبِيْلِہٰ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ہ ( المائدہ : ٣٥ )

" اے ايمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسيلہ تلاش کرو اور اس کی راہ ميں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ "۔

آيت ميں وسيلہ سے مراد جہاں کتاب وسنت ہے وہاں پيرومرشد کی توجہ اس کی تلاش اور بيعيت ہے شاہ ولی اللہ اور مولوی اسماعيل دہلوی نے اس سے يہ مراد لی ہے ۔

( قول جميل،صراطٍ مستقيم بحوالہ ضياالقرآن )

ڈاکڑعلامہ اقبال عليہ الرحمتہ شيخ کامل کی توجہ کےاثرات ايک جگہ اسطرح بيان کرتے ہيں :۔

دم  عا ر ف  نسيم  صبح  دم  ہے

اسی سے ريشہ معنی ميں نم ہے

اگر  کوئی  شعيب  آئے  ميسر

شبانی  سے  کليمی  دو  قدم ہے

غوروفکر

تقویٰ اسلام کی روح ہے اور اسلام دينِ فطرت ہے۔اس کی حقانيت لامحا لہ ہر اس ذہن کو تسليم کرنی پڑتی ہے جو تعصب کی پٹی اتار کر صيح خطوط پر غوروفکر کرے۔قرآن جو ايک الہامی کتاب ہے وہ صرف اپنے قاری کو تلاوت ہی کی دعوت نہيں ديتی بلکہ فکر اور تدبر کرنے کی تعليم بھی ديتی ہے۔اس کی وجہ يہ ہے کہ غوروفکر سے انسانی ضمير زندہ ہوتا ہے اور حقائق کو تسليم کرنا سيکھتا ہے جب قلب و جگر اور دل و دماغ کسی بات کو تسليم کر ليتے  ہيں تواس کے تقاضے پورے کرنے پھر مشکل نہيں رہتے۔

تقویٰ چونکہ اسلام کا تقاضا ہے،اس لئے اس کی تشکيل بھی غوروفکر کی مرہون منت ہے۔

قرآن کی دعوت ِفکر کو تين حصوں ميں تقسيم کيا جا سکتا ہے :۔

١ ۔  کتاب

٢ ۔ انفس

٣ ۔  آفاق

قرآن سے استدلال

١ ۔  وَلقَدْ صَرَّ نْناَ فِیْ ھٰذَاالْقُرْاٰنِ لِيَذَّ کَّرُوْ ط   ( بنی اسرائيل  :  ٤١)

"بلا شبہ ہم نے قرآن ميں طرح طرح سے سمجھا يا تاکہ نصيحت حاصل کريں "

 ٢ ۔ ھُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآ ٔ مَآ ٕ لَّکُمْ مِنْہُ شَرَابُ وَّ مِنْہُ شَجَرُ فِيْہِ تُسِْيمُوْنَ ہ يُنْبِتُ لَکُمْ بِہِ الزَّرْعَ وَالزَّ يْتُوْنَ وَالنَّخِيْلَ وَا ْلاَ عْنَا بَ وَمِنْ کُِلّ الثَّمَرٰتِ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ َلاٰيَتہ ً لِّقَوْمٍ يَّتَفَکَّرُوْنَ ہ   ( النحل : ١١،١٠ )

" وہ ذات جس نے تمہارے لئے آسمان سے پينے کے لئے پانی اتارا تم اس سے (اُگنے والے)درختوں سے چراتے بھی ہو(وہ ذات)جو تمہارے لئے اس سے کھيتی اگاتا ہے۔زيتون،کھجور،انگور اور ہر قسم کے پھل۔ بلا شک اس ميں فکر کرنے والی قوم کے لئے نشانی ہے ۔"

٣ ۔ قُلْ مَنْ يَّرْ زُقُکُمْ مِنَ السَّمَآ ٕ وَالاَْ رْمِن اَمَّنْ يَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالاَْ بْصَارَ وَمَنْ يُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَِيّتَ مِنَ الْحَّیِ وَمِنْ يُّدَ بّرُِ الاَْ مْرَط فَسَيَقُوْ لُوْنَ اللہ ج فَقُلْ اَفَلاَ تَتَّقُوْنَ ہ (يونس : ٣١ )

"ان سے پوچھو تمہيں زمين اور آسمان سے رزق کون ديتا ہے۔سماعت اور بصارت کی قوتوں کا مالک کون ہے۔بے جان سے جاندار کو اور جاندار سے بے جان کو کون نکالتا ہے۔اس نظامِ کائنات کی تدبيرکون کر رہا ہے۔وہ ضرور کہيں گے کہ اللہ پس کہو تم کيوں تقویٰ اختيار نہيں کرتے ۔"

٤ ۔ سورت غاشيہ ميں ايک مقام پر غورو فکر کی دعوت اس انداز ميں دی گئی

اَفَلاَ يَنْظُرُوْنَ اِلیَ الاِْ بِلِ کَيْفَ خُلِقَتْہ وَاِلیَ السَّمَٕ کَيْفَ رُفِعَتْ ہ وَاِلیَ الْجِبَال ِ کَيْفَ نُصِبَتْ ہ وَاِلیَ الاَْ رْضِ کَيْفَ سُطِحَتْ ہ ( انعا شيہ : ١٧ تا ٢٠ )

" کيا وہ اونٹوں کو نہيں ديکھتے کيونکر پيداہوئے اور آسمان کو کہ کيسے بلند کيا گيا۔پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح گاڑے گئے ہيں اور زمين کو کہ کس طرح بچھائی گئی ہے۔"

علم شريعت کا ہونا

تقویٰ کا تعلق چونکہ شريعت سے ہے۔اس لئے ہر متقی اور پرہيزگار شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ شريعت کا مکمل علم رکھتا ہو يا اگر زيادہ نہيں تو کم ازکم جائز وناجائز اور حلال و حرام کا علم رکھنا تو ازحد ضروری ہے۔

تقویٰ کا بلند ترين مقام عرفان ربّ ہے جسے فقر سے بھی تعبير کيا جاتا ہے حضرت باہوُ عليہ الرحمتہ اس کے بارے ميں فر ماتے ہيں۔

علموں باہج جوکرے فقيری    کافر مرے ديوانہ ہوُ

خداوندکريم امتِ مصطفٰے صلی اللہ عليہ وسلم کو ہزارہا ان کے فر يب کاروں سے بچائے جو طريقت کو شريعت سے الگ کر کے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہيں حالانکہ حقيقت يہ ہے ۔

اگر بہ اونر سيدی تمام بولہيبت

اتباع رسول صلی اللہ عليہ وسلم کے علاوہ جو بھی طريقہ ہے خواہ وہ کتنا ہی دلکش کيوں نہ ہو نفس کی کرشمہ سازی کے سوا کچھ نہيں ۔

خوفِ خدا

" تقویٰ "پيدا کرنے کے لئے خوفِ خدا کا ہونا بھی اشدضروری ہے ليکن خوف کو اتنا نہ بڑھايا جائے کہ اميد ہی ختم ہو کر رہ جائے۔ايک حديث کے مطابق ايمان،خوف اور اميد کے درميان ہے ۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ايک مشہور قول ہے کہ :۔

"اگر اللہ تعالٰی کی طرف سے يہ اعلان کيا جائے کہ جنت ميں صرف ايک ہی شخص داخل کيا جائے گا توميں کہوں گا کہ وہ شخص ميں ہی ہوں ۔ليکن اگر يہ اعلان ہو جائے کہ دوزخ ميں صرف ايک ہی آدمی داخل ہو گا تومجھے انديشہ ہو گا کہ وہ آدمی کہيں ميں ہی نہ ہوں۔"

خوفِ خدا کےلئے آخرت،موت اور قبر کافکر ضروری ہے۔ايک شخص کو ميں نے ديکھا کہ مرغ ذبح کرتے ہوئے رو رہا تھا اور ساتھ ہی يہ کہہ رہا تھا کہ بے زبان اور غير مکلف چيز مرتے  ہوئے اگر اتنی تکليف ميں مبتلا ہے تو گناہ گار انسانوں کا کيا حال ہو گا۔

سرکارِ دوعالم صلی اللہ عليہ وسلم کے بارے ميں ايک روايت ہے کہ جب آسمان پر بادل چھا جاتے تو آپ کا چہرہ متغير ہو جاتا اور آپ خوفِ خدا سے کبھی گھر سے باہرآتےاورکبھی اندر جاتے۔جب بارش ختم ہوجاتی توآپ مسرورہوجاتے۔  

فطرتِ ا نسانی ميں يہ بات د اخل  ہے جب ا سے کسی بات کا خوف ہو تو عمل کی قو ت اس  ميں تيز سے تيز تر ہو جاتی ہے۔البتہ خوف کی توعتيتں بدلتی رہتی ہيں۔

اسلام بھی اپنے ماننے والوں کو ايک غائب ہستی کی باز پُرس سے ڈرنے کی تلقين کرتا ہے۔اس خوف کا اثر يہ ہے کہ کسی پوليس يا محتسب کی غير موجودگی ميں بھی انسان ايسا کام کرنے سے رک جاتا ہے جس سے اسکےرب کی نافرمانی ہوتی ہواورخلق خدا کوضرر کاانديشہ ہو۔

خوفِ آخرت

ايک حديث ميں سرکار ِدوعالم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہيں:۔

"اللہ تعالی کو ان آنسووں سے پيار ہے جو خوفِ الٰہی سے جاری ہوتے ہيں"۔(مشکوۃ شريف باب الجہاد)

ايک بزرگ نے ايک روتے ہوئے لڑکے سے رونے کا سبب دريافت کيا تو اس نے جواب دياکہ اللہ تعاليٰ سے ڈر کر رورہا ہوں ۔انہوں نے پوچھا ،خوف کا سبب کيا ہے؟تو اس نے کہا کہ کتاب  حکيم ميں ارشادِ رب العزت ہے :۔

فَاتَّقُواالنَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَة ہ ( البقرہ : ٢٤ )

" ڈرواُس آگ سے جس کا ايندھن (گناہگار) لوگ اور پتھر ہيں " :۔

ميں سوچتا ہوں کہ ميری ماں آگ جلاتی ہے تو چولہے ميں بڑی لکڑيوں کو آگ لگانے کے لئے نيچے چھوٹی چھوٹی لکڑ ياں رکھتی ہے تاکہ آسانی سے آگ روشن ہو جائے۔اگر خداوند کريم نے بھی جہنم ميں بڑے  بڑے نا فرما نوں کو آگ ميں ڈالا تو مجھ جيسے چھوٹے چھوٹے  گناہگاروں کو بھی کہيں آگ ميں نہ ڈال ديا جائے۔

مولانا رُومی کا ايک شعر ہے ۔

ہر  کجا  آبِ  رواں  غنچہ  بود

ہر کجا اشکِ رواں رحمت بود

جہاں پانی چلتا ہے وہاں باغات ہوتے ہيں اور جہاں آنسوجاری ہوں وہاں خدا کی رحمت ہوتی ہے۔

حضرت صديق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمايا کرتے تھے کہ خوفِ الٰہی سے رويا کرو اگر رونا نہ آئے تو رونے والی شکل ہی بنا ليا کرو ۔

خوفِ خدا کے بارے ميں قرآن حکيم ميں ربِ ذوالکمال ايک جگہ ادشاد فرماتے ہيں :۔

وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٰ وَنَھیَ النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی ہ فَاِنَّ الْجَنّتہَ ھِیَ المَاوٰی ہط ( الَّنز عٰت : ٤٠،٤١ )

" اور جس نے اپنے رب کے سامنے حاضری کا خوف رکھا ا ور اپنے آپ کو خواہشات سے  باز رکھا۔بے شک اس کا ٹھکانہ جنت ہے "۔

دُعا

اسلامی اور روحانی زندگی ميں طلب اور جستجو کا ايک خاص مقام ہے۔ہدايت اور گمراہی ہر دو مِنْ جَانِبِ اللہِ ہی ہوتے ہيں۔مرد مومن کو چاہيے کہ وہ ہر وقت خدا کی چوکھٹ پر پڑا ر ہے ۔اس سے سوال کرتا رہے ۔اسی داتا کی عطا سے زنگ آلود دل پاک ہوتے ہيں۔مخلوق کو خالق کا قربِ مقصود حاصل ہو تا ہے۔

يہ بات مسلمہ ہے کہ عبادت سے " تقویٰ " کی تشکيل ہوتی ہے اور دعا کے بارے ميں روف رحيم آقا صلی اللہ عليہ وسلم ارشاد فرماتے ہيں :۔

اَ لدُّعَا ھُوَ الْعِبَادَة ۔ ( رواہ ابوداؤد)

دُعا ہی عبادت ہے ۔

ايک حديث کا مضمون يہ بھی ہے کہ

"دُعا عبادت کا مغز ہے "۔

آقا کے ان دو اقوال سے پتہ چلا کہ دعا ميں اگر عجزونياز مندی شامل ہو،اور دعا گو رياونمود  سے اجتناب کر لے رب ذوالجلال کو پکارے تو اس کی تاثير عبادت عامہ سے زيادہ ہوتی ہے ۔

خلاصہ کلام يہ ہو کہ تشکيل تقویٰ کے لئے صدقِ طلب کا ہونا ضروری ہے۔رشد وہدايت کے نور کے حصول کے لئےخود بھی دعا کرنی چاہيےاوراللہ کے نيک بندوں سے بھي دعا کرانی چا ہيے

ااس لئے کہ يہ حقيقت ہے کہ

نگاہِ  ولی ميں يہ تاثير ديکھی

بدلتی ہزاروں کی تقدير ديکھی

استقامت

استقامت سے مرادِ لزوِم طاعت ہے۔بعض علما نے کہا کہ خداوند تعالٰی کی رضا کے مطابق اپنے سارے امور کا نظام درست رکھنا استقامت کہلاتا ہے۔ايمان کے بعد استقامت کی اہميت کا اندازہ مخبر صادق صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی اس حديث سے بھی لگايا جا سکتا ہے کہ ايک بار آپ سے  پوچھا گيا  کہ کوئی ايسا عمل بتائيں کہ کسی اور سے پوچھنے کی حاجت نہ

 رہے۔آقا ومولا نے ارشاد فرمايا :۔

قُلْ آ مَنْتُ بِاللہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ ۔

کہہ کہ ميں ايمان لايا اللہ پر ۔ پھر استقامت اختيار کر

صوفياء کا مسلک ہے کہ استقامت اور استقلال کرامت سے بھی زيادہ اہم شے ہے۔اہل ايمان کے اسی وصف کو قرآن مجيد نے ايک مقام پر يوں بيان فرمايا : ۔

اِنَّ الَّذِيْنَ قَا لُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلاَ خَوْفُ عَلَيْھِمْ وَلاَ ھُمْ يَحْزَ نُوْنَ ہ ( لا حقاف : ١٣)

"بے شک جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھراس پر ثابت قدم رہے۔نہ ان پر خوف نہ ان کو غم۔ ( الاحقاف : ١٣ )

 

استقامت کا آسان تر مفہوم ثابت قدمی کا ہے۔تقویٰ کا تعلق چونکہ اجتناب معاصی اور حليت اوامر سے ہے۔اس لئے حصولِ علم کے بعد تقویٰ کے ثمرات ديکھنے کے لئے صبر اورثبات کا ہونا اشد ضروری ہے۔

باب سوم

تقویٰ کے تقاضے 

شرک کے اجتناب

تقویٰ کا اولين تقاضا يہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالٰي کے ساتھ

 کسي کو شريک ٹھہرانے سے اجتناب کيا جائے۔کيونکہ انبياء کا

 پہلا درس ہي توحيد کا اثبات اور  شرک کی نفی ہے۔

شرک کے بارے ميں قرآني  رويے کو اس طرح بيان کيا جا سکتا ہے:۔

  1. شرک ناقابل معافی جرم ہے۔( النسئا : ٤٨ )

  2. شرک کرنے سے پہلے کے تمام اعمال ختم ہو جاتے ہيں۔( الانعام : ٨٩ )

  3. شرک سے آدمی بزدل ہوتا ہے اور مشرک کا انجام جہنم ہے

  4. ۔( آل عمران : ١٥١ )

  5. شرک جہالت ہے۔( الاعرا ف : ١٣٨ )

  6. شرک ظلم عظيم ہے۔( لقمٰن : ١٣ )

  7. مشرک خواہشاتِ نفس کے غلام ہوتے ہيں۔( النجم : ٢٣ )

  8. بد ترين مخلوق مشرک ہے۔( البيّنہ : ٦ )

 

نظاِم عبادات کا قيام

اصلاح قائد کے بعد عملي زندگی کے ميدان ميں جس چيز کي

اولين ضرورت ہے ۔وہ نظام عبادت کا قيام ہے۔تقويٰ کے تقاضوں

 کو سمجھنے کے لئے ضروري ہے کہ تخليق انسانيت کي علّت

معلوم کي جائے اور وہ يہ ہے کہ:

  وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالاِْنْسَ اِلاَّ لِيَعْبُدُوْنَ ۔ ( الزّاريت : ٥٦ )

" ہم نے جنّوں اور انسانوں کو نہيں پيدا کيا مگر عبادت کے لئے " ۔

عبادت کا مفہوم نہايت وسيع ہے ۔اس ميں ہر وہ چيز آ جاتي ہے

 جس کے کرنے اور باز آ جانے سے رضائے ربّ کا پروانہ ملتا

ہو ليکن  نماز، روزہ ،زکوٰۃ، اور حج  اسلامي نظام عبادت کي

بنياديں ہيں۔ان ميں سے بھي نماز کو  بہت اہميت حاصل

ہے۔روزِ محشر اولين پرسش اسي کے بارے ميں ہو گي۔

روز محشر کہ جان گداز بود

ا و لين  پر سشِ  نما ز   بود

ذکر الٰہی ميں مشغوليت

  اللہ کاذ کر دلوں کو صاف کرتا ہے۔بد اعماليوں اور بد عقيدگيوں سے

 نجات دلاتا ہے۔بے حيائي اور فحاشي سے منع کرتا ہے۔انساني کردار

 کو نکھارتا ہے۔مزاج ميں اعتدال پيدا کرتا ہے۔سيرت ميں حسن لاتا ہے

۔طبيعت کو استغنا بخشتا ہےاور سب سے بڑھ کر يہ کہ کثرتِ ذ کر

 سے انسان قربِ الٰہي کي منزلوں کا راہی بن جاتا ہے۔

ذکر اللہ کے بارے ميں قرآن کا ارشاد سنيئے :۔

  وَ لَذِکر اللہ ِاَ کْبَرْ۔"۔ ( العنکبوت:٤٥ )        

"اللہ کا ذکر بہت بڑي شَے ہے"۔

ذکر کيا ہے؟ہر وقت اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول  کي غلامي ميں لگائے رکھنا۔تصور ميں اُس حاکِم مطلق کو ياد کرنا،احکامِ الٰہي پر کاربند

رہنا۔قرآني تعليمات کا پرچار کرنا يہ سبھي ذکر اللہ کي اقسام ہيں۔

 حاکميتِ خداوندي پر اگر مکمل يقين نہ ہو اور ہر فعل ميں

 رضائے الٰہي کا جوہرشامل نہ ہو تو مقصود عبادت اور مدّعائے

 زيست پورا نہيں ہوتا ۔

فکرِ آخرت

ہميشہ انجام پر نگاہ رکھنے والے لوگ ہي ہر ميدان ميں کاميابيوں

 سے ہمکنار ہوتے ہيں۔انسان کا انجام فنا نہيں بلکہ فنا کے بعد

ايسي بقا ہے جس ميں دنيا ميں کئے جانے والے ہر عمل کے بارے

 ميں باز پرس ہو گی ۔

                               نگہ در فرصت کے عالم دمے است

                              دم   پيش عالم  بہ  از  عالمے است

 آخرت کي فکر کر کے اپنے اعمال و افعال کا محاسبہ کرنا بھي

 تقويٰ کا تقاضا قرار ديا گيا ہے۔ارشاد رب العزت ہے : ۔

 يٰآ َيًُھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوااللہ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسُ مّاَ قَدَّ مَتْ لِغَدٍ

 ج وَ اتَّقُوااللہَ ط اِنَّ اللہ خَبِيْرُم بِمَ  تَعْمَلُوْنَ ہ ( الحشر:١٨ )

"اے ايمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص ديکھے کہ اس نے

 کل کے لئے آگے کيا بھيجا ہے۔اللہ سے ڈرو ۔ وہ يقيناً تمہارے

اعمال سے باخبر ہے " ۔

 اِس آيہ کريمہ ميں آخرت کي زندگی کو " کل"سے تعبير کيا گيا

ہے۔گويا دنيا کي پوري زندگي "آج" ہے۔خوش بخت ہيں وہ

 لوگ جو کل کي فکر ميں اپني چند روزہ زندگي کو اعمال

ِ صالح سے مزّين کر رہے ہيں ۔

اصلاح معاشرہ

کون نہيں جانتا کہ انفرادی زندگی کے اثرات اجتماعی زندگی پر

 مرتّب ہوتے ہيں ۔تقویٰ جس کا تعلق اگرچہ مجموعی طور پر

 فرد ہی سے ہے ليکن اجتماعی اصلاح بھی اُسی صورت ميں

ممکن ہو سکتی ہے جب کہ اسلامی معاشرے سے متعلق ہر

 شخص متقی ہو۔

تقویٰ اگر ايک طرف انفرادی کردارکی تعميرکر تا ہے تو دوسری

 طرف اجتماعی کردار کی تشکيل يعنی اصلاح معاشرہ کی راہيں

 بھی ہموار کرتا ہے۔دنيا ميں جتنی اخوّت اور مروّت مسلمانوں

کے درميان پائی جاتی ہے کسی اور نظام کے پيروکاروں ميں

 نہيں پائی جاتی۔يہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے

 " اصلاح بين المسلمين " ( مسلمانوں کی اصلاح )

کو تقویٰ کا تقاضا قرار ديا ہے ۔ 

اِنَّمَاالْمُؤمِنُوْنَ اِخْوَ ة فَاَ صْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَ يْکُمْ وَاتَّقُوااللہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ

ہ ( الحجرات : ١٠)

"مومن آپس ميں بھائی بھائی ہيں۔پس اپنے بھائيوں ميں

اصلاح کر واور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کيا جائے "۔

تقویٰ کے اس تقاضے يعنی مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی

 درستگی کی اہميت حضور صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے اس

 ارشاد سے بھی واضح ہوتی ہے کہ :۔

"حضرت نعمان ابن بشير فرماتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ

 عليہ وآلہ وسلم نے ارشاد فر ماياکہ تو مومنوں کو باہمی

رحم دلی،محّبت اورارتباط ميں ايک بدن کی مثال ديکھے گا

کہ جسم کا اگر ايک عضو کسی تکليف ميں مبتلا ہوتا ہے تو

 سارا جسم بخار اور بے خوابی کا شکار ہو جاتا ہے۔"

ااس قسم کا ايک مضمون حضرت ابوہريرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے روايت فرماتے ہيں

کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا : مسلمان

مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔وہ نہ تو اس پر ظلم کرتا ہے اور

 نہ اس کو چھوڑتاہے اور نہ ہی اس کی تحقير کر تا ہے۔

" تقویٰ يہی ہے" سينے کی طرف تين مرتبہ اشارہ فرمايا

۔مزيد ارشاد فرمايا: "انسان کے لئے يہی شر کافی ہے کہ وہ

 اپنے مسلم بھائی کی تحقير کرے۔ہر مسلمان کی جان ،مال اور

 عزّت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔"

اتّحادِ ملت

 کسی قوم کی سب سے بڑي خوش قسمتی اور سعادت يہ

ہوتی ہے کہ اس کی صفوں ميں مکمل اتفاق و اتحاد ہو۔افتراق

 وانتشار سے اسے نفرت ہو۔

يہی وہ نعمتِ عظٰمی ہے جس سے قومی زندگی کو بقا حاصل

ہوتي ہے اور اسي وجہ سے ملی عزت اور وقار پائندہ و تابندہ

 رہتے ہيں۔بخلاف اس کے تشتت وافتراق سے حياتِ مِلی خطرے

 ميں پڑ جاتی ہے۔اور قوميں تباہی کے گڑھے ميں گر جاتی ہيں

۔يہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکيم نے ايک مقام پرجہاں تقویٰ کا

ذ کر کيا ساتھ ہی اتحادِ باہمی کا ذ کر کرتے ہوئےاس کے فوائد

 سے آگاہ فرمايا اور بے اتفاقی کو جہنم کا گڑھا قرار ديا۔

يٰآَ يّھُاَ الَّذِ يْنَ اٰمَنُوْ ااتَّقُوااللہَ حَقَّ تُقٰتِہ وَلاَ تَمُوْ تُنَّ اِلّاَ وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ

 ہ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعاً وَّ لَا تَفَرَّ قُوْا وَاذْ کُرُ وْا نِعْمَتِ

اللہِ عَلَيْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَ آ ٕ فَاَ لَّفَ بَيْنَ قُلُوْ بِکُمْ فَاَ صْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہ

 اِخْوَاناً ج وَکُنْتُمْ عَلٰٰی شَفَا حُضْرَة مِّنَ النَّارِ فَاَ نْقَذَ کُمْ مِنْھَا ط

 کَذَالِکَ يُبَيِّنُ اللہُ لَکُمْ اٰ يٰتِہ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ ہ ( آل عمران : ١٠١ تا ١٠٣ )

" اے ايمان والو ! ڈرو اللہ سے جيسے کہ اس سے ڈرنے کا حق

 ہے۔اور نہ مرو مگر مسلمان ہی ہو کر۔اللہ کی رسیّ کو مضبوطی

سے تھام لو،اور تفرقہ نہ کرو۔اللہ کی اس نعمت کو ياد کر و جب

 تم ايک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں ميں

 ايک دوسرے کے لئے محبت پيدا  کی اور تم اس کے احسان

 سے بھائی بھائی ہو گئے۔تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر

کھڑے تھے۔پس اس نے اس سے بچايا۔اسی طرح اللہ تعالٰی

تمہاری ہدايت کے لئے اپنی آيتيں بيان فرماتا ہے ۔

ہر وہ قوم جو اپنے مقصدِ حيات سے منحرف ہو کر اصولوں کو ترک

 کرکے جزئيات و فروعات ميں الجھنے کی کوشش کرتی ہے اس کے

 ہاں بگاڑ کا ہونا ناگزير ہو جاتا ہے اور جب کوئی ملّت تفرقہ کا شکار

 ہو جائے تو اس کی اصلاح و تعمير کا ہر امکان معدوم ہو جاتا ہے ۔

مسلمان کئي بار اس الہامی اصول کے نتائج و عواقب ديکھ

چکے ہيں

 ۔چودہ سوسال کی تاريخ ميں کئی بار ايسے ہوا کہ لوگ باہمی

عداوتوں کا شکار ہوئے ۔ رائے کے اختلاف سے بڑھتے بڑھتے

 پہلے مکتب خيال بنے پھر فرقے بنے اور پھر اللہ کی انتقامی

کاروائی کے شکار ہوئے۔آپ کہہ سکتے ہيں کہ اس عرصہ

ميں کسی کو بندر نہيں بنايا گيا۔آسمان سے کوئی چنگھاڑ

يا چيخ نازل نہيں ہوئی پتھروں کی بارش نہيں کی گئی ۔ليکن

 اس کا مطلب يہ نہيں کہ مسلمانوں کے بارے ميں يہ قانون

فطرت بدل گيا۔حقيقت يہ ہے کہ حضور صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم

 کی دائمی شفقت اور رحمت ہے جس کے زيرِ سايہ مسلمانوں

 پر اس قسم کا عذاب نازل نہيں ہو سکتا ورنہ کسی نہ کسی

 صورت ميں ان کو جھنجھوڑاگيا۔

غلبہ،استيلا،خلافت اور تمکن فی الارض کی نعمتيں ان سے چھنيی

 گئيں ۔غلامی کے عذاب ميں انہيں گرفتار کيا گيا اور آج بھی

 کتنے ہی مسلمان عملی طور پر يا نظرياتی اور تہذيبی

 لحاظ سے غلامی کی سسکياں بھر رہے ہيں ۔کيا اس سے بڑا

 عذاب بھی ہو سکتا ہے ۔دنيا ميں غلامی سے بڑھ کر بھی کوئی

 ذلت اور رسوائی ہو سکتی ہے ۔

تفرقہ اوراختلاف کے جُرِم عظيم پر ذرا خالقِ کائنات کی ناراضگی

 کا اندازہ کيجئے :

وَاِنَّ ھٰذِ ہٓ اُ مَّتُکُمْ اُمَّتہً وَّ احِدَ ة ً وَّ اَناَ رَبُّکُمْ فَا تَّقُوْنَ ہ فَتَقَطَّعُوْا

اَمْرَھُمْ بَيْنَھُمْ زُبُرًا ط کُلُّ حِزْبمٍ بِمَا   لَدَ  يْھِمْ نَرِ حُوْنَ ہ فَذَ رْھُمْ

 فْیِ غَمْرَ تِھِمْ حَتّیَٰ حِيْن ِ ہ   ( المومنون : ٥٢ تا ٥٤ )

" يہ تمہارا دين توايک ہی دين ہے اور ميں تمہارا ربّ ہوں

 ۔پس تقویٰ اختيار کيجئے وہ جنہوں نےدين ميں مختلف

طريقے بنالئے۔ہرايک اپنے ہی طريقےپرخوش ہے۔پس(اے نبی )

چھوڑيئے ان کو ايک مدت تک غفلت ہی ميں پڑے رہيں "۔ 

مسلمانانِ عالم کی فوزوفلاح ، کاميابی وکامرانی ،عزت و وقار،حيات

وبقا اسی ميں ہے کہ وہ ايک رہيں ۔فروعی اختلافات کو ترک کر

 کے ايک دوسرے کی طرف رفاقت کا ہاتھ بڑھائيں ۔

تقویٰ جو اسلامی کردار کا نام ہے ۔اس کا تقاضا يہی ہے کہ مسلمان

 حسب و نسب کے امتياز مٹا کر وحدت کی لڑی ميں پروئے جائيں ۔

اور ياد رکھيئے کہ اگر مسلمانوں نے اِس عظيم جُرم سے خلاصی

 حاصل کرلی توان کی عظمت و اقتدار کے ترانے ارض وسماء 

 پر گونجيں گے ۔

شعائر اللہ کی تعظيم

قرآنِ حکيم ميں ارشاد رُبّ العّزت ہے :۔

وَمَنْ يّعَظِّمْ شَعَا ئِرَ اللہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ ہ  ( الحج : ٣٢ )

" اور جو اللہ کے شعائر کی تعظيم کرے تو يہ دلوں کے تقویٰ سے ہے "۔ 

شعائر ميں ہر وہ چيز شامل ہے جسے اللہ تبارک وتعالٰی کی خود

 کی ذات خود مقرر کر دے يا اس کے انبياء مقرر کريں يا اس کی

 نسبت اللہ کے کسی صالح بندے سے ہو جائے ۔اس سے تبرکات

 بزرگانِ دين سے محبّت اور ان کے احترام کا سبق بھی ملتا ہے

 ۔اس لئے کہ مّحبتِ مطلق کسی شےَ سے نہيں ہوتی بلکہ اس لئے

 کہ اُس کا تعلق بالواسطہ يا بلا واسطہ اللہ کی ذات کے ساتھ ہوتا ہے۔ 

مثلا ً حجِراسود کو بوسہ ديا جاتا ہے ۔اس لئے نہيں کہ وہ پتھر ہے

 بلکہ اس لئے کہ اُس کا تعلق اور نسبت اللہ کے ساتھ ہے

 اور رسولِ اکرم صلی اللہ عليہ وسلم اُسے بوسہ ديتے رہے ۔

اِنَْ الصَّفَا وَالْمَرْوَة مِنْ شَعَآ ئِرِ اللہِ ۔ ( البقرہ :   ١٥٨) 

" بے شک صفا اور مروہ شعائر اللہ سے ہيں "۔

اِن پہاڑوں کا شعائر ہونا بھی اولياء وانبياء سے نسبت ہی کی

 وجہ سے ہے ۔

احترامِ رسول صلی اللہ عليہ وسلم

ايک آدمی تقویٰ کا ہر تقا ضا پورا کرتا ہے ليکن احترامِ رسول

صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے جذبات سے اگر اس کا سينہ خالی

 ہے تو وہ عند اللہ ماجور نہيں ہو سکتا بلکہ اس کے تمام اعمال

 ختم کر ديئے جاتے ہيں ۔اخروی کاميابی کا اصل راز يہ ہے کہ

 دل کو محبتِ محمد صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے جذبات سے

سر شار رکھے ۔محّبت محبوب کے ہر فعل کے احياء کے لئے

 قربانی چاہتی ہے ۔آج کے حالات ہم سے تقا ضا کرتے ہيں کہ

 ہم تحريکِ مصطفوی صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے رکن بن کر

احکام ِ الٰہی کے نفاذ کے لئے کوشش کريں ۔اور زندگی کے

 ہر ميدان ميں ضابِطہِ خداوندی سے رہنمائی حاصل کريں ۔ 

وہ لوگ جو بظاہر کلمہ گو ہيں ليکن ان کے دل محبتِ رسول صلی

 اللہ عليہ وآلہ وسلم اور احترامِ نبی صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے

 جذبات سے عاری ہيں ۔ان سے بصد ادب و احترام گذارش ہے

،کہيں ايسا نہ ہو جائے کہ علمِی ذوق پُوراکرتے کرتے ايمان سے

 بھی ہاتھ دھونے پر جائيں ۔ 

لاَ تُقَدِّ مُوْا بَيْنَ يَدَ يِ اللہِ وَرَسُوْلِہ وَ اتَّقُوااللہَ ط  ( الحجرات : ١ )

" اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے آگے نہ

 بڑھو اور اللہ سے ڈرو ۔ 

احترام کے لئے عند الرسول اپنی آوازوں کو پست رکھنے والوں

کے معتلق فر مايا :۔ 

اِنَّ الَّذِ يْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَ اتَھُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِ اُو ٰ ٓليِکَ الَّذِ يْنَ امْتَحَنَ

 اللہُ قُلُوْ بِھُمْ لِلتَّقْویٰ ط  لَھُمْ   مَغْفِرَ ة وَّ اَ جْرُ عَظِيْمُ ہ   ( الحجرات : ٣ )

"بلاشبہ وہ لوگ جو رسولِ اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے

 پاس بات کرتے ہوئے اپنی آواز دھيما رکھتے ہيں ۔اصل ميں وہی

 لوگ ہيں جن کے دل اللہ نے تقویٰ کے لئے چُن لئے ہيں ۔ايسے

 لوگوں کے لئے مغفرت اور اجرِ عظيم ہے "۔

معلوم يہ ہوا کہ تقویٰ کی جان اور پر ہيز گاری کی رُوح

محبتِ رسول صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم اور احترامِ نبی صلی اللہ

عليہ وآلہ وسلم ہے ۔

اس سے ايک مئسلہ بھی اخذ کيا جا سکتا ہے کہ اپنے شيخ

اور استاد کا احترام کرنا اور اُن کے سامنے مودبانہ گفتگو کرنا

 بھی تقویٰ کا ايک تقا ضا ہے ۔

قيامِ عدل

اسلام ايک عالمگير تحريک کا نام ہے جس کا مقصودومنشور

عالم انسانيت ميں نيکی کا نظام قائم کرنا ہے ۔اس مقصد کے

حصول کے لئے يہ تحريک اپنے ہر رُکن سے ايک مخصوص

کيريکڑ کا تقاضا کرتی ہے جسے تقویٰ کے نام سے تعبير کيا جاتا ہے ۔

تقویٰ جہاں انفرادی اور اجتماعی تعمير و تطہير کا نام ہے،وہاں

 اس کا ايک گہرا ربط تحريکِ اسلام کے منشور سے بھی ہے

۔مثلاً قرآن مجيد نے جہاں عادات واطواراور رسوم وطرق کی

 اصلاح کو تقویٰ قرار ديا ۔اسلام کے منشورومقصود تک رسائی

 حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنا بھی تقویٰ کا تقاضا قرار ديا ۔

تعمير کی ضد تخريب ہے ۔جب تک کوئی قوم قوانين فطرت کی پابند

 رہتی ہے اس کی رگوں ميں تعميری خون گردش کرتا رہتا ہے ۔گويا

کہ بناؤ قانونِ عدل پابندی کی پابندی ميں ہے اور بگاڑ اس

صراطِ مستقيم سے ہٹ جانے کا نام ہے ۔

مسلمان چونکہ خيروبھلائی کا نظام دُنيا ميں رائج کرنا چاہتا ہے

۔انسانيت کو بناؤ کا سبق دينا چاہتا ہے۔تخريبی جراثيم کا خاتمہ

 اُس کا مدعا ہے ۔غرض کہ مسلمان کا يہی کير يکڑ تقویٰ اُسے

 قيامِ عدل کے لئے تيار کرتا ہے ۔  

وَلاَ يَجْرِ مَنَّکُمْ شَتَاٰ نُ قَوْ مٍ عَلٰیٓ اَلاَّ تَعْدِ لُوْا ط اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْویٰ

وَاتَّقُوا اللہَط اِنَّ اللہَ خَبِيْرُم بِمَا تَعْمَلُوْنَ ہ   ( المائدة : ٨ )

"اور تمہيں کسی قوم کی دشمنی عدم عدل پر نہ اُکسائے۔

عدل کيجئے اور اللہ سے ڈرئيے اور يہی تقویٰ کے

زيادہ قريب ہے ۔بلاشبہ وہ تمہارے اعمال سے خبردار ہے "۔ 

عدل کے لئے اردو زبان ميں لفظ "انصاف "استعمال ہوتا ہے

اگرچہ معانی اور مطالب کے لحاظ سے "انصاف "ميں وہ

 زور نہيں جو "عدل " ميں ہے ۔اگر عدل کا معنٰی " توازن "

 کيا جائے تو زيادہ مناسب ہو گا ۔عالم رنگ وبو ميں پروردگار

 کے تمام تر امور عدالت ہی کے ساتھ قائم ہيں يعنی عدل ہی

وہ قانون ہے جو قيام ہستی کے لئے ضروری ہے ۔اس مقام

 پر دائرہِ عدل وسيع سے وسيع تر ہو جاتا ہے ۔معاملات،

مقدمات،نظامٍ شمسی سياروں کی حرکت موسمی تغير وتبدل

اور تخليق انسانيت وتکوينِ اشيائے عالم تک ہر ايک ہی تعادل

و توازن کی مختلف مثاليں ہيں ۔ 

ظلم ہو يا سر کشی،اسراف ہو يا تبذ ير،فساد ہو يا اعتدا

 نظامِ عدل سے ہٹی ہو ئی يہی وہ صورتيں ہيں جن کے

عاملين کو قرآن نے کبھی تو شيطان کا بھائي کہہ کر پکارا

اور کبھی اس سے ملتی جُلتی کو ئی اور اصطلاح استعمال کی۔

قرآن نے حقيقت عدل کے رموز سے آگاہی کے لئے اکثر مقامات

 پر غوروفکر کی دعوت بھی دی اور توازن اور تعادل کو مقصود

 ٹھہرايا اور صاف صاف کہہ ديا کہ جب تم بغير ستونوں کے

 اٹھائے ہو ئے آسمان کو ديکھتے ہو ۔جب تم اس حقيقت سے

 بخوبی آگاہ ہو کہ جوَ سے جوَ اور گندم سے گندم ہی پيدا ہوتی ہے

 تو پھر روزمرہ ميں عدل سے انحراف کيوں ؟

اِعْدِ لُوْا وقف ھْوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْويٰ ۔

" عدل کرو عدل ہی تقویٰ سے زيادہ قريب ہے "۔ 

انفرادی زندگی ہو يا اجتماعی،مسائل سياسی ہوں يا معاشی ہماری

 کا ميابی کا راز اسلام کے نظام عدل ہی ميں ہے اس لئے کہ

 يہ نہ تو حواسِ خمسہ کی تخليق ہے اور نہ ہی وجدان کی پيداوار

 بلکہ منزل من اللہ ہو نے کی حثييت سے يہی وہ ضابطہ حکمت ہے

 جسے اپنانے سے انسانيت عروج کے زينے طے کرتی ہے۔ 

اگر آج ہماری عدالتوں ميں اسلام جو دين فطرت ہے اس کا

 قانونِ عدل لاگو اور قابلِ عمل نہيں تو کيا اس سے يہ نتيجہ نہيں

 نکلتا کہ ہمارے قانون دانوں کے نزديک وہ قانون اس قابل نہيں

 کہ ان کے مسائل حل کرسکے ۔اگرايسے نہيں تو نفاذ ميں اتنی

 تا خير کا مطلب کيا ہے؟

برصغيرپاک وہند ميں انگريز نے ايک گہری سازش کی کہ مسلمانوں

 ميں کچھ آدمی ايسے تيار کئے جنہوں نے قوم و مّلت ميں يہ تبليغ

شروع کر دي کہ دين صرف چند عبادات کا نام ہے حالانکہ اسلام

 ضابطہ کائنات ہے جو زندگی کے ہر گوشہ ميں رہنمائی کرنے کی

 صلاحيت رکھتا ہے ۔ 

بقول شاعر :۔

جدا ہو دين سياست سے تو رہ جاتی ہے چنگيزی 

وفا شعار اِن اسلام !

اگر آپ امن وسکون چاہتے ہيں،اگر آپ کی خواہش زندگی

 کی راحت وآرام ہے،تو اس کا ايک ہی راستہ ہے ۔اسلام کے

 نظام عدل کی طرف لپکيں اور اس طرح تمہاری دعوت سے اہل

جہاں جو جہالت کی تاريکيوں ميں بھٹکتے پھر رہے ہيں اور

 اپنی شيطانيوں اور غفلت شعاريوں سے معاشرہ کو جہنم زار

 بنا ديا ہے ۔اسلام کے انقلابی منشور سے آگا ہی حاصل کريں ۔

رسوم محض سے اجتناب

کون نہيں جا نتا کہ آج ہمارے معاشرے ميں محض تقليدی بنيادوں

 پر بہت سی ايسی رسوم کا آغاز ہو چکا ہے جو قيامِ دين کی راہ

 ميں سب سے بڑی رکاوٹ ہيں ۔روائتی عظمتوں کی پرستش کی

 جاتی ہے ۔پہلے ايک عقيدہ گڑا جاتا ہے ۔پھر اُس کی پرستشِ

متواتر سے اس ميں شانِ تقديس پيدا کی جاتی ہے اور بعض

 ايسی رسميں ہيں جن ميں سوائے ضياِع دولت کے اور کچھ

 نہيں ملتا ۔قرآن مجيد ان سب باتوں کی ترديد کرتا ہے بلکہ

ان کے ترک کرنے کو تقویٰ کا تقاضا قرار ديتا ہے ۔

عربوں کا دستور تھاکہ وہ احرام باندھ ليتے اور گھروں ميں آنے

کی ضرورت پڑتی تو دروازوں سے داخل نہ ہوتے بلکہ

 پچھلی ديواروں سے سوراخ کر کے داخل ہوتے ۔چونکہ يہ

 رسمِ محض تھی ،اس لئے قرآن نے اسے ايک لا يعنی حرکت

 قرارديتے ہوئے اس کے ترک کرنے کو تقویٰ کا تقاضا قراد

 ديا۔۔۔۔ارشادِ ربیّ ہے :۔

وَ لَيْسَ اَ لْبِّرُ بِاَنْ تَاْ تُواالْبُيُوْتَ مِنْ ظُھُوْرِھَا وَ لٰکِنَّ الْبِّرَ مَنِ اتَّقٰی

 ج وَ اْتُواالْبُيُوْتَ مِنْ اَبْوَ ابِھَاص وَ اتَّقُوااللہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ہ  ( البقرہ : ١٨٩ )

"اور يہ نيکی نہيں ہے کہ تم گھروں ميں پچھلی طرف سے

داخل ہو بلکہ نيکی تو تقويٰ  اختيار کرنا ہی ہے گھروں ميں

 دروازوں کی طرف سے آيا کرو اور اللہ سے ڈرو تا کہ فلاح پاؤ ۔"

ہمارے ہاں بچوں کی پيدائش پر ،شاديوں کے رچانے ميں اور

 ماتم کے موقع پر بعض نہيں بلکہ بے شمار ايسی رسميں منائی

 جاتی ہيں جن کا تعلق اصل ميں يا تو ہندؤوں سے ہے يا

انگريزوں سے ۔ قرآنی تعليمات کو ديکھ کر ہميں عبرت حاصل

 کرنی چاہيے اور ان مذموم رسوم واطوار کو غيرت مذہبی کو

 کام ميں لاتے ہوئے صرف خود ہی ترک نہيں کرنا چاہيے بلکہ

 دوسرے حضرات جن کی سرشت ميں ايسی عادات داخل ہيں انہيں

 بھی مجبور کيا جائے کہ تقليد غير سے باز رہيں اور شيطان کو

 خوش نہ کريں ۔

البتہ بعض ديہاتوں ميں بعض لوگوں کو دينی اصولوں کا پا

بند ديکھ کر نہايت مسرت محسوس ہوتی ہے اور ان کے جذبہ

 دين کو داد ديناپڑتی ہے ۔فی الحقيقت اسلام ايک سادہ اور قابلِ

عمل دين ہے ۔يہ عين فطرت کے مطابق ہے ۔اسے کسی

 رسم کے پيوند کی ضرورت نہيں ۔رسوم پرست لوگ خود بھی

 ان سے تنگ ہيں ۔ليکن ان کے ضمير کی آواز جب جذبہ نمائش

 کی نذر ہو جاتی ہے تو وہ ہر کام کرتے ہيں جواُن کا من

 اجازت ديتا ہے ۔

غير اقوام کی تقليد سے بيزاری

مسلمان کسی قوم يا ملک کا نام نہيں ۔بلکہ يہ اللہ کی وہ

 جماعت ہے جس کا منشور نيکی کو غالب کرنا ہے ۔اس مقصد

 کے حصول کے لئے اس کا اپنا ايک پروگرام ہے ۔اس کے پاس

 زندگی گزارنے کے اپنے اصول ہيں ۔ہر وہ آدمی جو اس کے

 اصولوں کو کسی بھی ميدان ميں ٹھکراتا ہے ،تو اس کا مطلب

صاف ظاہر ہے کہ وہ اس کے پروگرام سے متفق نہيں ۔اس کو

 وہ اصول اچھے نہيں لگتے جو حضور صلی اللہ عليہ وسلم نے

 پيش کئے تھے ۔

تقویٰ کا تقا ضا يہ ہے کہ ان اصولوں کو نہ اپنايا جائے جو اسلام

سے ٹکر کھاتے ہيں ۔ان باتوں پر کان نہ دھرے جائيں جو

غير اقوام " نظام مصطفٰے کو ختم کرنے کے لئے کرتی ہيں ۔

غير قوموں کی تقليدی زنجيریں اپنے پاؤں ميں نہ ڈالی جائيں

اور غلامی سے اپنی گردنوں کو بچايا جائے ۔

اگر ايک آدمی دين کو سياسی لحاظ سے تھائيو کريسی يعنی

پاپائيت کا نام بھی دے ۔مسجد کو بھولے سے بھی نہ آئے

 ۔محمد رسول صلی اللہ عليہ وسلم کی سنتوں کا مذاق بھی اڑائے

 اور پھر اپنے آپ کو ايک مسلمان سمجھے اور اپنی حرکات

 کو قابل ِ نجات خيال کرے تو مسئلہ ناقابلِ فہم ہے ۔

نجات اگر ہے تو صرف اس ميں کہ اتھارٹي صرف اللہ اور

 اس کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم کی مانی جائے ۔ہمارا قرآن

 جب ہر اُس معاملہ ميں ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔جس ميں ہماری

 بہتری ہے ۔تو پھر اس نظام کے مقابلہ ميں ہمارے دل فسانے

 کيوں تراشتے ہيں ۔ہماری جبينيں شيطانوں کے سامنے کيوں

جھکتی ہيں ۔ہمارے ہاتھ خود ہی آذري کا شيوہ کيوں اختيار

کرتے ہيں ۔

افسوس صد افسوس کہ شا ہيں نہ بنا تو

ديکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات

تقدير کے قاضی کا يہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرم ضعيفی کی سزا مرگِ مفاجات

آج بھلائی کی بھيک کے لئے ہم کشکول لئے کافروں اور منافقوں

 کے دروازوں پر پھرتے ہيں ۔آج ہماری اطاعت کا معيار لا دين

عناصر کی خوشامد بن چکا ہے ۔

ارشادِ ربّ العزّت ہے :۔

يٰآَ يُّھَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللہَ وَلاَ تُطِعِ الْکٰفِرِ يْنَ وَ الْمُنَا فِقِيْنَ ط اِنَّ اللہَ

 کَانَ عَلِيمْاً حَکِمْاً ہ ( الا حزاب : ١ )

" اے نبی صلی اللہ عليہ وسلم سے ڈرو اور نہ اطاعت کرو

کافروں اور منافقوں کی تحقيق اللہ علم وحکمت والا ہے ۔

اس آيت ميں جاہليت کی رسوم پر ضرب کاری لگائی گئی ہے

 اور منافقين اور کفار کی اطاعت سے منع فر مايا گيا ہے ۔

اللہ کرے ہم انگريز کي اطاعت سے خلاصی حاصل کر ليں ورنہ

 معاش ہو يا معشيت ،سماج ہو يا سياست،فوج ہو يا کوئی

اور ادارہ ہمارا ہر فعل غير اقوام کی تقليد ميں ہے ۔

وعدے کي پا بندی

وعدے کی نوعيّت نجی ہو يا کاروباری،عہد اللہ سے کيا

 جائے يا مخلوق سے ،بہرصورت اس کی پا بندی کرنا تقویٰ کے

 تقاضوں ميں سے ہے ۔

قرآن نے ايک جگہ يہود کے بارے ميں ان کی عہد شکنی

کی بدولت ہی کہا :۔

اَ لَّذِ يْنَ عَھَدْ تَّ مِنْھُمْ ثُمَّ يَنْقُضُوْنَ عَھْدَ ھُمْ فِیْ کُِلّ مَرَّة وَھُمْ

لاَ يَتَّقُوْنَ ہ  ( الانفال : ٥٦ )

وہ لوگ جن سے تو نےعہد کيا۔ہر مرتبہ اس کو توڑتے ہيں

اور خدا سےڈرتے نہيں "۔

سورۃ توبہ ميں ايک مقام پرحضور صلی اللہ عليہ وسلم کو مشرکين

سے بھی وعدہ پورا کرنے کو کہا گيا ہے ۔

فَاَ تِمُّوْااِلَيْھِمْ عَھْدَ ھُمْ اِلٰی مُدَّ تِھِمْ ط اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ ہ  ( التوبہ : ٤ )

"ان سے وعدوں کی مّدت کے مطابق پورا کرو بے شک اللہ متقين

سے مّحبت کرتا ہے "۔

سورۃ مائدہ ميں ارشادِ ربّانی ہے :۔

"اے مومنو ! اپنے بندھے ہوئے وعدوں کو پورا کرو "۔

ايک مقام پرآتا ہے :۔

اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْوُ لا ً ۔

يعنی وعدے کےبارے ميں پرسش ہو گی "۔

حضور سرورِ دوعالم صلی اللہ عليہ وسلم نے ہميشہ وعدے کی

پا بندی کی اور سا تھ ہی اپنے پيروکاروں کو ايفائے عہد کی تلقين

 کرتے رہے ۔ آپ کی مشہور و معروف حديث ہے کہ :۔

لاَ دِيْنَ لِمَنْ لاَعَھْدَ لَہُ ۔

" اس کا دين نہيں جس کا عہد نہيں "۔

ايک موقع پر جب حضور صلی اللہ عليہ وسلم اسلامی لشکر

 کے ساتھ بدر ميں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے ۔قلتِ تعداد کی وجہ

سے ايک ايک آدمی کی ضرورت پڑ رہی تھی ۔دوصحابی

حضرت حذيفہ رضی اللہ تعالی عنہ اورحضرت حسَيلُ جنہوں

 نے مشرکين سےعدم شرکت کا وعدہ کرليا تھا حضور

 صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت ميں حا ضر ہوئے اورساری

 داستان سنائی تو آپ نے ان کو مدينہ بھيج ديا اور فرمايا ہم

 وعدے کی پا بندی کريں گے ۔

عہد کو پورا کرنا بھی تقویٰ کے لوازمات ميں سے ہے اور

 متّقين کا شعار ہے ۔

وعدہ کرتے ہوئے اس بات کا لحاظ ضرور رکھنا چاہيے

کہ کيا جانے والا وعدہ کہيں اسلامی شريعت کی رُوح کے

 خلاف نہ ہو بلکہ زبان سے ہی ايسے الفاظ نہيں نکالنے

 چاہيئں ۔جن پر عمل کرنا مُمکن نہ ہو ۔اسلام نے اس بات

 سے منع کيا ہے ۔ايسی باتيں نہ کيا کرو جو تم نہيں کر

 سکتے ۔اس لئے کہ اللہ کے ہاں بڑے غصّے کی بات ہے۔

يٰٓاَ يُّھَا الَّذِ يْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْ لُوْ نَ مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ ہ  (الصف : ٢ )

" اے ايمان والو ! کيوں کہتے ہو ،جو تم کرتے نہيں "۔

واللہ ! علم باالصواب

اصولِ تعاون

اِسلام کا مقصد نيکی اور بھلائی کو برائيوں پر غالب کرنا ہے

۔اس لئے يہ اپنے ہر ماننے والے کو اِس بات پر اکساتا ہے

کہ نيکی کے کاموں ميں ايک دوسر ے کا ساتھ ديا جائے ۔

قرآن مجيد نے اس سلسلہ ميں ايک زرّين اصول قائم کيا ہے :۔

وَ تَعَاوَنُوا عَلیَ الْبِرِّ وَ التَّقْویٰ وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلیَ ا ْلاِ ثْمِ وَ الْعُدْ وَ انِ

ص وَ اتَّقُوااللہَ ط اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ ہ  (المائدہ : ٢ )

" نيکی اور تقویٰ کے کاموں ميں تعاون کرو اور گناہ اور زيادتی

 ميں باہم ہاتھ نہ بٹاؤ ۔اللہ سے ڈرو بيشک اللہ کا عذاب بہت سخت ہے " ۔

يہ ايک مسلّمہ حقيقت ہے کہ کسِی انقلابی گروہ کی کاميابی

 يا نا کاميابی کا دارومدار،تعاون اور عدم تعاون پر ہی ہوتا ہے

۔اگر نيک کام ميں تعاون نہ کيا جائے تو جن مقاصد کے لئے

 کوئی تحريک چلائی جاتی ہے ۔ ان کا پوُرا ہونا کافی حد تک

 نا ممکن ہوتا ہے ۔مسلمان جن کی زندگی کے منشور ميں ہی يہ

 بات شامل ہے کہ دنياسے فاسد نظام کوختم کياجائے اورنظامِ

مصطفٰے صلی اللہ عليہ وسلم کو رائج کر کے پستی ہوئی انسانيت

 کو نجات دلائی جائے ۔اگر ان کے کچھ افراد اُن باتوں ميں مدد

کرنی شروع کر ديں جن سے باطل کےاصولوں کوتقويت پہنچتی

 ہو تو نظام حق کے لئے چلائی گئی تحريک کو نقصان ہے ۔

 يہی وجہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے اسلامی معاشرے کے ہر فرد پر يہ

 قيد لگا دی ہے کہ مددکے ہاتھ صرف نيکی اور تقویٰ کے کاموں

 ميں اٹھنے چاہئيں ۔اگر کوئی شخص اثم اور عدوان کو پھيلانے

 کی سعی ميں مصروف ہوتا ہے تو اُسے يادرکھنا چاہيے کہ

اللہ تعالٰي کا عذاب بہت سخت ہے۔

رائے يا ووٹ ايک مسلمان کے پاس اللہ تعالٰی کی طرف سے

دی گئی ايک مقدس امانت ہے ۔اس کا صحيح استعمال

" تعاون علی البّر والتّقویٰ " ميں شامل ہے اور اس کا غلط استعمال

"تعاون علی الا ثم " کے ضمن ميں آتا ہے ۔

اگر کوئی شخص اپنے حق رائے کو کسی باطل نظام کی تائيد ميں

 استعمال کرتاہے تو وہ " اِنّ َ اللہَ شَدِ يْدُ الْعِقَابِ ہ "

کے زمرے ميں آتا ہے ۔ 

ياد رہے کہ اسلام کے مقابلہ ميں ہر اختراعی نظام باطل ہے

خواہ وہ جمہوريت ہو يا سوشلزم،کميو نزم ہو يا لا دينيت

۔زندگی کے کسیِ شعبہ ميں اسلام کسِی پيوند کا محتاج نہيں

 بلکہ اگر کوئی شخص جمہوريت يا سوشلزم کا پيوند لگاتا ہے

 تو حقيقت ميں وہ اپنے باطل نظريات پر اسلام کا ليبل لگا کر

 مسلمانوں کی آنکھوں پر ہاتھ رکھتا ہے ۔سور کی گردن پر اگر

 بسم اللہِ اللہ اکبر کہہ کر چھُری پھير دی جائے تو وہ کبھی

 حلال نہيں ہوتا ۔

غيبت سے بچنا

حضرت ابوہريرہ رضی اللہ عنہ حضور سرکار دوعالم صلی

 اللہ عليہ وسلم سے حديث نقل کرتے ہيں ۔آپ صلی اللہ عليہ وسلم

 نے فر مايا:۔ 

"کيا تم جانتے ہو غيبت کيا ہے "۔لوگوں نے کہا کہ "اللہ اور

 رسول صلی اللہ عليہ وسلم بہتر جانتے ہيں "۔آپ صلی اللہ

عليہ وسلم نے فرمايا ": تمہا را اپنے بھائی کو اس طرح

ياد کرنا جو اُسے ناگوار گذرے "۔آپ صلی اللہ عليہ وسلم سے

 کہا گيا کہ " اگر وہ بات اُس میں موجود ہو تو آپ صلی اللہ عليہ

 وسلم نے جواب ديا ۔اگر وہ اُس ميں موجود ہو تو تم نےغيبت

کی ۔اگر نہيں تو تم نے بہتان باندھا " ۔

حديثِ مذ کورہ کو ذہن ميں رکھتے ہوئے غيبت کی تعريف يوں

 کی جا سکتی ہے کہ کسِی مسلمان کی غير حاضری ميں اُس

 کی کوئی ايسی بات کرنا جو اُسے ناگوار گذرے وہ غيبت کہلاتی

 ہے ۔وہ بُرائی جو بيان کی گئی ہو برابر ہے کہ اُس ميں

 موجود ہو يا نہ ہو ۔ 

قرآن مجيد نے غيبت کی مذمت کی اور اس سے بچنے کو

 تقویٰ کا تقاضا  قرار ديا :۔ 

وَلاَ يَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضاً ط اَ يُحِبُّ اَ حَدُ کُمْ اَنْ يَّاْ کُلَ لَحْمَ اَ خِيْہِ مَيْتاً

 فَکَرِ ھْتُمُوْ ہُ ط وَ اتَّقُوْا اللہ ط اِنَّ اللہَ تَوَّابُ رَّحِيْمُ ہ  ( الحجرات : ١٢ )

" تم ميں سے کوئی ايک دوسرے کی غيبت نہ کرے ۔کيا تم

 ميں سے کوئی ايک يہ پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مَرے

 ہوئے بھائی کا گوشت کھائے ۔يقيناً تمہيں يہ نا پسند ہے

 ۔ڈرو اللہ سے ۔اللہ تعالٰی تو بہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے

 والا ہے "۔

حضور صلی اللہ عليہ وسلم نے عملی طور پر بھی غيبت

 کی مذمت ايک دفعہ اسی صورت ميں کی ۔جب کہ ماعزبن

 مالک اسلمی کو زنا کے جُرم ميں رجم کی سزا دی گئی، تو

دو صحابيوں نے ان پر تنقيد کی ۔حضور صلی اللہ عليہ وسلم

 نے سُن ليا ۔کچھ دُور راستے ميں آپ صلی اللہ عليہ وسلم

 کی نظر ايک مردہ گدھے پر پڑی ۔آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے

ان صحابيوں کو بلايا اور فرمايا کہ اس کو کھانا شروع کرو ۔

انہوں نے جواب ديا " : اسے کون کھائے "۔آپ نے ان

 سے کہا کہ ابھی جوتم اپنے مُردہ بھائی پر حرف زنی کر رہے

 تھے ۔وہ اس کے کھانے سے زيادہ بُری تھی ۔

بدکاری سے اجتناب

بيماريوں کے جراثيم کو مارنا عين مصلحت ہوتا ہے ۔قومِ لوط کی

 اخلاقی پستی جب حد کو پہنچ گئی تو اللہ تعالٰی نے اس کو

 صفحہ ہستی سے مٹا دينا ہی مناسب سمجھا ۔حضر ت لوط

عليہ السّلام کے گھر فرشتوں کو نہايت خوبصورت لڑکوں کی

 صورت ميں بھيجا گيا ۔قومِ لوط خوشياں مناتی ہوئی آئی ۔اور

 حضرت لوط عليہ السّلام کے گھر کو گھير ليا ۔وہ کيا جانتے

 تھے کہ خوبصورتی کے روپ ميں ان کی تباہی کا سامان مہّياکيا

 گيا ہے ۔کتنی ہی بد نصيب قوم تھی کہ اپنی بربادی پر قہقہے

 لگا کر وقت کے نبی سے قيل و قال کر رہی تھی ۔خُدا  کی

 کارسازياں بھی عجيب ہيں ۔چاہے تو يوسف عليہ السّلام کو

کنوئيں ميں پھينک کر ۔گھر سے بے گھر کرکے ۔بازار مصر

 ميں بيچ کر زنداں کی سختياں دے کر اس کے عروج کے

 زينے طے کروائے،اور چاہے تو قوم ِ لوط کے سامنے

حسن رچا کر ان سے قہقہے لگوا کر جہنمّ واصل کردے ۔

جب لوط عليہ السّلام کی قوم نے آپ سے مطالبہ کيا کہ وہ

ان لڑکوں کو ان کے حوالے کر ديں ۔تو لوط عليہ السّلام نے

 بڑے مؤ ثر انداز ميں قوم کو تقویٰ کی تلقين کی ۔ فرمايا :۔

قَا لَ انَّ ھٰوُ َلٓ ٕ ضَيْفِیْ فَلاَ تَفْضَعُوْن ِ ہ وَ اتَّقُوا اللہَ وَلاَ تُخْزُ وْن ِ

ہ  ( الحجر : ٦٩،٦٨ )

"لوط ( عليہ السّلام ) نے فرمايا ۔بے شک يہ ميرے مہمان ہيں

 ۔پس تم ميری فضيحت نہ کرو ۔اللہ سے ڈرو اور مجھے

 رسوا نہ کرو "۔ 

جب حضر ت لوط عليہ السّلام کی قوم نے اپنے نبی کی دعوت

 کو نہ سُنا ،تو وہی لڑکے اُن کے عذاب کا باعث بنے ،اور

قومِ لوط کو ايک چنگھاڑنے لے ليا ۔اس طرح عذابِ الٰہی کا وعدہ پورا ہوا ۔

قومِ لوط کو عذاب ميں گرفتار کرنے کی وجہ يہی تھی کہ وہ

 بدکاری اور بد فعلی کے اَڈّے جما کر فحاشی ،عريانيت،زنا کاری

اور لواطّت کا درس ديتے تھے ۔ان کے اس قومی نوعّيت کے

 جرم پر رب العزّت نے انہيں زمين ميں دھنسا ديا ۔

ہلاکتِ قومِ لوط سے ہميں عبرت حاصل کرنی چاہيے اور بدکاری

 اور اس کے مقدمات سے مکمل اجتناب برتنا چاہيے ۔

اساسِ عمل

اعمال اور مختلف افعال کا حسن انسان کے باطنی ارادے اور

 حسنِ نيّت کا مرہونِ منّت ہوتا ہے ۔بظاہر کوئی کام کتنا ہی حسين

 اوردل کش کيوں نہ ہو،جب تک ارادہ اور نيّت صحيح اور

 درست نہ ہو وہ کام نامقبول ہوگا ۔اس اعتبار سے تمام نيکيوں

 اور سارے امور کی بنياد چونکہ حسنِ نيّت اور خلوص پر

 ہے ۔اس لئے قرآنِ حکيم اسے "تقویٰ " قرار دے کر سارے

 اعمال کی اساس قرار ديتا ہے اور ہر وہ کام جس کی بنياد

"تقویٰ " پر نہ ہو اسے قابلِ مذمت سمجھتا ہے ۔ان امور کو

 مضبوط اور مستحکم کرنے کاحکم صادر فرماتا ہے

۔"جس کی بنياد تقویٰ پر ہو "۔

ہمارے اس مؤ قف کو مسجدِ ضرار کا واقعہ قوت ديتا ہے

۔ارشادِ ربّ ِذوالجلال ہے :۔

اَفَمَنْ اَسَّسَ بُنْيَانَہ،عَلٰی تَقوْیٰ مِنَ اللہِ وَرِضْوَ انٍ خَيْرُ، اَمْ مَّنْ

 اَسَّسَ بُنْيَانَہ،عَلٰی شَفَا جُرُفٍ ھَارٍ ۔  (التوبہ : ١٠٩

" کيا وہ شخص جس نے اپنی عمارت کی بنياد تقویٰ اور

 اللہ کی رضا پر رکھی وہ اچھا ہے يا وہ شخص جس نے

اپنی عمارت کی بنياد گِر جانے والی کھائی کے کنارے رکھی "۔ 

اور اس مسجد کو عبادت کے لئے حقدار قرار ديا جس کی

 بنياد تقویٰ پر ہو ۔ 

لَمَسْجدُ، اُسِّسَ  عَلیَ التَّقْویٰ مِنْ اَوَّلِ يَوْ مٍ اَحَقّ ُ اَنْ تَقُوْمَ فِيْہ

ِ ط ۔  ( التوبہ : ١٠٨ )

"وہ مسجد جس کی بنياد پہلے ہی دن سے تقویٰ پر رکھی گئی

 وہی مستحق ہے کہ آپ اس ميں جائيں

 "۔اسی طرح سارے امور کی جان اللہ تعالٰی نے تقویٰ قرار ديا

۔سفرِ زادِراہ کا مسئلہ ہو تو ارشادِ باری تعالٰی ہے :۔ 

وَ تُزَ وَّ دُوْا فَِانَّ خَيرَ الزّادِ التُّقْویٰ ۔

(سفرميں )زادِ راہ لو اور سب سے اچھا تو شہ "تقویٰ " ہے 

جسم کی زيب و زينت کی بات ہو تو پھر "تقویٰ " ہی ملحوظِ نظر

 و عمل رکھنے کی تلقين فرمائی ۔ 

 وَلِبَاسُ التَّقْویٰ ذَالِکَ خَيْرُ، ۔  ( الاعراف : ٢٦ ) 

اور تقویٰ کا لباس سب سے بہتر ہے ۔

عفو ودرگزر

خداوند کريم نے عفو و درگزر کو " تقویٰ " کے نہايت ہی قريب

 قرار ديا ۔ 

وَ اَنْ تَعْفُوْ آ َ اَقْرَبُ لِلتَّقْویٰ ۔  ( بقرہ : ٢٣٧ )

اگر تم معاف کردو تو يہ " تقویٰ " سے قريب تر ہے ۔ 

ايک اور آيت ميں قصور کرنے والوں کو معاف کر دينے

 کااشارہ اس طرح فرمايا :۔

وَ لْيَعْفُوْ ا وَ لْيَصْفَحُوْ اط اَلاَ تُحِبُّوْ نَ اَنْ يَّغْفِرً اللہُ لَکُمْ

وَ اللہُ غَفُوْرُ، رَّ حِيْمُ، ہ  ( النور : ٢٢ )

" چاہے کہ وہ معاف کر ديں اور درگذر کريں ۔کيا تم يہ پسند

 نہيں کرتے کہ خدا تم کو معاف کر دے ۔اور اللہ تعالٰی معاف

 کرنے والا اور مہربان ہے " ۔ 

غصّہ اور غضب کے وقت ضبط و سکون کے حاملين اور

 معاف کر دينے والوں کے بارے ميں اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمايا :۔

وَ اِذَ امَا غَضِبْوُ اھُمْ يَغْفِرُ وُ نَ  ہ  ( شوریٰ : ٣٧ )

" اور جس وقت غصّہ آئے تو وہ معاف کرتے ہيں "۔

وہ لوگ جو عفوو درگزر کو اپنا شعار بناتے ہيں اللہ تعالٰی نے

 سورۃ آل عمران آيت ١ ميں ان کی مغفرت اور ان کے لئے

وسيع جنّت کا وعدہ فرمايا ہے ۔

سورۃ شوریٰ ميں صبر اور معاف کر دينے کی صفت کو بڑی

 اہميّت کی بات قرار ديا گيا ۔

وَ لَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ  اِنَّ ذَالِکَ لَمِنْ عَزِْم ا ْلاُ مُوْ رِ ۔  ( شوریٰ : ٤٣ )

" جس نے صبرکيا اور معاف کيا تو بڑی ہمّت کی بات ہے " ۔

عفوودرگزر کی فضيلت ميں ايک بار رسول اللہ صلی اللہ عليہ

 وسلم نے ارشاد فرمايا :۔

و ما زاد اللہ رجلاً يفوٍ الا عزّا ۔

" درگزر کرنے والے کی اللہ تعالٰي عزت بڑھا ديتا ہے "۔

اللہ تعالٰی نے قرآنِ حکيم ميں محسنين کی جن صفات کے ساتھ

تعريف کی ان ميں معاف اور درگزر کرنے کی صفت کو بھی گِنا ۔

وَ اْ لکَا ظِمِيْنَ ا لْغَيْظَ وَ ا لَعَا نِيْنَ عَنِ النَّاسِ ط وَ اللہُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ

 ہ  ( آل عمران : ١٣٤ )

" غصّے کو پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے

،اور اللہ نيکی کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے "۔

ترمذی شريف کی حديث ہے کہ ايک شخص نے رسول اللہ

صلی اللہ عليہ وسلم سے آکر کہا ": يا رسول اللہ صلی اللہ

عليہ وسلم ! ميں اپنے خادم کا قصور کتنا معاف کروں

"۔ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمايا

 ": ہر روز ستر بار "۔

حضرت ابو سعود صحابی رضی اللہ عنہ کا بيان ہے ،وہ

 فرماتے ہيں کہ " ايک دفعہ ميں اپنے غلام کو پيٹ رہا تھا

،پيچھے سے آواز آئی "جان لو،جان لو "۔ديکھا تو حضور

 نبی کريم صلی اللہ عليہ وسلم ارشاد فرمارہے تھے

":ابو سعود ! جتنا تم خادم پر قابو رکھتے ہو اس سے زيادہ

 تم پر خدا قابو رکھتا ہے "۔ابوسعود رضی اللہ عنہ فرماتے

 ہيں کہ اس بات کا مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ پھر ميں نے

کسی خادم کو نہ مارا "۔

سچائي

قرآنِ حکيم نے صدق اور سچائی کو بھی متّقی کی صفات ميں گِنا ۔

وَ الَّذِ يْ جَآ ٕ بِالّصِدْق ِ وَ صَدَّ قَ بِہ اُوْ  ٓلٰيِکَ ھُمُ الْمُتَّقُونَ ہ  ( الزمر : ٣٣ )

" جو سچ لے کر آيا اور اس کو سچّا بھی جانا سو وہی پر ہيز گار ہے "۔

صدق اور سچائی کو جہاں خدائی صفت ہونے کا شرف حاصل

 ہے وہاں انسانی اخلاق کے ميدان ميں بھی اسے سب سے

 اعلٰی اور اونچا مقام حاصل ہے ۔ صدق چونکہ دل اور زبان

 کی ہم آہنگی کا نام ہے ۔اس لئے اگر سچائی اور صداقت

حاصل ہو اجائے تو نيکيوں کا حصول آسان ہو جاتا ہے ۔

اعمال اور اخلاق کی بنياد سچائی ہے ۔اسی لئے اسلام نے

صرف "صدق " کے اختيار کرنے کا حکم ہی نہيں ديا بلکہ

 ہميشہ سچّوں کے ساتھ رہنے کا مسلمانوں کو پابند بناتے

 ہوئے اس کو تقویٰ کا ايک تقاضا قرار ديا ہے ۔

يٰآ َيُّھَا الَّذِ يْنَ اٰمَنُوااتَّقُوااللہَ وَ کُونُوْا مَعَ اْلصّٰدِقيْنَ ہ  ( التوبہ : ١١٩ )

" اے اہل ايمان تقویٰ اختيار کرو اورسچّوں کے ساتھ ہو جاؤ "۔

قيامت کے دن بھی صدق ہی کام آئے گا ۔

ھٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِ قِيْنَ صِدْ قُھُمْ ہ  ( المائدہ : ١١٩ )

" يہ ايسا دن ہے کہ سچوں کو ان کا سچ ہی کام دے گا "۔

اماِم غزالی رحمتہ اللہ نے احياء العلوم ميں " صدق " کی چھ اقسام

 بيان کی ہيں :۔

  1. زبان کی سچائی

  2. نيّت کی سچائی

  3. عزم کی سچائی

  4. عزم کو تکميل تک پہنچانے کی سچائی

  5. عمل ميں سچائی

  6. امورِ دينيہ ميں سچائی

صدق کی برکت کے بارے ميں حضور صلی اللہ عليہ وسلم

 کی وہ روايت ملاحظہ ہو جس ميں ايک شخص نے رسول اللہ

 صلی اللہ عليہ وسلم سے عرض کي تھی کہ مجھ ميں

 چار بُری خصلتيں ہيں ،يارسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم 

 ! ايک کو چھوڑ دينے کی تلقين فرمائيں ۔تو آپ صلی اللہ عليہ

 وسلم نے فرمايا تھا ": جھوٹ بولنا چھوڑدو "۔تو اللہ تعالٰی

نے ترکِ جھوٹ اور سچائی اختيار کرنے کی وجہ سے اسے

 ساری بُری خصلتوں سے محفوظ کرديا۔  اللہ تعالٰی سچ اختيار

کرنے کی تو فيق عطا فرمائے ۔

اِحسان

تقویٰ کا تعلق چونکہ شخصی اور اجتماعی حسن اور جمال

 کے ساتھ ہے ۔ظاہری اور باطنی ہر قسم کی خوبياں تقویٰ ميں

 داخل ہيں ۔يہی وجہ ہے کہ قرآن حکيم ان تمام اوصاف شخصی

 واجتماعی اور افعالِ خير کے لئے ايک جامع اصطلاح  "احسان

 " استعمال کرکے اسے تقویٰ کا تقاضا قرار ديتا ہے ۔ 

وَاِنْ تُحْسِنُوْا وَ تَتَّقُوْا ِفانَّ اللہَ  کاَنَ بِمَا تَعْمِلُوْنَ خَبِيْراً ہ  ( النسا ٕ : ١٢٨ )

" اگر تم نيکی کرو اور تقویٰ اختيار کرو تو اللہ تعالٰی تمہارے

 اعمال سے خبردار ہے "۔

ہر قسم کی نيکی خواہ وہ بصورتِ فعل وعمل ہو يا تصّورو

عقيدۃ احسان کے مفہوم ميں داخل ہے ليکن قرآنِ حکيم ميں

 شکر،مصيبت سے نجات دلانا،حقوق کی ادائيگی،صدقات اور قرضِ

 حسنہ وغيرہ کو احسان قرار ديا گيا ۔رسول اللہ صلی اللہ عليہ

 وسلم نے رحم وکرم،مہمان نوازی،تنگ دست کو مُہلت ،گردنوں

کے چھڑانے،صلہ رحمی،اچھی گفتگو،ضعيف کی مدد،بھوکے

کو کھلانا،پياسے کو پانی پلانااورايذارسانی سےاجتناب کرنے

 کو" احسان " قرار ديا ۔

اللہ تعالٰی نے محسن کے بارے ميں ارشاد فرمايا:۔

واللہُ يُحِبُّ اْلمُحْسِنِيْنَ ہ  ( آلِ عمران : ١٣٤ )

" اللہ تعالٰی نيکی کرنے والوں سے محبّت کرتا ہے "۔

ايک مرتبہ حضرت جبرائيل امين نے رسولِ کريم صلی اللہ عليہ

 وسلم سے سوال کيا ۔

اخبر نی عن الاحسان ۔ 

" يارسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ! احسان کے بارے ميں

 ہميں خبردار کيجئے "۔ 

حضور صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمايا :۔

ان تعبد اللہ کانک تراہ، فان لم تکن تراہ فانہ، يراک ۔ 

 ( مشکوٰ ة : کتاب الايمان )

" تو اللہ کی عبادت ايسے کرے جَيسے کہ تو اُسے ديکھ

رہا ہے،يا اگر تو اسے نہيں بھی ديکھ رہا تو وہ تجھے ديکھ رہا ہے "۔

يہاں پر محدثين نے احسان سے مراد " اخلاص "

 ليا،چونکہ تصوف کی حقيقت بھی يہی " اخلاص " ہے

 جو بدرجہ اتم سالک کو حاصل ہو جاتی ہے ۔اس اعتبار

 سے بعض متصوفين نے تصّوف کا ماخذ احسان قرار ديا۔

جس کو اگر اسلام سے علٰيحدہ قرار نہ بھی ديا جاسکتا ہو

،تاہم پھر بھی کم ازکم مسلمان کی عرفانی زندگی پر ضرور دلالت ہے ۔

صبر

سفينہ حيات کو موت کے ساحل تک پہنچنےکے لئے متعدد

آبناؤں سے گزرنا پڑتا ہے،کبھی تو حسين تمنائيں اور فرحت

 بخش اميديں اس کا استقبال کرتی ہيں اور کبھی غم وآلام اور

 کرب ومصائب کے وجود پاش تھپيڑے اس کو اپنے نرغے

 ميں لے ليتے ہيں ۔حالات کے بيکراں سمندر ميں کبھی توطرب

ونشاط کی موجيں اُسے بلنديوں پر اٹھا ليتی ہيں اور کبھی پر

 يشانی اور اضطراب کے وحشت ناک بھنور ميں جا پھينکتی ہيں ۔

حالات کي نوعا نوعی اور ہيجان انگيز انقلابات کے تنوع

واختلافات پر کيا کسی شخص کودل پر ہاتھ رکھ کر بيٹھ جانا

 چاہيے۔کيامصائب پرآہ و فغاں اور ماتم و نوحہ کے علاوہ بھی

 کوئی راستہ ہے ۔

ہاں وہ لوگ جنہيں قرطاسِ حيات پر واضح نقوش ثبت کرنے

 ہوں۔ان کے لئے يہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت مقاصدِ

 زندگی کی تکميل کی خاطر جان کادی،ديدہ ريزی اور محبت

 ومشقت کے ساتھ ساتھ نتائج کے انتظار ميں صبروثبات اور

 استقامت واستقلال کا دامن تھامے رکھيں ۔

تقویٰ جومسلمان کے اس کردار کانام ہے جس سے اس

 کی شخصيّت ميں حسن،توازن،سنجيدگی ،متانت اور

 وقار پيدا ہوتا ہے ۔مصائب وآلام کے وقت صبر اور

مصابرہ بھی اس کا ايک تقاضا ہے ۔

يٰآ َ يُّھَاالَّذِ يْنَ اٰمنَوْا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَرَابِطُوْا قف

 وَ اتَّقُوااللہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ہ  ( آلِ عمران : ٢٠٠ )

" اے ايمان والو ! صبرکرواور ثابت قدم رہو،خدمت حق کے

 لئے آمادہ رہو اور تقویٰ اختيار کرو تاکہ تمہاری فلاح ہو "۔

صبر کا معنٰی کياہے ؟ علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہيں ۔

تنگی اور شّدت کے وقت روکنے کو صبر کہتے ہيں ۔

عرب کہتے ہيں " صبرتُ الدّابہ " ميں نے بغير  چارہ کے

 جانور کو روک ليا۔جانشين بنا لينے کے معنوں ميں بھی يہ کلمہ

استعمال ہوتا ہے ۔اصطلاحاً نيک اعمال کرنے اور بُرے

اعمال سے باز رہنے پر نفس کوپابند رکھنا صبر کہلاتا ہے۔

مصابرہ کا مفہوم صبر سے تھوڑا مختلف واقع ہوا ہے ۔

عام طور پراس کامطلب دشمن کےمقا بلہ ميں پامردي دکھانا

 ليا جاتا ہے ۔باطل کے خلاف ايک دوسرے سے بڑھ کر کمر

 بستگی کا مظاہرہ کرنا بھی مصابرہ کے مفہوم ميں داخل

 ہو سکتا ہے ۔

تيّاریٓ جہاد

مسلمان خالقِ کائنات کی طرف سے وہ انقلابی جماعت ہے

جو ہر دم خدمتِ انسا نيّت کے لئے کمر بستہ رہتی ہے

 ۔جہاں بھی اورجس وقت بھی کوئی ابليس اور سرکش قوّت

 " فساد " کے لئے اپنا دامِ ہمرنگ زمين بچھاتی ہے ۔

ان کی خدائی صفوں ميں حرکت آ جاتی ہے ۔ايک ايک

مسلمان لذّتِ حيات سے بے آشنا ہو کر موت سے پيار

 کرنے لگ جاتا ہے ۔ 

ظاہر ہے باطل اور طاغوت کو درسِ عبرت دينے کے لئے

 طاقت اور قوت کی ضرورت پڑتی ہے ۔يہی وجہ ہے کہ قرآن

 حکيم جہاں مسلمانوں کو فلاحِ انسانيّت کے لئے ديگر صلاحيتيں

 بروئے کار لانے کا پابند کر تا ہے ،وہاں " اعدولھم ما استطعتم ۃ

 کے تحت دشمن کے مقابلہ ميں ہر طرح کی مادی تيّاری کا

 حکم ديتا ہے ۔ 

" تقوی " جو کردارِ مومن کا دوسرا نام ہے ۔اپنے حامل ميں

 يہ فکر اور سوچ بھی اجاگر کرتا ہے کہ غلبہ اسلام کے

 لئے مسلمان کو ہر دم دشمن کے مقا بلہ ميں تيّار اور کمر بستہ

 رہنا چاہيئے "۔

ارشادِ ربّ زوالجلال ہے ۔

وَرَابِطُوْا قف وَاتَّقُوااللہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ہ  ( آلِ عمران : ٢٠٠ )

" خدمت حق کے لئے آمادہ اور تيّاررہو اور تقویٰ اختيار کرو

 تا کہ تمہاری فلاح ہو " ۔

ربط اور رباط کا لغوی معنیٰ تو گھوڑے کو حفاظت کے

 لئے کسی جگہ مضبوطی سے باندھ دينا ہو تا ہے اور اس سے

 " رباط الجيش " کا لفظ استعمال ہوتا ہے اصلاحی طور پر اپنے

 آپ کو غلبہ دين کے لئے آمادہ ،عبادت کا پابنداور دشمن کے

 مقابلے ميں کمر بستہ رہنے کو رباط کہتے ہيں ۔

صاحِب مفردات نے " رباط " کے مفہوم کے سلسلے ميں

رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا ايک قول نقل کرتے

 ہوئے يہ بھی لکھا ہے کہ ايک نماز کے بعد دوسری

 نماز کے لئےتيار رہنا بھی " رباط " ہے ۔ " رباط " کااعلٰی مقام

 اورمرتبہ يہی ہے کہ انسان " جہاد فی سبيل اللہ " کے

لئے ہروقت تيار رہے ۔

حرمتِ سُود

معاشی بدحالی معاشرتی بيمارياں پيدا کرتی ہے ۔غربت اور

افلاس،صبر اور استقامت کی دولت کے بغير اخلاقی بيماريوں

 کی بنياد بن جاتے ہيں ۔اخلاقی اقدار کے مٹ جانے کی وجہ

 سے تعمير وترقی کے ميدان ميں جمود طاری ہو جاتا ہے

۔اسلام ايک مکمل معاشی نظام کی حثييت سے ايسی تمام بنيادی

 کمزوريوں کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے ۔جن سے جسد ملّت کی

 صحت بگڑ جانے کا انديشہ ہو۔

سود جس کے لئے عربی زبان ميں لفظ " ربا " استعمال ہوتا

ہے ۔اسلام کی نظر ميں ايسی مذموم حرکت اور قبيح بيماری

 ہے جس کا ارتکاب کرنے والوں کے حق ميں قرآنِ حکيم

 کی يہ وعيد ہے ۔

وَ اتَّقُواالنَّارَ الَّتِیْ اُعِدَّ تْ لِلْکٰفِرِ يْنَ ہ  ( آلِ عمران : ١٣١ )

" اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لئے تيار کی گئی ہے " ۔

امام ابوحنيفہ رحمتہ اللہ عليہ اس آيت کے بارے ميں فرمايا

 کرتے تھے کہ قرآن مجيد کی سب سے زيادہ ڈرانے والی آيت

يہی ہے ۔ اس لئے کہ اس آيت ميں آگ کی وعيد ان لوگوں

 کے لئے جو کافر تو نہيں ليکن اللہ کی حرام ٹھہرائی ہوئی

 چيزيں حلال جانتے ہيں ۔

احکاِم الٰہی سے بے رغبتی اور بے اعتنائی برتنا چونکہ

" تقویٰ " کے منافی ہے اس لئے اللہ تبارک تعالٰی شيد ائيانِ

 اسلام کے لئے ضروری قرار ديتا ہے کہ وہ سود جسيی قبيح

 حرکت سے بچيں ۔فرمانِ خداوندی ہے :۔

يٰٓ َيُّھَا الَّذِ يْنَ اٰمَنُوْالاَ تَاْ کُلُوْاالّرِ بٰوااَضْعَافاً مُّضٰعَفَتہً

وَاتَّق&#