سیدنا محمد رسول اللہ
صلّی اللہ علیہ
وسلم
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سن ایک عام الفیل (570ء)
میں ربیع الاول کے مبارک مہینےمیں بعثت سے چالیس سال پہلے مکہ میں
پیدا ہوئے۔
۔ آپ صلی اللہ علیہ
و آلہ و سلم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف روایات
ہیں۔ اہل سنت کے نزدیک زیادہ روایات 12 ربیع الاول
کی ہیں اگرچہ کچھ علماء 9 ربیع الاول کو درست مانتے ہیں۔ ان
کی پیدائش پر معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم آسمانی
کتابوں میں تھا۔ مثلاً آتشکدہ فارس جوہزار سال سے بھی پہلے روشن
تھا بجھ گیا۔ مشکوٰۃ کی ایک حدیث ہے جس
کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ "
میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے
درمیان تھے۔ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا،
عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ
کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور
ان سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔"
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد محترم
حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب آپ کی ولادت سے چھ ماہ قبل وفات پا چکے تھے اور آپ
کی پرورش آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے کی۔ اس دوران آپ صلی
اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کچھ مدت ایک بدوی قبیلہ کے ساتھ
بسر کی جیسا عرب کا رواج تھا۔ اس کا مقصد بچوں کو فصیح عربی
زبان سکھانا اور کھلی آب و ہوا میں صحت مند طریقے سے پرورش کرنا
تھا۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حضرت حلیمہ
بنت عبداللہ اور حضرت ثویبہ(درست تلفظ: ثُوَیبہ) نے دودھ پلایا۔
چھ سال کی عمر میں آپ کی والدہ اور آٹھ سال کی عمر میں
آپ کے دادا بھی وفات پا گئے۔ اس کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ
داریاں آپ کے چچا اور بنو ہاشم کے سردار حضرت ابو طالب نے سرانجام دیں۔
تقریباً 25 سال کی عمر میں
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت
خدیجہؓ کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا ۔ اس سفر سے واپسی
پر حضرت خدیجہؓ کے غلام میسرہ نے ان کو حضور صلی اللہ علیہ
و آلہ و سلم کی ایمانداری اور اخلاق کی کچھ باتیں بتائیں۔
آپؓ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اچھے اخلاق اور ایمانداری
سے بہت متاثر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو شادی
کا پیغام دیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت
ابوطالب کے مشورے سے قبول کر لیا۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غوروفکر کےلیے مکہ سے باہر
ایک غار حرا میں تشریف لے جاتے تھےحضرت جبرائیل علیہ السلام
پہلی وحی لے کر تشریف لائے۔ اس وقت سورۃ العلق کی
آیات نازل ہوئیں۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و
سلم کی عمر تقریباً چالیس سال تھی۔ شروع ہی میں
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ ، آپؐ کے چچا زاد حضرت علی
کرم اللہ وجہہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریبی دوست
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ، اور آپؐ کے آزاد کردہ
غلام اور صحابی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ
علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لے آئے۔ مکہ کے باہر سے پہلے شخص حضرت
ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ تھے جو ایمان لائے۔
619ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیوی
حضرت خدیجہؓ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیارے
چچا حضرت ابوطالب انتقال فرما گئے۔ اسی لیے حضور صلی اللہ
علیہ و آلہ و سلم نے اس سال کو عام الحزن یعنی دکھ کا سال قرار دیا۔
620ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم معراج پر تشریف لے
گئے۔ اس سفر کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ سے مسجد
اقصیٰ گئے اور وہاں تمام انبیائے کرامؑ کی نماز کی
امامت فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آسمانوں میں
اللہ تعالی سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے۔ وہاں اللہ تعالی
نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جنت اور دوزخ دکھایا۔
وہاں آپؐ کی ملاقات مختلف انبیائے کرامؑ سے بھی ہوئی۔
اسی سفر میں نماز بھی فرض ہوئی۔
622ء تک مسلمانوں کےلئے مکہ میں رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔ کئی
دفعہ مسلمانوں اور خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تکالیف
دیں گئیں۔ اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے
مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ آپ صلی
اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ کے حکم سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ
عنہ کے ساتھ ستمبر 622ء میں مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور مدینہ
میں اپنی جگہ حضرت علی علیہ السلام کو امانتوں کی واپسی
کے لیے چھوڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مدینہ
پہنچنے پر ان کا انصار نے شاندار استقبال کیا اور اپنے تمام وسائل پیش
کر دیے۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
کی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر
کے سامنے رکی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے گھر قیام
فرمایا۔ جس جگہ اونٹنی رکی تھی اسے حضور صلی اللہ
علیہ و آلہ و سلم نے قیمتاً خرید کر ایک مسجد کی تعمیر
شروع کی جو مسجد نبوی کہلائی۔ اس تعمیر میں انہوں
نے خود بھی حصہ لیا۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ
و آلہ و سلم نے مسلمانوں کے درمیان عقدِ مؤاخات کیا یعنی مسلمانوں
کو اس طرح بھائی بنایا کہ انصار میں سے ایک کو مہاجرین
میں سے ایک کا بھائی بنایا۔ خود حضرت علی علیہ
السلام کو اپنا بھائی قرار دیا۔ انصار نے مہاجرین کی
مثالی مدد کی۔ ہجرت کے ساتھ ہی اسلامی کیلنڈر
کا آغاز بھی ہوا ۔ اسی دور میں مسلمانوں کو کعبہ کی
طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، اس سے پہلے مسلمان بیت المقدس کی
طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے جو کہ یہودیوں کا بھی قبلہ تھا۔
میثاق مدینہ کو بجا طور پر تاریخ انسانی کا پہلا تحریری
دستور قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ 730 الفاظ پر مشتمل ایک جامع
دستور ہے جو ریاست مدینہ کا آئین تھا۔ 622ء میں ہونے
والے اس معاہدے کی 53دفعات تھیں۔
مدینہ میں ایک ریاست
قائم کرنے کے بعد مسلمانوں کو اپنے دفاع کی کئی جنگیں لڑنا پڑیں۔
ان میں سے جن میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شریک
تھے انہیں غزوہ کہتے ہیں اور جن میں وہ شریک نہیں تھے
انہیں سریہ کہا جاتا ہے۔ اہم غزوات یا سریات درج ذیل
ہیں۔
• غزوہ بدر : 17 رمضان 2ھ
(17 مارچ 624ء) کو بدر کے مقام پر مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان
غزوہ بدر ہوئی۔ مسلمانوں کی تعداد 313 جبکہ کفار مکہ کی تعداد
1300 تھی۔ مسلمانوں کو جنگ میں فتح ہوئی۔ 70 مشرکینِ
مکہ مارے گئے جن میں سے 36 حضرت علی علیہ السلام کی تلوار
سے ہلاک ہوئے۔ مشرکین 70 جنگی قیدیوں کو چھوڑ کر بھاگ
گئے۔ مسلمان شہداء کی تعداد 14 تھی۔
• غزوہ احد :7 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں
ابوسفیان کفار کے 3000 لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ احد
کے پہاڑ کے دامن میں ہونے والی یہ جنگ غزوہ احد کہلائی ۔
ابتدا میں مسلمانوں نے کفار کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ٹیلے
پر موجود لوگوں نے بھی یہ سوچتے ہوئے کہ فتح ہو گئی ہے کفار کا پیچھا
کرنا شروع کر دیا یا مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔
خالد بن ولید جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اس بات کا فائدہ اٹھایا
اور مسلمانوں پر پچھلی طرف سے حملہ کر دیا ۔ اس جنگ سے مسلمانوں
کو یہ سبق ملا کہ کسی بھی صورت میں رسول اکرم کے حکم کی
خلاف ورزی نہ کریں۔
• غزوہ خندق (احزاب): شوال۔ ذی القعدہ
5ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی
مگر مسلمانوں نے حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد
ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔
خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ
اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک
ماہ کے محاصرے اور اپنے کئی افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو
کر واپس چلے گئے۔ بعض روایات کے مطابق ایک آندھی نے مشرکین
کے خیمے اکھاڑ پھینکے۔
• غزوہ بنی قریظہ: ذی القعدہ
۔ ذی الحجہ 5ھ (اپریل 627ء) کو یہ جنگ ہوئی۔ مسلمانوں
کو فتح حاصل ہوئی۔
• غزوہ بنی مصطلق: شعبان 6ھ (دسمبر
627ء۔ جنوری 628ء) میں یہ جنگ بنی مصطلق کے ساتھ ہوئی۔
مسلمان فتح یاب ہوئے۔
• غزوہ خیبر: محرم 7ھ (مئی
628ء) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی
جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔
• جنگِ
موتہ: 5 جمادی الاول 8ھ (اگست ۔ ستمبر 629ء) کو موتہ کے مقام پر یہ
جنگ ہوئی۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شریک
نہیں ہوئے تھے اس لیے اسے غزوہ نہیں کہتے۔
• غزوہ فتح (فتحِ مکہ): رمضان 8ھ (جنوری
630ء) میں مسلمانوں نے مکہ فتح کیا۔ جنگ تقریباً نہ ہونے کے
برابر تھی کیونکہ مسلمانوں کی ہیبت سے مشرکینِ مکہ ڈر
گئے تھے۔ اس کے بعد مکہ کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔
• غزوہ حنین: شوال 8ھ (جنوری
۔ فروری 630ء) میں یہ جنگ ہوئی۔ پہلے مسلمانوں
کو شکست ہو رہی تھی مگر بعد میں وہ فتح میں بدل گئی۔
• غزوہ تبوک: رجب 9ھ (اکتوبر
630ء) میں یہ افواہ پھیلنے کے بعد کہ بازنطینیوں نے
ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کے محاذ پر رکھی ہے۔اس
لیے مسلمان ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کی طرف تبوک
کے مقام پر چلے گئے۔ وہاں کوئی دشمن فوج نہ پائی اس لیے جنگ
نہ ہو سکی مگر اس علاقے کے کئی قبائل سے معاہدے ہوئے اور جزیہ ملنے
لگا ۔
مدینہ اورمشرکینِ مکہ کے درمیان مارچ 628ء کو ایک معاہدہ ہوا
جسے صلح حدیبیہ کہتے ہیں۔ 628ء (6 ہجری) میں
1400 مسلمانوں کے ہمراہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ
سے مکہ کی طرف عمرہ کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ مگر عرب کے رواج کے خلاف مشرکینِ
مکہ نے حضرت خالد بن ولید (جو بعد میں مسلمان ہو گئے) کی قیادت
میں دو سو مسلح سواروں کے ساتھ مسلمانوں کو حدیبیہ کے مقام پر مکہ
کے باہر ہی روک لیا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ
و سلم کی دانشمندی سے صلح کا معاہدہ ہو گیا۔ اس کی بنیادی
شق یہ تھی کہ دس سال تک جنگ نہیں لڑی جائے گی اور مسلمان
اس سال واپس چلے جائیں گے اور عمرہ کے لیے اگلے سال آئیں گے۔
چنانچہ مسلمان واپس مدینہ آئے اور پھر 629ء میں حج کیا۔
صلح حدیبیہ کے بعد محرم 7ہجری میں حضور صلی اللہ علیہ
و آلہ و سلم نے مختلف حکمرانوں کو خطوط لکھے اور اپنے سفیروں کو ان خطوط کے ساتھ
بھیجا۔ ان خطوط میں اسلام کی دعوت دی گئی۔
ان میں سے ایک خط ترکی کے توپ کاپی نامی عجائب گھر میں
موجود ہے۔ ان حکمرانوں میں فارس کا بادشاہ خسرو پرویز، مشرقی
روم (بازنطین) کا بادشاہ ہرکولیس، حبشہ کا بادشاہ نجاشی، مصر اور
اسکندریہ کا حکمران مقوقس اور یمن کا سردار شامل ہیں۔ پرویز
نے یہ خط پھاڑ دیا تھا ۔ نجاشی نے حضور صلی اللہ علیہ
و آلہ و سلم کی نبوت کی تصدیق کی اور کہا کہ ہمیں انجیل
میں ان کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ مصر اور اسکندریہ
کے حکمران مقوقس نے نرم جواب دیا۔
اگرچہ صلح حدیبیہ کی مدت دس سال طے کی گئی تھی
تاہم یہ صرف دو برس ہی نافذ رہ سکا۔ ایک رات بنو بکر کے کچھ
آدمیوں نے شب خون مارتے ہوئے بنو قزعہ کے کچھ لوگ قتل کر دیئے۔ قریش
نے ہتھیاروں کے ساتھ اپنے اتحادیوں کی مدد کی۔ اس واقعہ
کے بعد نبی اکرم نے قریش کو ایک تین نکاتی پیغام
بھیجا اور کہا کہ ان میں سے کوئی منتخب کر لیں: 1۔ قریش
بنو قزعہ کو خون بہا ادا کرے، 2۔ بنو بکر سے تعلق توڑ لیں، 3۔ صلح
حدیبیہ کو کالعدم قرار دیں۔
قریش نے جواب دیا کہ وہ صرف تیسری شرط تسلیم کریں
گے۔ تاہم جلد ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور ابو
سفیان کو معاہدے کی تجدید کے لئے روانہ کیا گیا لیکن
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی درخواست رد کر
دی۔
630ء میں انہوں نے دس ہزار مجاہدین کے ساتھ مکہ کی طرف پیش
قدمی شروع کر دی۔ مسلمانوں کی ہیبت دیکھ کر بہت
سے مشرکین نے اسلام قبول کر لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
و آلہ و سلم نے عام معافی کا اعلان کیا۔ نبی اکرم صلی
اللہ علیہ و آلہ و سلم فاتح بن کر مکہ میں داخل ہو گئے۔ داخل ہونے
کے بعد سب سے پہلے آپ نے کعبہ میں موجود تمام بت توڑ ڈالے اور شرک و بت پرستی
کے خاتمے کا اعلان کیا۔
حضور
صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی زندگی کا آخری
حج سن 10ہجری میں کیا۔ اسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔
آپ 25 ذی القعدہ 10ہجری (فروری 632ء) کو مدینہ سے روانہ ہوئے۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج آپ کے ساتھ تھیں۔
مدینہ سے 9 کلومیٹر دور ذوالحلیفہ کے مقام پر آپ صلی اللہ
علیہ و آلہ و سلم نے احرام پہنا۔ دس دن بعد آپ صلی اللہ علیہ
و آلہ و سلم مکہ پہنچ گئے۔ حج میں مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ
بیس ہزار سے زیادہ تھی۔ عرفہ کے دن ایک خطبہ دیا
اور اس سے اگلے دن منیٰ میں ایک یادگار خطبہ دیا
جو خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور
ہے۔
حضور ﷺ کے بے شمار معجزات ہیں یہاں
ایمان کی تازگی کے لیے صرف چند کا ذکر کیا جاتا ہے۔
نبی
پاک ﷺ کی بر کت سے پانی کا مسئلہ حل ہو گیا
حضرت براءبن عازب رضی
اللہ عنہ فر ماتے ہیں واقعہ حدیبیہ کے روز ہماری تعداد
چودہ سو تھی۔ہم حدیبیہ کے کنویں سے پانی
نکالتے رہے یہاں تک کہ ہم نے اس پانی کا ایک قطرہ بھی نہ
چھو ڑا۔ سو حضور نبی اکرم ﷺ کنویں کے منڈیر پر آ
بیٹھے اور پانی طلب فر مایا: اس سے کلی فر مائی اور
وہ پانی کنویں میں ڈال دیا۔تھوڑی ہی
دیر بعد ہم اس سے پانی پینے لگے، یہاں تک کہ خوب
سیراب ہوئے او ہمارے سواریوں کے جانور بھی سیراب ہو
گئے۔
صحیح
بخاری:کتاب المناقب: باب علامات النبوة فی الاسلام
نبی
پاک ﷺ کی ذات پاک کی بر کت سے صحا بی کا قرض ادا ہو
گیا
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ میرے والد وفات پا گئے اور ان کے اوپر قرض تھا۔ سو
میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض
کیا: میرے والد نے (وفات کے بعد ) پیچھے قرضہ چھوڑا ہے اور
میرے پاس ( اس کی ادائیگی کے لیے) کچھ بھی
نہیں ما سوائے جو کھجور کے درختوں سے پیدا وار حاصل ہوتی ہے اور
ان سے کئی سال میں بھی قرض ادا نہیں ہو گا۔آپ
ﷺ میرے ساتھ تشریف لے چلیں تاکہ قرض خواہ مجھ
پرسختی نہ کریں سو آپ ﷺ (ان کے ساتھ تشریف لے گئے اور ان
کے)کھجوروں کے ڈھیروں میں سے ایک ڈھیر کے گرد پھرے او دعا
کی پھر دوسرے ڈھیر(سے ساتھ بھی ایسا ہی کیا)
اس کے بعد آپ ﷺ ایک ڈھیر پر بیٹھ گئے اور فر مایا:
قرض خواہوں کو ماپ کر دیتے جاﺅ سو سب
قرض خواہوں کا پورا قرض ادا کر دیا گیا اور اتنی ہی
کھجوریں بیچ بھی گئیں جتنی کہ قرض میں
دی تھیں۔
صحیح
بخاری :کتاب المناقب: باب علامات النبوة فی الاسلام، وفی کتاب البیوع:باب
الکیل علی البائع والمعطی،واحمد بن حنبل فی المسند
نبی
پاک ﷺ کی دعا سے ڈوبا سور ج پھر طلوع ہو گیا
حضرت اسماءبنت عمیس
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ پر
وحی نازل ہو رہی تھی اور آپ ﷺ کا سر اقدس حضرت علی
رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا وہ عصر کی نماز نہ پڑھ سکے
یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔حضور نبی اکرم ﷺنے
دعا کی: اے اللہ(عزوجل) ! علی تیری اور تیرے
رسول(ﷺ) کی اطاعت میں تھا اس پر سورج واپس لوٹا دے۔ حضرت
اسماءفر ماتی ہیں: میں نے اسے غروب ہوتے ہوئے بھی
دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ وہ غروب ہونے کے بعد دوبارہ
طلوع ہوا۔
اخرجہ
الطبرانی فی المعجم الکبیر، والھیثمی فی مجمع
الذوائد، والذھبی فی میزان الاعتدال، ابن کثیر فی
البدایة والنھایة،والقا ضی عیاض فی الشفائ،
والسیوطی فی الخصا ئص الکبری، والقر طبی فی
الجامع الاحکام القر آن،رواہ الطبرانی باسانید ، وقال الامام
النووی فی شرح مسلم
حضر ت جابر رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ حضرت ام مالک رضی اللہ عنہ حضو ر نبی اکرم ﷺ
کو ایک چمڑے کے بر تن میں گھی بھیجا کرتی
تھیں، ان کے بیٹے آکر ان سے سالن مانگتے ، ان کے پاس کوئی
چیز نہیں ہوتی تھی،تو جس چمڑے کے بر تن میں وہ حضور
نبی اکرم ﷺ کے لئے گھی بھیجا کر تیں اس کا رخ
کرتیں اس میں سے انہیں گھی مل جاتا، ان کے گھر میں
سالن کا مسئلہ اسی طرح حل ہوتا رہا یہاں تک کہ انہوں نے ایک دن
اس چمڑے کے برتن کو نچوڑ لیا پھر وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی
خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آپ ﷺ نے فر مایا: تم نے چمڑے
کے برتن کو نچوڑ لیا؟ انہوں نے عرض کیا: ہاں یا رسول اللہ
ﷺ !آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم اسے اسی طرح رہنے
دیتیں تو اس سے ہمیشہ (گھی )ملتا رہتا۔
صحیح
مسلم: کتاب الفضائل : باب فی معجزات النبی ﷺ، واحمد بن حنبل
فی المسند،والعسقلانی فی تہذیب، وفی فتح
الباری
حضور
ﷺ کے عطا کیے کھانے میں برکت ہو گئی
حضرت جابر روایت کرتے
ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس
میں حا ضر ہو کر کچھ کھانا طلب کیا۔ آپ ﷺ نے اسے نصف
وسق(ایک سو بیس کلو گرام) جو دے دئیے۔ وہ شخص اس کی
بیوی اور ان دونوں کے مہمان بھی وہی جو کھاتے رہے
یہاں تک کہ ایک دن انہوں نے ان کو ماپ لیا۔ پھر وہ حضور
ﷺ کی خدمت میں آیا تو آپ ﷺ نے فر مایا: اگر
تم اس کو نہ ماپتے تو تم وہ جو کھاتے رہتے اور وہ یونہی (ہمیشہ)
باقی رہتے۔
صحیح
مسلم :کتاب الفضا ئل :باب فی معجزات النبی ﷺ، واحمد بن حنبل
فی المسند
فرشتوں کا
لڑا ئی میں حصہ لینا
حضرت سعد بن ابی وقاص
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ احد کے روز میں نے حضور
نبی اکرم ﷺ کے پاس دو ایسے حضرات کو دیکھا جوآپ ﷺ
کی جانب سے لڑ رہے تھے انہوں نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے بڑی
بہادری سے بر سر پیکار تھے میں انہیں اس سے پہلے
دیکھا تھا نہ بعد میں یعنی جبرائیل و
میکائیل علیہ السلام تھے۔
صحیح
بخاری : کتاب المغازی:باب اذ ھمت طا ئفتان منکم ان تفشلا واللہ
ولیھا وعلی اللہ فلیتوکل المومنون ،وفی کتاب اللباس:باب
الثیاب البیض،صحیح مسلم:کتاب الفضائل:باب فی قتال
جبریل ومیکائیل عن النبی ﷺ یوم احد، واحمد
بن حنبل فی المسند، والشا شی فی المسند، والذھبی فی
سیر اعلام النبلائ، والخطیب التبریزی فی مشکاة المصا
بیح: کتاب احوال القیامة وبدءالخلق:باب فی المعجزات الفصل الاول
جنگ
میں قتل کئے جانے والے کافروں کی قتل کی جگہ کی پہلے
ہی نشاندہی کر دی
حضرت انس بن مالک رضی اللہ
عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب ہم کو ابو سفیان کے(شام سے قافلہ
کے) آنے کی خبر پہنچی تو حضور نبی اکرم ﷺ نے صحا بہ کرام
سے مشورہ فرمایا۔حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر
عرض کیا: یا رسول اللہ (ﷺ)! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ
قدرت میں میری جان ہے اگر آپ ہمیں سمندر میں گھوڑے
ڈالنے کا حکم دین تو ہم سمندر میں گھوڑے ڈال دیں گے، اگر آپ
ﷺ ہمیں برک الغمار پہاڑ سے گھوڑوں کے سینے ٹکرانے کا حکم
دیں تو ہم ایسا بھی کریں گے۔ تب رسول اللہ ﷺ
نے لوگو ں کو بلایا لوگ آئے اور وادی بدر میں اترے۔ پھر
حضور نبی اکرم ﷺ نے فر مایا: یہ فلاں کافر کے گرنے
کی جگہ ہے، آپ ﷺ زمین پر اس جگہ اور کبھی اس جگہ اپنا
دست اقدس رکھتے، حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیںکہ پھر (دوسرے
دن)کوئی کافر حضور ﷺ کی بتائی ہوئی جگہ سے ذرا برا
بر بھی ادھر ادھر نہیں مرا۔
صحیح
مسلم :کتاب الجھاد والسیر: باب غزوة بدر،ونحوہ فی کتاب الجنة وصفة
نعیھا واھلھا:باب عرض مقعد المیت من الجنة او النار علیہ واثبات
عذاب القبر والتعوذ منہ، ابو داﺅد فی
السنن:کتاب الجھاد:باب فی الاسیر ینال منہ ویضرب
ویقرن، والنسائی فی السنن:کتاب الجنائز :باب ارواح
المومنین، احمد بن حنبل فی المسند،والبزار فی المسند، وابن
ابی شیبة فی المصنف، والطبرانی فی المعجم
الاوسط،والخطیب التبریزی فی مشکاة المصابیح :کتاب
احوال القیامة وبدءالخلق:باب الفصل الاول
شہید ہونے والے صحا بی رضی اللہ عنہ کی پہلے
ہی اطلاع دے دی
حضرت انس رضی اللہ تعا
لیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت زید، حضرت
جعفر،اور حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنھم کے متعلق خبر آنے سے پہلے ہی
ان کے شہید ہو جانے کی متعلق لوگوں کو بتا دیا تھا
۔چنانچہ آپ ﷺ نے فر مایا:اب جھنڈا زید رضی اللہ
عنہ نے سنبھالا ہوا ہے لیکن وہ شہید ہو گئے، اب حضرت جعفر رضی اللہ
عنہ نے جھنڈا سنبھال لیا ہے اور وہ بھی شہید ہو گئے۔ اب
ابن رواحہ نے جھنڈا سنبھالا ہے اور وہ بھی جام شہادت نوش کر گئے۔
یہ فر ماتے ہوئے آپ ﷺ کی چشمان مبارک اشک بار
تھیں۔ (پھر فر مایا)یہاں تک کہ اب اللہ کی تلوار
میں سے ایک تلوار(حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ)نے
جھنڈا سنبھال لیا ہے اور اس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے کا فروں
پر فتح عطا فر مائی۔
صحیح
بخاری: کتاب المغازی:باب غزوة موتہ من ارض الشام، وفی کتاب
الجنائز: باب الرجل ینعی الی اھل المیت بنفسہ، وفی
کتاب الجھاد:باب تمنی الشھادة، وفی باب من تامر فی الحرب من
غیر امرة اذا خاف العدو، وفی کتاب:المناقب: باب علامات النبوة
فی الاسلام، وفی کتاب فضا ئل صحابہ :باب مناقب خالد بن ولید
رضی اللہ عنہ،ونحوہ النسائی فی السنن الکبری،واحمد بن
حنبل فی المسند، والحاکم فی المستدرک، والطبرانی فی
المعجم الکبیر،والخطیب التبریزی فی مشکاة
المصابیح :کتاب احوال القیامة و بداءالخلق:باب فی امعجزات ،
الفصل الاول
ایک
مرتد شخص کی موت کے انجام کو مرنے سے پہلے ہی بیان فر ما
دیا
حضرت انس بن مالک رضی اللہ
عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ
ایک آدمی جو حضور ﷺ کے لئے کتابت کیا کرتا تھا وہ اسلام
سے مرتد ہو گیا اور مشرکوں سے جا کر مل گیا اور کہنے لگا میں تم
میں سے سب زیادہ محمد (ﷺ) کو جاننے والا ہوں میں آپ
ﷺ کے لئے جو چا ہتا تھا لکھتا تھا سو وہ شخص جب مر گیا تو حضور
نبی اکرم ﷺ نے فر مایا: اسے زمین قبول نہیں کرے
گی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں: کہ انہیں
ابو طلحہ نے فر مایا: وہ اس زمین پر آئے جہاں وہ مرا تھا تو
دیکھا اس کی لاش قبر سے باہر پڑی تھی۔ پوچھا اس کا
کیا حا ل ہے؟ لوگوں نے کہا: ہم نے اسے کئی بار دفن کیا مگر
زمین نے اسے قبول نہیں کیا۔
اخرجہ
مسلم نحوہ فی صحیح: کتاب صفات المنافقین و احکاھم، واحمد بن
حنبل فی المسند، والبیھقی فی السنن الصغری، وعبد بن
حمید فی المسند، وابو المحاسن فی معتصر المختصر، والخطیب
التبریزی فی مشکاة المصابیح :کتاب احوال القیامة
وبدءالخلق:باب فی المعجزات ، الفصل الاول
کھجور کاگچھا حکم نبی
ﷺ پر حاضر خدمت ہو گیا
حضرت ابن عباس رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے کہ ایک اعرابی حضور نبی اکرم ﷺ کی
خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:مجھے کیسے معلوم ہو کہ آپ
نبی ہیں؟ آپ ( ﷺ )نے فرمایا: اگر میں کھجور کے اس
درخت کے اس گچھے کو بلاﺅں تو تو
گواہی دے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، پھر آپ
ﷺ نے اسے بلایا تو وہ درخت سے اترنے لگا یہاں تک کہ حضور
نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر گرا۔ پھر آپ ﷺ نے فر
مایا: واپس ہو جا وہ واپس(اپنی جگہ)چلا گیا، پس وہ اعرابی
نے اسلام قبول کر لیا۔
ترمذی فی
السنن:کتا ب المناقب عن رسول اللہ ﷺ:باب6، والحاکم فی المستدرک،
والطبرانی فی المعجم الکبیر، الخطیب التبریزی
فی مشکاة المصا بیح :کتاب احوال القیامة وبدءالخلق:باب فی
المعجزات الفصل الثانی
حضور نبی اکرم ﷺ
کے دست اقدس کی بر کت
حضرت ابو زید اخطب
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنا دست
اقدس میرے چہرے پر پھیرا اور میرے لئے دعا فر مائی ،
عزرہ(راوی) کہتے ہیں کہ ابو زید ایک سو بیس سال زندہ
رہے اور ان کے سر میں صرف چند بال سفید تھے۔
اخرجہ التر مذی
فی السنن:کتاب المناقب عن رسو ل اللہ ﷺ:باب 6، والطبرانی
فی المعجم الکبیر، والھیثمی فی مجمع الزوائد،
اشیبانی ی الاحار و المثانی
صحابی رضی اللہ
عنہ کی نکلی آنکھ حضور ﷺ کی دعا کی برکت سے دوبارہ
ٹھیک ہو گئی
حضرت قتادہ بن نعمان
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن (تیر لگنے سے) ان
کی آنکھ ضا ئع ہو گئی اور ڈھیلا نکل کر چہرے پر بہہ
گیا۔ دیگر صحا بہ نے اسے کاٹ دینا چاہا۔ جب رسو ل
اللہ ﷺ سے پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے منع فر ما
دیا۔پھر آپ ﷺنے دعا فر مائی اور آنکھ کو دوبارہ اس کے
مقام پر رکھ دیا ۔ سو حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ اس
طرح ٹھیک ہو گئی کہ معلوم بھی نہ ہوتا تھا کہ کون سی آنکھ
خراب ہے۔
اخرجہ ابو یعلی
فی المسند، والھیثمی فی مجمع الزوائد ، واب سعد فی
الطبقات ، والزھبی فی سیر اعلام النبلاء، والعسقلانی
فی تھذیب التھذیب
صحا بی رضی اللہ
عنہ کی ٹوٹی پنڈلی حضور ﷺ کی برکت سے دوبارہ جڑ
گئی
حضرت براءبن عازب رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ابو را فع
یہودی کی طرف چند انصاری مردوں کو بھیجا اور عبد
اللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کو ان پر امیر مقرر کیا۔
ابو رافع حضور نبی اکرم ﷺ کو تکلیف پہنچاتا تھا اور آپ
ﷺ کے خلاف مدد کر تا تھا اور سر زمین حجاز میں اپنے قلعہ
میں رہتا تھا۔۔۔۔(حضرت عبداللہ بن عتیک
رضی اللہ عنہ نے ابو رافع یہودی کے قتل کا واقعہ بیان
کرتے ہوئے فر مایا)مجھے یقین ہو گیا کہ میں نے اسے
قتل کر دیا ہے۔ پھر میں نے ایک ایک کر کے تمام
دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ زمین پر آرہا۔ چاندنی
رات تھی میں گر گیا اور میری پنڈلی ٹوٹ
گئی تو میں نے اسے عما مہ سے باندھ
دیا۔۔۔۔پھر میں حضور نبی اکرم ﷺ
کی خدمت اقدس میں حا ضر ہوا اور سارا واقعہ عرض کر دیا۔
آپ ﷺ نے فر مایا: پاﺅں آگے کرو۔ میں
پاﺅ ں
پھیلا دیا۔ آپ ﷺ نے اس پر دست کرم پھیر ا تو
ٹوٹی ہوئی پنڈلی جڑ گئی اورپھر کبھی درد تک نہ
ہوا۔
صحیح بخاری :کتاب
المغازی:باب قتل ابی رافع عبد اللہ بن ابی الحقیق،
والبیھقی فی السنن الکبری، والا صبھانی فی
دلائل النبوة، وابن عبد البر فی الاستیعاب، والطبری فی تا
ریخ الامم والملوک، وابن کثیر فی البدایة والنھایة
حضور ﷺ کی بر کت
سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو حیران کن حا فظہ عطا ہوا
حضرت ابو ہریرہ
رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:
یا رسو ل اللہ (ﷺ)! میں آپ ﷺ سے بہت کچھ سنتا ہوں مگر
بھول جاتا ہوں تو آپ ﷺنے فر مایا: اپنی چادر پھیلاﺅ؟ میں نے
اپنی چادر پھیلا دی۔ آپ ﷺ نے چلو بھر بھر کر اس
میں ڈال دئیے اور فر مایا: اسے سینے سے لگا لو۔
میں نے ایسا ہی کیا : پس اس کے بعد میں کبھی
کچھ نہیں بھو لا۔
صحیح بخاری: کتاب العلم:باب حفظ العلم،
صحیح مسلم:کتاب فضا ئل الصحابة:باب من فضا ئل ابی ھریرة
الدوسی رضی اللہ عنہ، والتر مذی فی السنن:کتاب المناقب عن
رسو ل اللہ ﷺ:باب مناقب لابی ھریرة رضی اللہ عنہ،
والطبرانی فی المعجم الاوسط، وابو یعلی فی المسند
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
کی مختلف روایات میں گیارہ سے تیرہ ازواج کے نام ملتے
ہیں۔ زیادہ تر پہلے بیوہ تھیں اور عمر میں بھی
زیادہ تھیں اور زیادہ شادیوں کا عرب میں عام رواج تھا۔
مؤرخین کے مطابق اکثر شادیاں مختلف قبائل سے اتحاد کے لیے یا
ان خواتین کو عزت دینے کے لیے کی گئیں۔ ان میں
سے اکثر سن رسیدہ تھیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و
آلہ و سلم پر کثرت ازدواج کا الزام لگانے والوں کی دلیلیں ناکارہ
ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے صرف حضرت خدیجہ اور حضرت زینب
بنت جحش سے اولاد ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی
ازواج کو امہات المؤمنین کہا جاتا ہے یعنی مؤمنین کی
مائیں۔ ان کے نام اور کچھ حالات درج ذیل ہیں۔
• حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا:
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پہلی شادی حضرت
خدیجہ علیہا السلام سے ہوئی۔ ان سے ان کی بیٹی
حضرت فاطمہ علیہا السلام پیدا ہوئیں جس پر سب مؤرخین کا اتفاق
ہے۔ تین اور بیٹیوں کے بارے میں کچھ مؤرخین کے
خیال میں وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اپنی
بیٹیاں تھیں، کچھ کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ حضرت خدیجہ
علیہ السلام کی پہلے شوہر سے بیٹیاں تھیں اور کچھ یہ
بھی لکھتے ہیں کہ باقی بیٹیاں حضرت خدیجہ علیہ
السلام کی بہن ھالہ کی بیٹیاں تھیں جو حضرت خدیجہ
علیہ السلام کے زیرِ پرورش تھیں کیونکہ ان کی والدہ
ہالہ کا انتقال ہو چکا تھا۔
• حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا
: ان کے پہلے خاوند (جن کے ساتھ انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی)
کا انتقال حبشہ میں ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان
سے شادی کر کے ان کے ایمان کا تحفظ کیا کیونکہ ان کے قبیلہ
کے تمام افراد مشرک تھے۔
• حضرت زینب بنت
خزیمہ رضی اللہ عنہا : ان کے پہلے شوھر حضرت عبداللہ بن جحش کی
شہادت جنگِ احد میں ہوئی جس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ
و سلم نے ان سے شادی کر لی۔
• حضرت ام سلمہ ہند رضی اللہ عنہا
: آپ پہلے عبداللہ ابوسلمہ کی زوجیت میں تھیں اور کافی
سن رسیدہ تھیں۔ ان کے شوہر کے انتقال کے بعد حضور صلی اللہ
علیہ و آلہ و سلم نے ان سے شادی کی۔
• حضرت صفیہ بنت
حی بن اخطب رضی اللہ عنہا : ان کا شوھر جنگِ خیبر میں مارا
گیا اور یہ گرفتار ہو کر آئیں تھیں۔ حضور صلی
اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں آزاد کر کے ان سے عقد کر لیا۔
• حضرت جویریہ
بنت الحارث رضی اللہ عنہا : یہ ایک جنگ کی قیدیوں
میں تھیں اور ان کے ساتھ ان کے قبیلہ کے دو سو افراد بھی قید
ہو کر آئے تھے۔ مسلمانوں نے سب کو آزاد کر دیا اور حضور صلی اللہ
علیہ و آلہ و سلم نے حضرت جویریہ سے شادی کر لی تو تمام
قبیلہ کے افراد مسلمان ہو گئے۔
• حضرت میمونہ
بنت الحارث ہ رضی اللہ عنہا : انہوں نے اپنے شوہر کے انتقال کے بعد خود حضور
صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عقد کی خواہش کی جسے حضور صلی
اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبول کیا۔
• حضرت ام حبیبہ
رضی
اللہ عنہا: حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے شادی کی
تو یہ مسلمان تھیں مگر ان کے والد ابو سفیان نے اسلام قبول نہیں
کیا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت امِ حبیبہ اپنے
والد ابو سفیان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی چادر
پر نہیں بیٹھنے دیتی تھیں کیونکہ اس وقت ابو سفیان
مشرک تھے۔
• حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا
: آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں۔ آپ
کے شوہر خیس بن حذاقہ جنگِ بدر میں مارے گئے تو حضور صلی اللہ علیہ
و آلہ و سلم نے ان سے شادی کی۔
• حضرت عائشہ بنت ابی
بکر
رضی اللہ عنہا: آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی
تھیں اور کم عمر تھیں اور پہلی شادی ہی حضور صلی
اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ
و آلہ و سلم کے بعد کافی عرصہ زندہ رہیں۔ ان سے بے شمار احادیث
مروی ہیں۔
• حضرت زینب بنت
جحش
رضی اللہ عنہا: ان سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تین
بیٹے قاسم ، عبداللہ الطا ہر اور ابراہیم پیدا ہوئے مگر تینوں
کم عمری میں انتقال کر گئے۔
• حضرت ماریہ القبطیہ رضی اللہ عنہا:
بعض روایات کے مطابق آپ کنیزہ تھیں مگر زیادہ روایات
کے مطابق آپ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شادی کی
تھی چنانچہ آپ بھی امہات المومنین میں شامل ہیں۔
باالآخر
۶۳ سال کی عمر
میں بروز پیر ۱۲ ربیع الاول
گیارہ ہجری کو
رفیق اعلیٰ سے جا ملے اور ان ظاہری آنکھوں سے اوجھل
ہوگئے۔ جب آپ اس دنیا سے رخصت ہوئے اس وقت آپ کی عمر 63 برس تھی۔
حضرت علی علیہ السلام نے غسل و کفن دیا اور اصحاب کی مختلف
جماعتوں نے یکے بعد دیگرے نمازِ جنازہ ادا کی اور حضرت محمد صلی
اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مسجد نبوی کے ساتھ ملحق ان کے حجرے میں
اسی جگہ دفن کیا گیا جہاں آپ نے اس جہاں سے پردہ فرمایا تھا۔
یہ اور اس کے اردگرد کی تمام جگہ اب مسجدِ نبوی میں شامل
ہے۔ ام المؤمنین
سیدہ
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں حیات جسمانی
کے ساتھ آج بھی زندہ ہیں اور امتیوں کے سلام کا جواب دیتے اور بارگاہ
الٰہی میں گنہگاروں کے لیے شفاعت فرماتے ہیں۔

امیر المؤمنین سیدنا ابوبکر
صدیق
رضی اللہ تعالیٰ عنہ
ام الخیر
سلمیٰ مکان کے صحن میں اداس و غمزدہ بیٹھی گہری سوچوں میں مستغرق
تھی۔ اتنے میں عثمان ابوقحافہ اندر داخل ہوا۔ بیوی کو افسردہ دیکھا تو
قریب جاکر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر اس کے چہرے
کی طرف دیکھتا رہا پھر بولا ”ام
الخیر کیا بات ہے“۔ ”تم میرے روگ کو بخوبی جانتے
ہو، میں نے لات و عزیٰ
کا کیا بگاڑا ہے جو میرے بچے زندہ نہیں رہتے“۔ اس
کی آواز میں گہرا کرب نمایاں تھا۔ ”یہ تو ہمارے خدا ہی بہتر جانتے ہیں،
کوئی کیا کہہ سکتا ہے“۔
عام
الفیل کی ایک خوبصورت صبح تھی۔ ابوقحافہ کے گھر
عورتوں کا جھمگٹا تھا
کیونکہ آج اس کے ہاں ولادت ہونے والی تھی۔ ابوقحافہ باہر
منتظر بیٹھا تھا کہ کسی
نے آکر خبر دی کہ ”ابوقحافہ تمہیں بیٹے کی مبارک
ہو“۔ وہ دوڑتا اندر گیا
تو
بیوی کے پہلو میں خوبصورت بچے کو دیکھ کر بے حد خوش ہوا“۔
بیوی نے کہا ”میں نے کعبے میں منت مانی تھی
کہ بیٹا ہوا اور زندہ رہا تو
عبدالکعبہ
نام رکھوں گی۔لہذا آپ کا نام عبدالکعبہ رکھا گیا۔جب
حضرت ابوبکر صدیقؓ ایمان لائے تو رسول اکرم حضرت محمد ﷺ
نے آپ کا نام عبدالکعبہ
سے بدل کر عبداللہ رکھ دیا۔
وقت پر لگاکر اڑتا
رہا۔ ایک دن سلمیٰ نے ابوقحافہ سے کہا کہ جب تو کعبہ جایا کرے تو کبھی کبھی
بیٹے کو ساتھ لیجایا کر۔ ایک دن سوئے کعبہ جاتے
ہوئے بیٹے کو دیکھا تو
ساتھ لے لیا۔ راستہ میں عبداللہ نے ایک پتھر ہاتھ
میں اٹھالیا۔
عثمان
نے کہا ”بیٹا اسے پھینک دو، کعبہ میں پتھر نہیں لے
جاتے“۔ ”اچھا تو اتنے پتھر
کے
بت جو کعبہ میں موجود ہیں“۔ عثمان ابوقحافہ لاجواب
ہوگیا۔ ”اچھا اسے جیب میں ڈال لو“۔ لیکن جیب چھوٹی تھی پتھر بڑا،
اس لیے ہاتھ میں ہی رہا۔ کعبہ میں پہنچ کر ابوقحافہ نے کہا ”بیٹے یہ ہمارے
خدا ہیں انہیں سجدا کرو“۔ ”یہ ہمارے خدا ہیں“ عبداللہ نے حیرت و استعجاب سے کہا اور ہاتھ میں پکڑا
ہوا پتھر ایک بڑے سے بت کو
مارا
جس سے اس کی ناک کا ٹکڑا اڑ گیا۔ ابوقحافہ بھونچکا رہ گیا۔
وقت گزرتا رہا۔ عبداللہ کی حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وسلم
سے بچپن سے دوستی
تھی، لیکن اس میں بھی ادب کا پہلو نمایاں نظر آتا
تھا، حالانکہ وہ حضور صلّی اللہ
علیہ وسلم سے صرف ڈھائی سال چھوٹے تھے۔ عام الفیل
میں جب حضرت محمد صلّی
اللہ
علیہ وسلم اپنے کفیل تایا حضرت زبیر بن عبدالمطلب کے
ہمراہ تجارتی سفر پر ملک
شام
روانہ ہونے لگے تو فرمائش کرکے اپنے دوست عبداللہ کو بھی ساتھ لے لیا ۔
زمانۂ جاہلیت سے قبول اسلام تک بھی آپ کی حیات مبارکہ تمام اخلاق رذیلہ سے پاک نظر
آتی ہے۔ کبھی شراب کو ہاتھ نہ لگایا اورنہ کبھی جوئے کے قریب گئے۔
اولین
ایمان لانے والوں میں آپ کے علاوہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا، حضرت
علی رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ شامل ہیں ۔آپ رؤسائے قریش میں شمار ہوتے تھے اور کپڑے
کے مشہور تاجر تھے۔ قبولِ اسلام کے وقت آپ کا چالیس ہزار درہم کا سرمایہ کاروبار میں لگا ہوا
تھا۔ لیکن ہجرت کے وقت آپ کے پاس فقط پانچ ہزار باقی بچے تھے۔ اس سے یہ بات
عیاں ہے کہ آپ نے جان، مال، تن من دھن سب راہِ خدا میں قربان کردیا۔ ۔
سن ۱۳ نبوت میں
واقعۂ ہجرت پیش آیا جو قربانی، جاں نثاری اور محبت رسول صلّی اللہ علیہ وسلم کا
ایک درخشاں باب ہے۔ آپ نے کس درجہ اپنی جان کو داؤ پر لگاکر نبی صلّی اللہ علیہ
وسلم کی حفاظت کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبانی
سنیئے۔ فرماتے ہیں
”خدا کی قسم ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ایک رات آلِ عمر سے
افضل ہے اور ان کا ایک دن
آلِ عمر سے افضل ہے“۔ فرمایا جس رات حضور غارِ ثور تشریف لے گئے
اور ابوبکر رضی اللہ عنہ
ساتھ تھے تو حال یہ تھا کہ کبھی ابوبکر آپ صلّی اللہ علیہ
وسلم کے آگے چلنے لگتے کبھی
پیچھے چلنے لگتے۔ حضور نے وجہ پوچھی تو انہوں نے عرض کیا
یا رسول اللہ
صلّی اللہ علیہ وسلم مجھے پیچھا کرنے والوں کا خیال آتا
ہے تو پیچھے چلنے لگتا ہوں اور جب
یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں آگے کوئی خطرہ نہ ہو تو آگے آ
جاتا ہوں۔ حضور صلّی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تمہارا مطلب یہ ہے کہ کوئی آفت
آئے تو میرے بجائے تم پر
آئے“۔ عرض کی جی ہاں۔
بار خلافت سنبھالنے کے بعد آپ
نے سب سے پہلے اسلام لشکر کو اسامہ
بن
زید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں
بھیجا۔ یہ لشکر حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے
ہی تیار
کیا تھا لیکن آپ کے وصال کی وجہ سے رکا رہا۔ ہرچند کہ
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فتنہ
ارتداد اور مدینہ کو لاحق دوسرے قبائل کے خطرے کی وجہ سے لشکر
بھیجنے کو ملتوی
کرنے کا مشورہ دیا، لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”بخدا
اگر مدینہ آدمیوں سے
خالی ہوجائے اور درندے آکر میری ٹانگ کھینچ لیں تب
بھی میں اس مہم کو
نہیں
روک سکتا جسے بھیجنے کا فیصلہ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا“۔آپ نے جن مرتدین کو زمین بوس کیا ان میں یمن کا الاسود
عنسیٰ، یمامہ قبیلہ کا مسیلمہ، نجد کا طلیحہ، قبیلہ تمیم کی کاہنہ سجاح
شامل ہیں۔ منکرین زکوۃ کو سبق دینے کے لیے
بھی آپ نے فورًا لشکر روانہ
کیا۔ ان مہمات کے علاوہ آپ نے دوسرے ملکوں کی طرف بھی
لشکر روانہ کئے۔ مملکت
اسلامی آپ کے دور میں جنوبی عراق اور شام تک جا پہنچی اور
دنیا کے ایک بڑے حصے پر پرچم
اسلام لہرانے لگا۔
حضرت ابوبکر
رضی اللہ عنہ نے پانچ شادیاں کیں۔
۱۔
قبیلہ عامر کی قتیلہ بنت عبدالعزیٰ جن سے عبداللہ
رضی اللہ عنہ اور اسماء
رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ یہ مسلمان نہیں
ہوئیں اور علیحدگی اختیار کرلی۔
۲۔
قبیلہ کنانہ کی ام رومان بنت عامر رضی اللہ عنہا جن سے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ اور عائشہ
رضی اللہ عنہا پیدا ہوئے۔
۳۔
قبیلہ کلب کی ام بکر، انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا اس
لیے حضرت ابوبکر رضی
اللہ عنہ نے ان کو طلاق دیدی۔
۴۔ اسماء بنت
عمیس رضی اللہ عنہا جن سے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔
۵۔
مدنی خاندان کی حبیبہ بنت خارجہ رضی اللہ عنہا، ان سے ام
کلثوم رضی اللہ
عنہا آپ کے وصال کے بعد پیدا ہوئیں۔
آپ کی چار پشتوں کو صحابی ہونے کا شرف
حاصل ہے۔
آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے آخری ایام علالت میں حضرت
صدیق رضی اللہ عنہ کو امامتِ نماز کے لئے مقرر فرمایا تھا۔ ایک دفعہ ان کو کچھ دیر
ہوگئی تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کھڑا کیا۔ حضرت عمر
رضی اللہ عنہ کچھ بلند آواز تھے، جب انہوں نے تکبیر کہی تو حضور صلّی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا ”ابوبکر کہاں ہے، اس چیز کو نہ تو اللہ پسند کرے گا نہ مسلمان“۔ حضرت مجدد الف ثانی
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
”ابوبکر
و عمر رضی اللہ عنہما مراتب نبوت محمدی صلّی اللہ علیہ
وسلم کے حامل ہیں، کیونکہ ان
دونوں کے کمالات انبیاء علیہم السلام کے کمالات سے مشابہ ہیں
اور رفیق نبی
صلّی اللہ علیہ وسلم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گویا
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے ہم خانہ ہیں، اگر فرق ہے تو بس یہ کہ
پیغمبر خدا صلّی اللہ علیہ وسلم فوقانی منزل میں ہیں اور رفیق
پیغمبر تحتانی منزل میں ہیں۔ حضرت عبدالرحمٰن
بن ابی بکر رضی
اللہ عنہما جنگ بدر میں کفار کی طرف سے لڑ رہے تھے۔ حضرت ابوبکر
رضی اللہ عنہ ان کے مقابلے
میں جانے لگے تو حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک
دیا اور فرمایا ”اے
ابوبکر (رضی اللہ عنہ) ہمیں اپنی ذات سے فائدہ اٹھانے کا موقع
دو، کیا تم نہیں
جانتے کہ میرے نزدیک تمہارا وجود میری سماعت و بصارت
کی طرح ہے۔
یہ عشق حبیب خدا
صلّی اللہ علیہ وسلم ہی تو تھا جس نے آپ کو اتنا درجہ عطا کیا۔ غمِ
مصطفیٰ آپ کی رگ رگ میں سمایا ہوا تھا۔ آپ
محبوب رب العالمین کی
ذات
اقدس میں اس درجہ فنا تھے کہ اپنی ذات نظر نہ آتی
تھی۔ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم سے لمحہ بھر جدائی آپ کو گوارا نہ تھی۔
سردیوں کی راتوں میں گرم پانی کیئے بیت رسول خدا صلّی اللہ علیہ وسلم کے
باہر کھڑے رہتے مبادہ رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وسلم کو وضو کے لئے گرم پانی کی ضرورت پڑے۔ جب
ایک مرتبہ آپ (رضی اللہ عنہ) سے آپ کی تین پسندیدہ خواہشیں پوچھی
گئیں تو آپ نے جن خواہشات کا اظہار فرمایا ان سے بھی ان کا فنا فی الرسول ہونا اظہر من الشمس
ہے۔ یعنی زیارت مصطفیٰ صلّی اللہ
علیہ وسلم، اللہ کے
حبیب صلّی اللہ علیہ وسلم پر مال قربان کرنا اور اپنی
بیٹی آنحضرت صلّی اللہ
علیہ وسلم کے نکاح میں دینا۔
تقویٰ
تمام نیکیوں کی جڑ ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ پر اس کا اتنا اثر تھا کہ کبھی
فرماتے ”کاش میں مومن کے سینے کا بال ہوتا، انسان نہ ہوتا“۔
کبھی فرماتے ”کاش
میں سرراہ ایک درخت ہوتا، اونٹ گذرتا تو مجھ کو پکڑتا، مارتا، چباتا اور میری تحقیر کرتا اور پھر
مینگنی کی صورت میں نکال دیتا۔ یہ سب
کچھ ہوتا مگر میں بشر نہ
ہوتا“۔ چڑیا کو دیکھ کر فرماتے ”تو مجھ سے اچھی ہے کہ تجھ
سے مواخذہ نہ ہوگا“۔
اسی خوف خدا کا یہ عالم تھا کہ کوئی معمولی سی بھول
چوک بھی اگر ہوجاتی تو
سخت
ندامت اور پشیمانی ہوتی اور جب تک اس کی تلافی نہ
کرلیتے چین نہ آتا۔
راہ
خدا میں خرچ کرنے میں بلاشک آپ رضی اللہ عنہ سب سے بڑھ
گئے۔ تمام پونجی
بلکہ گھر کا سامان تک حبیب خدا صلّی اللہ علیہ وسلم کے قدموں
میں لاکر رکھ
دیا۔ آپ نے نو کِبار صحابہ یعنی حضرت بلال، حضرت عامر بن
فہیرا، حضرت نہدیہ،
حضرت
جاریہ بنت مومل، حضرت زیزہ، حضرت حمامہ، حضرت ابوبکیہ، حضرت امّ
عبیس، حضرت لبنیہ
رضی اللہ عنہم کو اپنے پاس سے منہ مانگی رقم دے کر آزاد
کرادیا۔ اس پر اخلاص
کا
یہ عالم تھا کہ جب رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ
”جان و مال کے لحاظ سے مجھ پر ابوبکر
سے زیادہ کسی کا احسان نہیں“ تو آپ آبدیدہ ہوکر عرض کرتے
”یا رسول اللہ صلّی
اللہ علیہ وسلم جان و مال سب حضور ہی کے لیے ہے“۔
مومن
کی فراست کے بارے میں حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد
ہے کہ وہ اللہ کے نور سے
دیکھتا ہے۔ چونکہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سب سے
زیادہ قوی الایمان
تھے، ان کے نور فراست کا یہ عالم تھا کہ جب وصال کا وقت قریب
آیا تو حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا سے فرمایا ”میں نے تم کو جو جائیداد دی ہے اس
کو میرے بعد کتاب اللہ کے قانون کے
مطابق بھائیوں اور بہنوں میں تقسیم کرلینا“ اس پر حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض
کی ”ابا جان میری تو ایک ہی بہن (اسماء رضی
اللہ عنہا) ہے، پر آپ نے ”بہنوں“
کیسے فرمایا؟“ آپ نے اپنی بیوی حضرت حبیبہ
بنت خارجہ رضی اللہ عنہا جو
امید
سے تھیں کی طرف اشارہ کرکے فرمایا ”میرا خیال ہے
بچی پیدا ہوگی“۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
امام
زہری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے ”آواز دردناک تھی، بات بہت
کم کرتے تھے، قلب نہایت
رقیق و نرم تھا، قرآن پاک پڑھتے تو آنسوؤں کی جھڑی لگ
جاتی جس سے اوروں پر
بھی اثر ہوتا۔ چنانچہ ابن الدغنہ نے جب آپ کو ہجرت حبشہ سے واپس لاکر اپنی پناہ میں رکھا، وہاں آپ قرآن
پاک بلند آواز سے پڑھتے تو مشرکین کے نوجوان لڑکے اس طرف دوڑ پڑتے جس پر ان کے والدین نے ابن الدغنہ سے
شکایت کی۔
ایک مرتبہ
آپ ایک قبیلے میں گئے، وہاں پینے کے لیے پانی
مانگا تو لوگوں نے شہد اور
پانی ملاکر پیش کیا۔ آپ نے پیالہ منہ سے لگاکر
ہٹالیا اور رونے لگے۔ جو لوگ
آس پاس بیٹھے ہوئے تھے ان پر بھی ایسی رقت طاری
ہوئی کہ وہ بھی رونے
لگے۔
جب حالت کچھ سنبھلی تو لوگوں نے وجہ دریافت کی۔ آپ نے
فرمایا ”میں ایک دن رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، میں نے
دیکھا کہ آپ کسی چیز کو دور دور کہہ رہے تھے، میں نے پوچھا یا رسول اللہ (صلّی اللہ
علیہ وسلم) آپ کس چیز کو دور کہہ رہے ہیں؟ ارشاد ہوا دنیا میرے سامنے مجسم ہوکر
آگئی تھی، میں نے اس سے کہا دور ہوجا تو ہٹ گئی، لیکن پھر آگئی اور کہا آپ مجھ سے بچ
کر نکل جائیں لیکن آپ کے بعد جو لوگ آئیں گے وہ تو بچ نہیں جاسکتے“۔ اتنا بیان
کرنے کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”اس وقت مجھ کو وہی بات یاد آگئی
اور مجھے خوف ہوا کہ دنیا کہیں مجھ سے چمٹ نہ جائے“۔
وصال
کے روز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بلاکر انہیں فرمایا کہ ”مجھے امید ہے کہ آج میری
زندگی ختم ہوجائیگی۔ اگر دن میں میرا دم نکلے
تو شام سے پہلے اور اگر رات کو
نکلے تو صبح سے پہلے مثنیٰ کے لیے کمک بھیج
دینا۔ حضرت مثنیٰ رضی اللہ عنہ اس وقت عراق کے محاذ پر لڑ رہے تھے۔ پھر ان کو کچھ
اور ہدایات دیں۔ دریافت فرمایا ”حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے کس روز
رحلت فرمائی تھی“ لوگوں نے بتایا پیر کے روز۔ ارشاد فرمایا
”میری بھی یہی آرزو ہے کہ میں آج رخصت
ہوجاؤں“۔ حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہا سے دریافت فرمایا ”حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کو کتنے
کپڑوں کا کفن دیا
گیا تھا؟“ عرض کیا تین کپڑوں کا۔ فرمایا
میری کفن میں بھی اتنے کپڑے ہوں۔ دو یہ چادریں جو میرے بدن پر ہیں
دھولی جائیں اور ایک کپڑا بنالیا جائے۔ آخری
الفاظ یہ تھے ”اے اللہ مجھے
مسلمان اٹھا اور اپنے نیک بندوں میں شامل کر“۔ جب روح اقدس نے پرواز کی تو 22 جمادی الآخر 13ھ
تاریخ، پیر کا دن، عشاء مغرب کا درمیانی وقت، عمر اقدس 63 سال تھی۔ آپ کی زوجہ
محترمہ حضرت اسماء بن عمیس رضی اللہ عنہا نے غسل دیا۔ حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر رضی
اللہ عنہم جسم اطہر پر پانی بہاتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ وصیت
کے مطابق حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف دفن کیے گئے۔ انا للہ و انا
الیہ راجعون۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ
آپ کا نام سلمان، کنیت ابو عبداللہ اور وطن
مالوف اصفہان (فارس) ہے۔ اسلام سے پہلے بہت سے عیسائی علماء کی خدمت و صحبت
کی۔ ان میں سے ایک نے آپ کو رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے مقام بعثت
اور ہجرت کی خبر دی، چنانچہ آپ عرب کے ایک قافلہ کے ساتھ حجاز مقدس آئے اور حضور کی
مدینہ عالیہ تشریف آوری کے وقت وہیں موجود تھے اور مشرف باسلام ہوئے۔ غزوہ خندق کے
موقعہ پر رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے
”سلمان
منا اہل البیت“ فرماکر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو اپنے
اہل بیت میں شامل فرمایا
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ
نے آپ کو مدائن کا گورنر مقرر فرمایا، جس کا پانچ ہزار درہم مشاہرہ آپ کو ملتا تھا لیکن وہ تمام کا
تمام راہ خدا میں صرف کردیتے تھے
اور اپنے گذارہ کے لیے اپنے ہاتھ سے چٹائیاں بناکر بیچتے تھے
اور اس میں سے بھی
تیسرا حصہ صدقہ کرتے تھے اور لوگوں کے صدقات سے خود کبھی نہیں
لیتے تھے۔
حضرت
سلمان فارسی نے قبیلہ کندہ کی ایک عورت سے نکاح
کیا اس سے دو لڑکے پیدا ہوئے حضرات القدس کے مطابق سب اہل علم اہل کمال
تھے۔
بالآخر تقریباً ڈھائی سو سال کی عمر
پاکر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں دس رجب المرجب ۳۳ ہجری
میں شہر مدائن میں وفات پائی۔ ان اللہ وانا الیہ
راجعون۔

حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکررضی
اللہ عنہ
تاریخ ولادت
۲۳
شعبان
۲۴
ہجری جائے ولادت مدینہ منورہ۔ آپ امیر المؤمنین حضرت
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے، حضرت امام زین العابدین رضی
اللہ عنہ کے خالہ
زاد بھائی اور سیدنا حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے
نانا تھے۔ زہد و
عبادت، تقویٰ و طہارت میں اپنی مثل آپ تھے۔
حضرت یحییٰ بن سعید رضی اللہ
عنہ نے فرمایا کہ مدینہ طیبہ
میں حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر فضیلت والا ہمیں
کوئی نظر نہ آیا۔ اس
کے باوجود کہ آپ مدینہ عالیہ کے مشہور سات فقہاء میں سے تھے، پھر
بھی فرماتے تھے
”
ضروری نہیں کہ جو کچھ ہم سے پوچھا جائے وہ ہم جانتے
ہی ہوں۔ نیز فرمایا ”و من العلم لا قولک ”لا ادری“ “، یعنی یہ کہنا
کہ میں نہیں
جانتا بھی ایک طرح کا علم ہی ہے۔
حضرت امام قاسم چھوٹی عمر میں ہی یتیم ہو گئے
تھے اور اپنی پھو پھی ام المومنین حضرت عا یشہ صدیقہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کے پاس پرورش پاتے رہے ۔آپ کا با طنی انتساب حضرت
سلمان فارسی سے ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ علیہ فرماتے ہیں کہ
اگر امرخلافت میرے اختیار میں ہوتاتو میں حضرت قاسمؓ کے سپرد کرتا۔
حضرت امام بخاریؒ کا قول ہے کہ آپ اپنے زمانے میں سب
سے افضل تھے۔ایوب سختیانی ؒ کا بیان ہے کہ میں نے کسی کو بھی حضرت
قاسمؓ سے افضل نہیں دیکھا۔
ابن اسحاق ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسمؓ
کو نماز پڑھتے دیکھا۔ ایک عرابی آیا۔اُس نے پوچھا کہ آپ اور سالم
بن عبداللہ بن عمرؓ میں کون زیادہ عالم ہے ۔آپ نے ارشاد فرمایا وہ
مرد مبارک ہیں سبحان اللہ!عرابی نے پھر وہی سوال کیا۔ آپ نے فرمایا
سالمؓ وہ ہیں اُن سے پوچھ لے۔ابن اسحاق ؒ نے اس کی یہ توجیہ کی ہے
کہ حضرت قاسمؓ نے اپنے آپ کو زیادہ علم والا کہنا پسند نہ کیا
کیونکہ یہ تزکیہ نفس ہے۔اور یہ بھی نہ کہا کہ سالم بن عبداللہ بن
عمرؓ زیادہ علم والے ہیں کیونکہ کہیں یہ جھوٹ نہ ہو۔
آپ سے بہت سی احادیث رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم مروی
ہیں جن میں سے ایک یہ
بھی ہے کہ ”اعظم النساء برکۃ ایسرہم مؤنۃ“ کہ عورتوں میں بہتر عورت
وہ ہے جس کے
اخراجات آسان ہوں۔
جب آپ کی رحلت کا وقت قریب آیا تو آپ نے وصیت فرمائی "مجھے
اُن کپڑوں میں دفن کرنا جن کپڑوں میں میں نماز پڑھا کرتا
تھا"۔یعنی قمیض، تہبند اور چادر۔آپ کے صاحبزادے نے عرض کیا۔ ابا
جان !کیا ہم دو کپڑے اور زیادہ کر دیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا۔ جان
پدر حضرت ابو بکرصدیقؓ کا کفن بھی تین کپڑوں پر مشتمل تھا۔مردے کی
نسبت زندہ کو نئے کپڑوں کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔
آپ
۲۴
جمادی الثانی
۱۰۱
یا
۱۰۶
یا
۱۰۷
کو سفر حج یا عمرے کے دوران مکہ مکرمہ اور
مدینہ طیبہ کےدرمیان قدید کے مقام پر اس جہاں سے رخصت ہوگئے۔ انا
للہ وانا الیہ راجعون۔قدید سے تین میل کی دوری پر مثلل کے مقام پر
آپ کی آخری آرام گاہ بنی۔

حضرت امام جعفر صادقرضی اللہ عنہ
آپ کی ولادت باسعادت ۸ رمضان المبارک ۸۰ ہجری کو
مدینہ طیبہ میں ہوئی۔آپ کا نام گرامی جعفر،
کنیت ابو عبداللہ ہے۔صدق مقال کے سبب آپ کو صادق کہتے
ہیں۔آپ کے والد کا نام سیدنا حضرت محمد باقر رضی اللہ عنہ ہے۔ حضرت امام علی
زین العابدین رضی اللہ عنہ آپ کے دادا ہیں۔
نیز آپ کو تبع
تابعین میں سے ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔
اکابرین امت حضرت امام مالک و حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہما نے آپ سے احادیث
روایت کیں ہیں۔ آپ کی والدہ محترمہ سیدہ ام فردہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہ عنہ کی پوتی بھی تھیں اور نواسی بھی۔ اس لیے آپ
فرمایا کرتے تھے ”ولدنی ابوبکر مدتین“ کہ مجھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دوہری اولاد
ہونے کا شرف حاصل ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ نیکی تین اوصاف کے بغیر کامل نہیں
ہوسکتی:
1.
تو اپنی ہر نیکی کو معمولی
سمجھے۔
2.
اس کو چھپائے۔
3.
اس میں جلدی کرے۔
آپ اہل السنۃ والجماعت کے پیشوا بالخصوص طریقہ عالیہ
نقشبندیہ کے سالار پیر
طریقت
ہیں۔آپ کی سیادت اور امامت پر سب کا اتفاق
ہے۔عمروبن ابی المقدمؒ فرماتےہیں کہ میں جس وقت
امام جعفرصادقؓ کو دیکھتاہوں تومجھےمعلوم ہوجاتاہےکہ آپ خاندان نبوت
سےہیں۔
امام ربانی حضرت مجددالف
ثانیؒ فرماتےہیں کہ حضرت صدیق اکبرؓ سےنسبت
صدیقی حضرت سلمان فارسیؓ کو پہنچی۔
پھریہی نسبت بعدمیں حضرت امام قاسمؓ کو پہنچی
اوروہاں سےیہ نسبت حضرت امام جعفرصادقؓ کو حاصل ہوئی۔
حضرت امام قاسمؓ حضرت امام جعفرصادقؓ کے ناناتھے۔کیونکہ
حضرت امام جعفرصادقؓ نےاپنےباپ داداسےبھی نورحاصل کیاتھااوروہ
سلوک فوقانی سے مناسبت رکھتاہےاس لئےجذب کی تحصیل کےبعدسلوک
فوقانی کےذریعےمقصودپہنچے اوردونوں نسبتوں کےجامع ہوگئے۔
پھریہ نسبت حضرت امام جعفرصادقؓ سےباطریق ا مانت سلطان العارفین
حضرت بایزیدبسطامیؒ کوروحانیت کےراستہ
سےپہنچی جوکہ اویسی ولیوں کاطریقہ ہے۔
آپ لطائف
تفسیراوراسرارتنزیل میں بےنظیرتھے۔ علامہ
ذہبی نےآپ کوحفاظ حدیث میں شمارکیاہےجبکہ امام
ابوحنیفہؓ ، امام مالکؒ،سفیان ثوریؒ،
سفیان یمینہؒ، حاتم بن اسماعیلؒ،
یحیی قطانؒ، ابوعاصمؒ نےآپ سے حدیثیں
روایت کی ہیں۔ حضرت امام ابو حنیفہؓ
فرماتےہیں کہ میں نے اہل بیعت میں امام جعفرصادقؒ
سے بڑھ کر کسی اورکو فقہیہ نہیں دیکھا۔
حضرت امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ
میں حضرت امام جعفرصادقؒ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا
تھا۔ میں نے ان کو حدیث شریف بیان کرتے وقت
کبھی بےوضونہیں دیکھا۔ میں نے عرصہ درازتک ان
کی خدمت میں حاضری دیتارہامگرجب بھی ان کےقدموں
میں پہنچاتوان کونمازپڑھتےیاخاموش بیٹھےیاقرآن کریم
کی تلاوت کرتےپایا۔ وہ خلوت میں کبھی بھی
فضول و لغو کلام نہیں کرتےتھے۔ علوم شریعہ کےعالم باعمل اورخداترس
تھے۔
آپ کی بےشمارکرامات ہیں
لیکن بطورتبرک چندایک کا ذکرکیاجاتاہےتاکہ قارئین کرام
اپنے کشت ایمان کو سرسبزوتازہ کرکےان کےنقش قدم پر چلیں ۔
ایک روزحضرت امام
جعفرصادقؒ مکہ مکرمہ کی ایک گلی سے گزررہےتھےکہ ایک
عورت کو بچوں کےساتھ روتے دیکھاجس کےآگےمردہ گائےپڑی ہوئی
تھی۔ آپ نے رونےکاسبب دریافت کیاتواس عورت نےکہاکہ
ہمارےپاس صرف ایک ہی گائےتھی جس کے دودھ
سےہماراگزاراہورہاتھا۔اب یہ مرگئی ہےتوہم پریشان حال
ہیں کہ اب کیاکریں گےگزاراکیسےہوگا۔ آپ
نےارشادفرمایاکیاتویہ چاہتی ہےکہ اللہ تعالیٰ
اسے زندہ کردے؟ اس نےکہاہم پرتومصیبت طاری ہےاورآپ ہم سے مذاق کرتے
ہیں۔ آپ نےفرمایامیں مذاق نہیں کرتاپھرآپ نے
دعافرماکرگائےکوایک ٹھوکرماری اور وہ زندہ ہوکر کھڑی
ہوگئی۔
عباسی خلیفہ منصورآپ
کی لوگوں میں مقبولیت سےسخت پریشان تھااورذاتی
عنادرکھتاتھا۔ اس نےاپنےوزیرکوحکم دیا کہ حضرت امام جعفرصادق
ؒ کو بلایاجائےتاکہ انہیں قتل کیاجائے۔
وزیرنےبادشاہ کوسمجھایاکہ ایسے شخص کوقتل کرنےکا کوئی
فائدہ نہیں ہوگاجس شخص کے شب وروز زہدوعبادت، گوشہ نشینی
اورملکی حالات سےعدم دلچسپی میں گزرتے ہوں۔ لیکن
خلیفہ منصور بضدرہااورحضرت امام جعفرصادقؒ کو بلانےکاحکم
دیا۔ خلیفہ منصورنےاپنےسپاہیوں کو حکم
دیاجونہی حضرت امام جعفرصادقؒ نمودارہوں اور میں
سرسےٹوپی اتاروں توتم فوراً تہ تیغ کردینا۔
جب حضرت امام جعفرصادقؒ
خلیفہ منصورکےدربارمیں تشریف لائےتوخلیفہ منصورآپ
کودیکھتےہی آپ کے استقبال کےلئےآگےبڑھااورآپ کوادب واحترام سےاپنےتخت
پربٹھادیااورخودعجزوانکسارکےساتھ سامنے بیٹھ گیا۔
سپاہی یہ منظردیکھ کرحیران وپریشان ہوگئے۔
خلیفہ منصورنےدست بدستہ عرض کیا کہ حضوروالااگرکسی
چیزکی ضرورت ہوتوحکم فرمائیں۔ حضرت امام جعفرؒ
نےارشادفرمایاآئندہ پھرکبھی مجھےاپنےپاس نہ بلانا۔ یہ
ارشادفرماکرآپ تشریف لےگئےاور خلیفہ منصوربےہوش
ہوکرنیچےگرپڑااورمسلسل تین روزتک بےہوش رہا۔ بعض روایات
میں آیاہے کہ اس کے تین نمازیں فوت ہوگئیں۔
خلیفہ منصورکوجب ہوش
آیاتووزیرنےپوچھاکیامعاملہ تھاجس پرخلیفہ منصوربولاکہ جب
حضرت امام جعفرصادقؒ یہاں جلوہ افروزہوئےتوایک بہت بڑااژدھاآپ
کےہمراہ تھاجس کا ایک جبڑامحل کےنیچےاوردوسرامحل کےاوپرتھااورمجھے کہہ
رہاتھاکہ اگرتونےحضرت امام جعفرصادقؒ کو ذرابھی تکلیف
پہنچائی تو میں تمہیں اس محل سمیت نگل جاؤں گا۔ اس
وجہ سے مجھ پربےپناہ خوف طاری ہوگیااورمیں حضرت امام
جعفرصادقؒ سےکچھ نہ کہابلکہ عذرکیااور پھربےہوش ہوگیا۔
آپ نےفرمایاپانچ قسم کےلوگوں کی صحبت
سےاجتناب کرنےمیں بہتری ہے۔
۱۔ جھوٹےسےاجتناب کروکیونکہ اس
کی صحبت فریب میں مبتلاکردیتی ہے۔
۲۔ بےوقوف سےاجتناب کروکیونکہ وہ
تمہارےفائدےسےزیادہ تمہیں نقصان پہنچائےگا۔
۳۔ کنجوس سےاجتناب کروکیونکہ وہ
تمہارابہترین وقت ضائع کریگا۔
۴۔ بزدل سےاجتناب کرو کیونکہ وقت
پڑنےپروہ تمہاراساتھ چھوڑدیگا۔
۵۔ فاسق سےاجتناب کروکیونکہ وہ
ایک نوالہ کی طمع میں کنارہ کش ہوکرمصیبت میں
مبتلاکردیتاہے۔
آپ فرماتےہیں صاحب کرامت وہ ہےجواپنی ذات
کےلئےنفس کی سرکشی سےآمادہ بجنگ رہےکیونکہ نفس سےجنگ کرنااللہ
تعالیٰ تک رسائی کاسبب ہوتاہے۔
آپ فرماتےہیں کہ مومن کی تعریف
یہ ہےکہ نفس کی سرکشی کامقابلہ کرتارہےاورعارف کی
تعریف یہ ہےکہ اپنے مولاکی اطاعت میں ہمہ تن مصروف
رہے۔
آپ نے ۱۵ رجب المرجب ۱۴۸ ہجری کو مدینہ طیبہ
میں۶۸سال کی عمر مبارک میں اس دارفانی کو
الودع کہااورجنت البقیع میں قبہ اہل بیعت میں مدفون ہوئے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

سلطان العارفین حضرت
بایزید بسطامیرحمتہ علیہ
آپ
کی ولادت باسعادت ۱۳۶ ہجری بسطام شہر میں ہوئی
آپ کے والدجن کانام عیسیٰ اور کنیت
ابویزید ہے بسطام شہر کے جلیل القدر بزرگوں میں شمار ہوتے
تھے۔۔ آپ کا اسم گرامی طیفوربا یزید
ہے۔ آپ ایک کردی عالم کے شاگرد تھے، مگر بعد میں علم ظاہری کو ترک کرکے
فقیری کی راہ اختیار کی۔ آپ کی طرف بہت سی خلاف واقع باتیں منسوب
کی گئیں ہیں جن کی کوئی اصل حقیقت
نہیں، جبکہ بعض حضرات نے ان کلمات کے
ثبوت کی صورت میں اس کو حالت سکر و غلبہ پر حمل کیا ہے۔
آپ کے متعلق حضرت جنید بغدادی قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ با
یزید ہماری جماعت میں ایسے ہیں جیسے
جبریل فرشتوں میں کہ میدان تو حید میں چلنے والوں
کی انتہا با یزید کی ابتدا ہے۔ سالکین جب
آپ کے ابتدائی قدم پر پہنچتے ہیں تو وہ ان کی انتہا
ہوتی ہے۔ آپ حضرت معروف کرخی علیہ الرحمۃ کے
پیر بھائی اور حضرت
یحییٰ
بن معاذ رازی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمعصر ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے آپ نے روحانی فیض حاصل
کیا۔ سید الطائفۃ حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمۃ نے آپ کے
متعلق فرمایا بایزید ہمارے درمیان اس طرح ہیں جس طرح ملائکہ میں حضرت
جبریل علیہ السلام۔
ایک رات آپ کی والدہ ماجدہ نے
پانی طلب کیا آپ پانی لینے گئے ۔ کوزے میں
پانی نہ تھا۔ گھڑا دیکھا تو وہ بھی خالی تھا۔
چنانچہ پانی لینے ندی پر چلے گئے۔ جب واپس آئے تو
دیکھا والدہ صاحبہ سو چکی تھیں۔ شدید سردی کا
موسم تھا۔ آپ پانی کا کوزہ ہاتھ میں اٹھائے کھڑے رہے۔ جب
ووالدہ ماجدہ کی آنکھ کھلی تو پانی پیا اور آپ کو دعاؤں
سے نوازا اور فرمایا کہ کوزہ کیوں نہ نیچے رکھ
دیا۔ عرض کی کہ میں ڈرتا رہا کہ آپ بیدار ہوکر
پانی طلب فرمائیں گی اور میں حاضر نہ ہوں گا۔
آپ فرماتے ہیں کہ ایک موقع پر
والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ آدھا دروازہ بند کردو میں صبح تک
یہی سوچتا رہا کہ کونسا آدھا دروازہ بند کروں، دائیں طرف کا
یا بائیں طرف کا؟ صبح کے وقت مجھے وہ سب کچھ مل گیا جو میں
ڈھونڈتا تھا ۔ پھر آپ کو وہ مقام حاصل ہوا کہ حضرت جنید
بغدادیؒ جیسے اکابر بھی پکار اُٹھے کہ با
یزید ہماری جماعت میں ایسے ہیں جیسے
جبریل فرشتوں میں کہ میدان تو حید میں چلنے والوں
کی انتہا با یزید کی ابتدا ہے۔ سالکین جب
آپ کے ابتدائی قدم پر پہنچتے ہیں تو وہ ان کی انتہا
ہوتی ہے۔
ایک دفعہ کسی نے بتایا
فلاں جگہ ایک بہت بڑے بزرگ ہیں ۔ آپ ان سے ملاقات کرنے
گئے۔ جب ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے قبلہ کی جانب تھوکا۔ آپ
یہ دل خراش منظر دیکھ کر واپس آگئے اور فرمایاکہ اگراس شخص کو
طریقت کی ذرا بھر بھی خبرہوتی تو اسطرح خلاف ادب کام نہ
کرتا۔ آپ کے گھرسےمسجدتک کافاصلہ چالیس قدم تھا۔ لیکن
بوجہ تعظیم مسجدآپ نےکبھی راستےمیں نہ تھوکا۔
آپ حج کےلئےروانہ ہوئےتوبارہ سال میں کعبہ معظمہ پہنچےکیونکہ
راستےمیں چندقدم چلتےتوجائے نمازبچھاکردورکعت نماز پڑھتےاورفرماتےکہ
یہ دنیاکےبادشاہوں کادربارنہیں کہ آدمی ایک دفعہ
میں پہنچ جائے۔ آپ حج سےفارغ ہوکرواپس آگئےلیکن مدینہ
منورہ حاضری نہ دی اورفرمایازیارت مدینہ کوحج کے
تابع بناناخلاف ادب ہے۔ پھر آئندہ سال زیارت روزہ نبوی
کےلئےحاضری دی۔
آپ کے ملفوظات میں ہے کہ نیکوں
کی صحبت نیک کام کرنے سے بدرجہا بہتر ہے اور بروں کی صحبت برے کام
کرنے سے زیادہ نقصان دہ اور مہلک ہے۔ طریقہ طیفوریہ
آپ ہی کی طرف منسوب ہے اور اس فرقہ کی بنیاد سکر و غلبہ پر
ہے۔ یہ لوگ ہمیشہ بنفشۂ الٰہی میں مست سرشار
رہتے ہیں۔ آپ کی طرف بھی جو غیر مناسب باتیں منسوب
کی گئی ہیں یا تو انکی کوئی اصل نہیں، جبکہ
ثبوت کی صورت میں تحقیقی علماء نے اس کو آپ کی حالت
سکر و غلبہ حال پر حمل کیا ہے۔
آ پ نے ۱۵ شعبان ۲۶۱ ہجری کواس
دار فانی کو الوداع کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔آپ
کا مزار شریف بسطام میں ہے۔

حضرت شیخ ابوالحسن
خرقانیرحمۃ اللہ علیہ
آپ
کی ولادت باسعادت حضرت بایزید بسطامی ؒ کے اس جہان
فانی سے رخصت ہونے کے بعد ۳۵۲ ہجری فرقان میں
ہوئی۔ آپ کا اسم گرامی علی بن احمد اور کنیت ابوالحسن ہے۔ آپ کو
اویسی طریقہ پر حضرت بایزید بسطامی
رحمۃ اللہ علیہ سے
باطنی
فیض پہنچا اور انہی سے آپ کی روحانی تر بیت
ہوئی۔انہی کے فیض کو آپ نے تمام جہاں میں عام
کیا۔
اوائل زندگی میں آپ کا
یہ معمول تھا کہ نماز عشا با جماعت ادا کرنے کے بعد حضرت با یز
ید بسطامی ؒ کےمزار پرانوار فیض حاصل کرنے کے لیے خرقان
جو قزدین کے قریب قصبہ
کا
نام ہے، سے پیدل بسطام جاتے تھے وہاں پہنچ کر یوں دعا کرتے
!"خدایا جو مرتبہ تو نے حضرت بایزید بسطامیؒ
کو وہ ابوالحسن کو بھی عطا فرما"۔اس دعا کے بعد خرقان واپس آکر
نماز فجر ادا کرتے۔آپ کے ادب کا یہ عالم تھا کہ بسطام سے اس نیت
کے ساتھ الٹے پاوں واپس ہوتے کہ کہیں حضرت با یز ید
بسطامی کے مزار کی بے ادبی نہ ہو جائے۔
بارہ برس کی مسلسل حاضری کے بعد
مزار مباک سے آواز آئی ۔ اے ابوالحسن ! اب تمہارے بیٹھنے کا وقت
آگیا ہے ۔ یہ سن کر عرض کی کہ میں ان پڑھ
ہوں۔رموز شریعت سے چنداں واقف نہیں ۔آواز آئی کہ تم
نے جو خدا سے مانگا تھا وہ تمہیں مل گیا۔ فاتحہ شروع
کیجے۔جب آپ خرقان واپس پہنچے تو پورا قرآن مجید ختم کر
لیا اورتمام ظاہری اور باطنی علوم آپ پر منکشف ہو گئے۔
مشہور مسلم حکمران سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے بڑے
عقیدت مند تھے۔جب پہلی بار سلطان محمود غزنوی نے آپ کا شہرہ سنا اور خرقان پہنچ کر اپنے قاصد کے
ہاتھ پیغام بھیجا کہ حضور میرے دربار میں ملاقات کے تشریف لائیں تو بڑی
مہربانی ہو گی ۔لیکن آپ نے انکار کر دیا ۔ جس
کے بعد سلطان محمودغزنوی نے اپنا شاہی لباس اپنے غلام ایاز کو
پہنایا خودایاز کے کپڑے پہن لئے۔دس لونڈیوں کو غلاموں کا
لباس پہنا کر آپ کے امتحان کی غرض سے خانقاہ کا رخ کیا۔سب نے
حاضر ہو کر سلام عرض کیا تو آپ نے سلام کا جواب دیا لیکن آپ
تعظیم کے لیے نہ اٹھے۔ آپ نے سلطان کی طرف توجہ کی
اور ایاز کی طرف مطلق نگاہ نہ کی ۔آپ نے ارشاد
فرمایا یہ سب کچھ جال ہے۔سلطان نے کہا ہاں یہ جال ہے مگر
اسکا پرندہ آپ نہیں ہیں ۔پھر آپ ؓنے سلطان محمود کا ہاتھ
پکڑ کر فرمایا ۔آگے آؤ۔ تم مقدم ہو۔پس سلطان محمود
بیٹھ گیا اور عرض کی کہ مجھے کچھ ارشاد فرمائیے۔آپ
نے فرمایا پہلے نامحرموں کو نکال دو۔ سلطان نے اشارہ کیا اور وہ
لونڈیاں باہر نکل گیئں۔سلطان محمود نے آپ سے فرمائش کی کہ
مجھے حضرت با یزید بسطامیؒ کی کوئی بات
سنایئے۔ آپ نے فرمایا حضرت بایزیدؒ کا قول
تھا "جس نے میری زیارت کر لی اس کو بدبختی سے
نجات مل گئی"۔اس پر محمود نے پوچھا کیا ان کا مرتبہ حضرت
محمد ﷺ سے بھی زیادہ ہے۔اس لئےکہ حضورﷺ کوابوجہل
اورابولہب جیسےمنکرین نےبھی دیکھاپھربھی ان
کی بدبختی دورنہ ہوسکی۔ آپ نےفرمایاکہ اےمحمود!ادب
کوملحوظ خاطررکھ اوراپنی بساط سےباہرپاؤں نہ رکھ کیونکہ حضرت
محمدﷺکوخلفائےراشدین اوردیگرصحابہؓ کےعلاوہ کسی
نےنہیں دیکھاجس کی دلیل قرآن پاک کی یہ
آیت مبارک ہے۔اس کے بعدآپ نےسورۃ الاعراف کی آیت
نمبر ۱۹۸کاکچھ حصہ تلاوت فرمایا جس کاترجمہ درج ذیل
ہے:
" اور ان کو آپ دیکھتے
ہیں کہ گویا وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں اور وہ کچھ بھی
نہیں دیکھتے۔"
یہ سن کرسلطان بہت محفوظ ہوا۔پھرآپ
سےکہنےلگاکہ مجھےکچھ نصیحت فرمائیے۔آپ
نےفرمایاچارچیزیں اختیارکرو
۱۔پرہیزگاری۔
۲۔باجماعت نمازاداکرتےرہو۔
۳۔سخاوت کواپناشعاربنالو۔
۴۔خلقِ خداپرشفقت کواپناشعاربنالو۔
پھرسلطان محمودنےعرض کی کہ حضور
میرےلئےدعافرمائیں۔ حضرت ابوالخرقانیؒ
نےفرمایامیں پانچوں نمازوں میں دعاکرتاہوں کہ"یااللہ
مومنین و مومنات کے گناہ بخش دے" سلطان نے کہامیرےواسطےخاص
دعاکیجیے۔ آپ ؒ نےفرمایااےمحمودےتیری
عاقبت محمودہو۔
سلطان محمود غزنوی نےاس کےبعدآپ
کی خدمت میں اشرفیوں کاایک توڑا پیش
کیا۔ آپؒ نے جوکی روٹی اس کےآگےرکھ دی اورکہاکھاؤ۔سلطان
چباتاتھالیکن حلق سےنہ اترتی تھی۔ آپؒ
نےفرمایاکیاتمہاراگلاپکڑتی ہے۔ سلطان
نےکہاہاں!۔آپؒ نےفرمایااسی طرح تمہارااشرفیوں
کاتوڑابھی میراگلاپکڑتاہےاسےواپس لےجاؤکیونکہ میں
دنیاوی مال کوطلاق دےچکاہوں۔سلطان کےبےحداصرارکےباوجودآپؒ
نےاس میں سےکچھ نہ لیا۔پھرسلطان محمودنےخواہش کی کہ مجھ
کوبطورتبرک کچھ چیزعطافرمائیں۔ اس پرآپؒ نےسلطان
کواپناپیراہن دیدیا۔
جب عقیدت و
محبت
سے سرشار ہوکر اور تبرک کے طور پر پیراہن مبارک لیکر ادب سے جانے کے
لیے اٹھا تو حضرت
اسکی تعظیم کے لیے اٹھے اور سلطان کے دریافت کرنے پر حضرت
ابوالحسن خرقانیؒ نےفرمایاجب تم آئےتھےتواس وقت
تمہارےاندرشاہی تکبرموجودتھااورمیراامتحان لینےآئےتھےلیکن
اب تم انکساراوردرویشی کی حالت میں واپس
جارہےہواورخورشیدفقرتمہاری پیشانی پررخشندہ ہے۔اس
کےبعدسلطان رخصت ہوگیا۔
کہتے ہیں کہ جب سومنات پر چڑھائی کے وقت سلطان غنیم کی بے پناہ
قوت کی وجہ سے شکست کھانے لگا تو اضطراب کی حالت میں حضور
ابوالحسن خرقانی
رحمۃ اللہ علیہ کا پیراہن مبارک ہاتھ میں لیکر
بارگاہ الٰہی میں یوں ملتجی ہوا:
الٰہی بآبروئے ایں خرقہ
بریں کفار ظفردہ
ہرچہ
ازینجا غنیمت
بگیرم بدرویشاں بدہم
ترجمہ: خدایا اس خرقہ کی آبرو کے صدقے
میں مجھے ان کافروں پر فتح عطا کر، مجھے یہاں سے جو مال غنیمت ملے گا درویشوں کو
دیدوں گا۔
جب محمودغنیم کےمقابلےمیں صف
آراہواتوغنیم کےآپس میں باہمی اختلافات شروع ہوگئےاورانہوں
نےایک دوسرےکوتہہ تیغ کرناشروع کردیا۔ اس طرح لشکراسلام
کوفتح حاصل ہوئی۔
رات کو محمودغزنوی نے خواب
میں حضرت ابوالحسن خرقانیؒ کودیکھا۔آپؒ فرما
رہے ہیں"اےمحمودتو نےہمارےخرقاکی آبرو ضائع کردی اگر تو اس
وقت اللہ تعالیٰ سے دعاکرتاکہ سارےکفارمسلمان ہوجائیں تو بفضل
خداسب مسلمان ہو جاتے۔
ابوالقاسم قشیریؒ فرماتے ہیں کہ
جب میں ولایت خرقان میں داخل ہوا تو اس وقت مجھ پر حضرت
ابوالحسن ؒ کا خوف اس قدر طاری تھا کہ بات کرنے کی بھی
سکت نہیں تھی جس وجہ سے مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ
شائد مجھے ولایت سے محروم کر دیا گیا ہے۔
ایک
دفعہ آپ کے ایک مرید نے کوہ لبنان جا کر قطب عالم سے ملاقات کی
اجازت طلب کی تو آپؒ نے نہ صرف اسے جانے کی اجازت دے دی
بلکہ راستے کے اخراجات کے لئے اجرت بھی دے دی۔جب آپ کا
مرید کوہ لبنان پہنچا تو اُس نے دیکھا کہ ایک جنازہ رکھا ہوا ہے
۔تمام لوگ کسی کے منتظر ہیں ۔ اس نے لوگوں سے پوچھا کہ
تمہیں کس کا انتظار ہے تو انہوں نے کہا کہ پانچوں وقت نماز پڑھانے کے
لیے قطب العالم تشریف لاتے ہیں۔ہمیں انہی کا
انتظار ہے۔یہ سن کر اُسے بے حد خوشی ہوئی کہ بہت جلد قطب
العالم سے ملاقات ہو جائے گی۔
کچھ ہی دیر بعد لوگوں نے
صفیں قائم لیں اور نماز جنازہ شروع ہو گئی۔جب اس نے غور
سے دیکھا تو پتہ چلا کہ نماز جنازہ کے امام خود اس کے مرشد حضرت ابو
الحسنؒ ہیں۔یہ دیکھ کر وہ خوف کے مارے بیہوش
ہو گیا ۔جب ہوش آنے کے بعد دیکھا تو لوگ جنازے کو دفن کر چکے
تھے اور قطب العالم جا چکے تھے۔اس نے لوگوں سے پوچھا کہ قطب العالم اب کب
تشریف لائیں گے۔لوگوں نے بتایا کہ قطب العالم حضرت
ابوالحسن ؒ اب نماز کے وقت پھر یہاں تشریف لائیں گے
۔چنانچہ وہ مرید انتظار میں وہیں رک گیا۔جب
آپؒ دوبارہ تشریف لائے اور نماز پڑھائی۔ جب آپ نماز پڑھ
چکے تو مرید نے بڑھ کر سلام کر کے دامن تھام لیالیکن شدت خوف
کی وجہ سے زبان سے کچھ نہ نکلا۔آپ نے اسے واپس اپنے ہمراہ لے جاتے
ہوئے فرمایا کہ جو تو نے یہاں دیکھا ہے اس کوہماری
زندگی میں کسی کے سامنے نہ ظاہر کرنا۔
آپ سماع بالکل نہیں سنتے تھے
لیکن جب حضرت ابو سعیدؒ آپ کی زیارت کے لئے آئے تو
کھانے سے فارغ ہو نے کےبعد آپ سے اجازت طلب کی کہ قوال کچھ گائیں
۔آپ نے فرمایا کہ ہمیں سماع کی بالکل رغبت نہیں
لیکن آپ کی دل جوئی کے لیے سن لیتے ہیں۔قوالوں
نے ایک شعر پڑھا تو شیح ابوسعید ؒ نے کہا کہ اے
شیح اب وقت ہے کہ آپ اٹھیں ۔ آپ اٹھے اور اپنی
آستین کو تین بارحرکت دی اور سات مرتبہ قدم مبارک زمین پر
مارا۔خانقاہ کی تمام دیواریں آپ کی موافقت
میں ہلنے لگیں ۔شیح ابو سعید ؒ نے کہا ! اے
شیح اب بس کیجیے ورنہ خانقاہ کی تمام دیواریں
خراب ہو جائیں گیاور قسم ہے خداوند ذوالجلال کی کہ زمین
وآسمان بھی آپ کی موافقت میں رقص کرنے لگیں۔اس وقت
آپ نے فرمایا کہ سماع صرف اسی کے لیے جائز ہے جس کو آسمان سےلے
کر عرش تک اور زمین سے تخت اثریٰ تک کشادگی نظر آتی
ہو۔پھر لوگوں سے ارشاد کیا کہ اگرتم سےکوئی دریافت کرے کہ
رقص کیوں کرتے ہو تو جواب میں کہہ دینا کہ گذشتہ بزرگوں
کی اتباع میں جو ہو کر گذرے ہیں۔
حضرت شیخ ابوالحسن رحمۃ اللہ
علیہ کے توجہ الیٰ اللہ اور وصول کا یہ عالم تھا کہ فرماتے تھے تیس سال ہوئے ہیں سوائے
حق تعالیٰ کے اور کوئی خیال میرے دل میں
نہیں گذرا۔چالیس
سال تک آپ نے سر کے نیچے تکیہ نہیں رکھا۔اور صبح کی
نماز عشاء کے وضو سے پڑھی۔
جب آپ کا اس دار فانی سے رخصت ہونے
کا وقت قریب آیا تو وصیت فرمائی کہ مجھے زمین سے
تیس گز نیچے دفن کرناکیونکہ یہ سر زمین بُسطام
کی سر زمین سے زیادہ بلند ہے اور یہ بے ادبی
کی بات ہے کہ میرا مزار حضرت بایزید بسطامیؒ
سے اونچا ہو جائے۔چنانچہ آپ کی وصیت پر عمل کیا
گیا۔ آپ کا وصال خرقان ہی میں دس محرم الحرام ۴۲۵ ہجری
میں ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

حضرت خواجہ ابوالقاسم گرگانیر
حمۃ اللہ علیہ
آپ کا اسم شریف علی، والد کا نام عبداللہ اور کنیت
ابوالقاسم ہے۔ ایران کے مشہور طوس کے قریب گرگان نامی گاؤں میں
پیدا ہوئے۔ آپ کی باطنی نسبت تو حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی علیہ
الرحمۃ سے ہے اور انہیں کے سلسلے کو آگے پھیلایا ہے لیکن آپ نے
طریقہ سہروردیہ کے عظیم شیخ سید الطائفۃ حضرت جنید بغدادی علیہ
الرحمۃ سے بھی فیض حاصل کیا ہے۔ آپ حضرت داتا گنج بخش علی
ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے ہم عصر بلکہ بعض روایات کے مطابق
انکے شیخ ہیں۔ چنانچہ حضرت علی ہجویری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں
کہ ایک مرتبہ طوس میں میں نے شیخ المشائخ حضرت ابوالقاسم
گرگانی رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ درویش کے لیے کم سے کم
کونسی چیز ہونی چاہیے جو کہ فقر کے شایان شان ہو۔ تو فرمایا
فقیری کے لیے تین چیزیں ہونی چاہییں: ایک یہ کہ گدڑی میں پیوند
درست لگانا جانتا ہو، یعنی ناقص مریدوں کی درست تربیت کرسکتا
ہو۔ دوم یہ کہ درست سننا جانتا ہو یعنی سنی ہوئی بات پر غور
کرتا ہو۔ سوم یہ کہ زمین پر قدم درست مارتا ہو یعنی خودی، تکبر
اور اکڑ کر چلنے کا عادی نہ ہو۔
آپ صاحب تصنیف عالم بزرگ ہیں۔ ”اصول
الطریقۃ وفصول الحقیقۃ“ نامی کتاب تصوف کے موضوع پر آپ کی
تصنیف ہے۔ اس میں آپ نے فرمایا ہے کہ جس کام میں گناہ نہ ہو
اپنے بھائیوں یعنی پیر بھائی یا دوست احباب کی موافقت کرنا
فضیلت کے اعتبار سے نفلی روزہ سے کم نہیں ہے۔ اور فرمایا روزہ
کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ روزہ دار کی نظر میں اپنے روزہ کی
کوئی قدر و منزلت نہ ہو۔
آپ ۲۳ صفر المظفر ۴۵۰ ہجری کو اس فانی
جہاں سے کوچ فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

حضرت خواجہ ابو علی
فارمدی
رحمۃ اللہ علیہ
آپ
کا نام قصیل محمد بن محمد ہے۔ طوس کے قریب فارمد نامی
قصبہ میں آپ کی ولادت
۴۳۴ ہجری کو ہوئی۔ طریقہ عالیہ
نقشبندیہ میں حضرت خواجہ ابوالقاسم گرگانی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوئے لیکن
اویسی طور پر حضرت ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ
تعالیٰ علیہ
سے
فیضیاب ہوئے۔ آپ کے صاحب کمال ہونے کے لیے یہ
دلیل کافی ہے کہ حجۃ الاسلام حضرت امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے
مرید اور تربیت یافتہ تھے۔
مشہور ہے کہ حضرت شیخ ابو سعید ابو
الخیرؒ سے ارادت رکھنے والوں میں چالیس ولی اللہ ہوئے ہیں۔
ان میں سے ایک شیخ السلام احمدجامؒ اور دوسرے شیخ
ابوعلی فارمدیؒ مشہور ہوئے ہیں۔
آپ فرماتے ہیں کہ میں ایک روز
مدرسہ میں اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھاکہ میرے دل
میں حضرت
شیخ ابو سعید ابو الخیر ؒ کی زیارت کی
تمنا پیدا ہوئی۔ان دنوں شیخ ابو سعید ابو
الخیرؒ نیشا پور تشریف لائے ہوئے تھے۔بےقراری
میں میں اٹھ کر باہر چلا گیا ۔جب چوک میں پہنچا تو
دیکھا کہ حضرت شیخ ابو سعید ابو الخیرؒ ایک
بڑی جماعت کے ساتھ تشریف لے جا رہے ہیں۔میں
بھی ان کے پیچھے ہو لیا ۔ حضرتؒ ایک جگہ پہنچ
کر تشریف فرماہو گئے تو میں بھی ایک کونہ میں
بیٹھ گیا جہاں حضرت شیخ ابو سعید ابو الخیرؒ
کی نظر مجھ پر نہ پڑتی تھی۔
محفل
سماع شروع
ہوئی اور حضرت ؒ کو وجد آگیا۔حالت وجد میں حضرت
شیخ ابو سعید ابو الخیرؒ نے اپنے کپڑے تار تار کر
لیے۔ جب حضرت شیخ ابو سعید ابو الخیرؒوجد
کی کفیت سے باہر آئے تو مرید آپ کے لبا س کے ٹکڑے تبرک کے طور
پر لینے لگے۔ حضرت شیخ ابو سعید ابو الخیرؒ
نے ایک آستین اپنے ہاتھ مین پکڑی اور آواز دی کہ
اے ابو علی طوسی کہاں ہو ۔میں نے اس خیال سے جواب
نہ دیا کہ حضرت شیخ ابو سعید ابو الخیرؒ مجھے
پہچانتے نہیں ہیں نیز میں ان کے سامنے بھی
نہیں اور شائد ان کے کسی مرید کا نام بھی ابوعلی
ہوگا۔آپ نے دوسری اور جب تیسری بار آواز دی تو
میں سمجھ گیا کہ آپ مجھے ہی پکار رہے
ہیں۔میں آپ کے سامنے حاضر ہوا آپ نے وہ آستین مجھے مرحمت
فرمائی اور فرمایا کہ یہ تیرا حصہ ہے۔فوراً
میرے قلب میں روشنی ظاہر ہوئی اور پھر روز بروز اس
میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔
جب
حضرت شیخ ابو
سعید ابو الخیرؒ نیشا پور سے تشریف لے گئے تو
میں حضرت شیح ابوالقاسم قشیریؒ کی خدمت
میں حاضر ہوا اور اپنی کیفیت بیان کی آپ نے
فرمایا مبارک ہو۔ اس کے بعد تین سال تک حصول علم میں
مصروف رہا۔ایک روز میں نے قلم دوات میں ڈالی تو وہ
سفید باہر نکلی۔میں وہ قلم اٹھا کر اپنے استاد حضرت
شیح ابوالقاسم قشیریؒ کے پاس لے گیا اور اپنی
حالت بیان کی۔ حضرت شیح ابوالقاسم
قشیریؒ نے فرمایا کیونکہ قلم نے تجھے چھوڑ
دیا ہے لہذا تم بھی یہ کام چھوڑ دو اور طریقت کے کام
میں مصروف ہو جاؤ۔
ایک دن حضرت شیح ابوالقاسم
قشیریؒ حمام میں غسل کر رہے تھے۔میں نے
اٹھ کر کنوئیں سے پانی کے کئی ڈول لا کر حمام میں ڈال
دیئے۔جب حضرت شیح ابوالقاسم قشیریؒ حمام سے باہر آئے
تو دریافت کیا یہ کون تھا جس نے حمام میں پانی
کےڈول ڈالے۔ میں گھبرا گیا کیونکہ یہ حرکت
میں نے کی تھی۔آخر جرت کرکے عرض کی حضرت یہ
میں تھا۔اس پر حضرت شیح ابوالقاسم قشیریؒ نے فرمایا اے
ابوعلی جو میں نے ستر سال میں پایا تو نے پانی کے
ایک ڈول سے وہ سب کچھ پا لیا ہے۔
اس کے بعد کچھ عرصہ تک حضرت شیح
ابوالقاسم قشیریؒ کے زیر سایہ مجاہدہ کرتا رہا۔ ایک
روز مجھ پر ایسی حالت طاری ہوئی کہ میں اس
میں گم ہو گیا۔میں نے یہ واقعہ حضرت شیح
ابوالقاسم قشیریؒ سے عرض کیا تو انہوں نے فرمایا اے ابو
علی سلوک میں میری بھاگ ڈور اس مقام سے اوپر نہیں
اور جو کچھ اس مقام سے اُوپر ہے اس تک میری رسائی نہیں
۔
حضرت شیح ابوالقاسم قشیریؒ
کی اجازت سے آپ حضرت ابوالقاسم گرگانیؒ کی خدمت
میں حاضر ہوئے۔ آپ خودفرماتے ہیں کے میں طوس
میں سیخ ابوالقاسم گرگانیؒ کے پاس حاضرہو تو وہ اس وقت
مراقبے میں تھے۔ آپ نے سر اٹھایا اور فرمایا اے بو
اعلی آو کیا چاہتے ہو؟ میں نے سلام کے بعد حالات عرض کئے
۔آپ نے فرمایا تمہیں یہ ابتدا مبارک ہو گو تم
کسی درجے پر نہیں پہنچے لیکن اگر تربیت پاو گے تو بڑے
درجے پاو گے۔
اس کے بعد بو علی فرماتے ہیں کے
انہوں نے مجھے طرح طرح کی ریاضت اور مجاہدہ کرایا پھر ایک
وقت آیا کہ انہوں نے اپنی صاحبزادی کا نکاح مجھ سے کرکے
اپنی دامادی میں لے لیا۔
اس کے بعد سلوک وتکمیل کی منزل
طے کرنے کے بعد حضرت ابوالقاسم گرگانیؒ نے آپ کو واعظ کرنے کی
اجازت دے دی۔حضرت ابوعلی فارمدیؒ فرماتےہیں
کہ میں نے حضرت ابوالقاسم گرگانیؒ سےبےشمارفیض پائے
مگردل کی خواہش روزبروزبڑھتی جاتی تھی۔اس لئےحضرت
ابوالحسن خرقانیؒ کی خدمت میں حاضرہوگیااور بے
حدوحساب فیوض وبرکات سےمستفیدہوا۔
آپ کا وصال مؤرخہ ۴ ربیع الاول ۵۱۱ ہجری یا ۴۷۷ ہجری
میں ایران کے مشہور شہر طوس جسے آجکل مشہد کہا جاتا ہے، میں ہوا۔ انا للہ وانا الیہ
راجعون۔ آپ کا مزار طوس یعنی مشہد میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔

حضرت یوسف بن
ایوب ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ
آپ کا نام گرامی یوسف اور کنیت ابویعقوب ہے۔ آپ
کی ولادت سنہ ۴۴۰ ہجری میں ہمدان کے نواحی
قصبہ بورنجرد میں ہوئی۔
آپ حضرت ابو علی فارمدی علیہ الرحمۃ کے خلیفہ،
شریعت و طریقت کے
جامع
اور تربیت سالکین میں ضرب المثل تھے۔ بڑے بڑے علماء
تربیت کے لیے آپ کے پاس
حاضر
ہوتے تھے۔
آپ اٹھارہ سال کی عمر میں
بغداد آئے۔یہاں آپ نے ابو اسحاق شرازی سے فقہ کی
تعلیم حاصل کیاور اصول فقہ و مذہب میں ماہر ہو
گئے۔قاضی ابو الحسنین محمد علی ، عبدالصمد بن علی
بن ماموں اورابو جعفر بن احمد بن مسلمہ سے سماع حدیث کیا۔
آپ عالم،عامل،عارف،زاہد،پرہیزگار،عابد،صاحب حال اور صاحب کرامت
تھے۔اپنے وقت کے سرکردہ مشائخ میں آپ کا شمار ہو تا
تھا۔خراسان میں مریدوں کی تربیت آپ
جیسی کسی نے نہ کی۔آپ کی مجلس
میں علما،فقہا وصلحاء کا بہت بڑا اجتماع رہتا تھا۔سب لوگ آپ کے
ارشاد و کلام سے استفادہ کرتے تھے۔
حضرت خواجہ یوسف ہمدانی
ؒ کی طرح حضور سیدناغوث الاعظمؒ بھی اٹھارہ سال
کی عمر میں حصول علم کے لئے اپنے وطن سےبغداد تشریف لائے
تھے۔ جب آپ تحصیل علم سے فارغ ہوچکےتو ایک روز حضرت خواجہ
یوسف ہمدانیؒ سے ان کی ملاقات ہوئی جسے حضرت غوث
الاعظم نے یوں سپرد قلم فرمایا ہے
بغداد میں ایک شخص ہمدان سے
آیاہےجسےلوگ یوسف ہمدانی کہتے تھےاورکہاجاتاتھاکہ وہ قطب
ہیں۔ وہ ایک مسافرخانےمیں اترے ۔جب میں
نےیہ حال سناتو مسافرخانےگیا مگران کو نہ پایا۔
دریافت کرنے پرمعلوم ہواکہ وہ سرداب میں ہیں۔ پس
میں وہاں پہنچاتو مجھے دیکھ کر کھڑےہوگئےاوراپنےپاس
بٹھایا۔ میرےتمام حالات مجھ سےذکر کئےاورمیری
مشکلات کو حل فرمایا۔ پھرمجھ سے یوں ارشاد ہوئے:اے عبدالقادر!
تم لوگوں کو وعظ سنایاکرو۔ میں نے عرض کی آقا میں
عجمی ہوں۔ اہل بغداد کی فصاحت و بلاغت کے سامنے میری
گفتگوکی کیا حیثیت ہے۔ یہ سن کر آپ
نےفرمایااب تم کو فقہ،اصول فقہ،اختلاف مذاہب،نحو،لغت اور تفسیرقرآن
یاد ہے۔ تم میں وعظ کہنے کی صلاحیت و قابلیت
موجودہے۔ برسرممبر لوگوں کو وعظ سنایاکروکیونکہ میں تم
میں ایک جڑ دیکھ رہا ہوں جو عنقریب درخت ہوجائےگا۔
آپ سید الکاملین صاحب کرامت ولی تھے۔ایک دفعہ
ایک عورت روتی ہوئی آپ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ
فرنگی میرے لڑکےکوپکڑکےلےگئےہیں دعافرمایئےکہ وہ
آجائے۔آپ نےفرمایا صبرکرو اور گھر واپس جاکر دیکھو تمھارا
لڑکاتوگھرمیں موجودہے۔ وہ عورت جب واپس گھر پہنچی تو
دیکھاواقعی اس کالڑکاگھرمیں موجود تھا۔ لڑکے سے حال
دریافت کیاتواس نے بتایامیں ابھی قسطنطنیہ
میں قیدتھا۔پہرےدار اردگردموجود تھےکہ اچانک ایک نامعلوم
شخص آیا اورمجھ کو آنکھ جھپکتے ہی گھر پہنچادیا۔ اس عورت
نے آپ کے پاس آکرتمام واقع بیان کیا۔ آپ نے فرمایا تجھے
حکم خدا سے تعجب آتاہے۔
ایک دفعہ آپ وعظ فرمارہےتھے وعظ کی
تاثیرسےتمام مجمع مسحورتھا۔ دو فقہیہ بھی حاضرین
میں موجود تھے۔ وہ یہ منظربرداشت نہ کرسکے اور آپ سے کہنے لگے
چپ رہو کہ تم بدعتی ہو۔ آپ نے ارشاد کیاتم خاموش رہو کہ
تمہیں موت آنےوالی ہے۔ چنانچہ وہ دونوں اسی وقت اسی
جگہ مرگئے۔
آپ
نے۱۷رجب۵۳۶ہجری کواس دارفانی کو خداحافظ کہااوربامئین جو کہ ہرات اور بغشورکے
درمیان واقع ہے سپرد خاک ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد آپ کے ایک مریدخاص ابن النجار نے آپ کے
جسدخاکی کو مرو میں لےجاکر سپردخاک کردیا جہاں آج مزار مقدس موجود ہے

حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی
رحمۃ اللہ علیہ
آج سے سینکڑوں برس پہلے بخارا کے ایک بڑے شہر غجدوان کی قابل
احترام شخصیت حضرت عبدالجلیل یا عبدالجمیل کے گھرانے کو ایک ایسے ہی مرد
کامل نے بشارت دی کہ تمہارے گھر ایک چراغ روشن ہونے والا ہے جو ایک عالم کو پرنور
بنائے گا۔ اس کا نام عبدالخالق رکھنا۔
یہ بشارت دینے والے حضرت خضر علیہ السلام تھے-
اس بشارت کے ٹھیک تین ماہ بعد حضرت خواجہ عبدالجلیل واصل بحق
ہوئے اور اپنے چہیتوں کو سوگوار چھوڑ گئے۔ ٹھیک چھ ماہ بعد حضرت خواجہ
عبدالجلیل رحمة اللہ علیہ امام کے گھر ایک حسین و جمیل بچہ تولد ہوا، جس کا نام
مبارک مردِ کامل کی بشارت کی وجہ سے عبدالخالق رکھا۔
ہونہار اور ذہین شاگرد نے دن رات ایک کرکے ظاہری تعلیم سے فراغت حاصل کرلی۔
لیکن دل کی پیاس تھی کہ بڑھتی ہی جارہی تھی۔ آپ مردِ کامل کی تلاش میں پھرتے رہے۔
ایک روز آپ بعد نماز عشاء محویت کے عالم میں بیٹھے
تھے کہ آپ کو کسی نے آواز دی۔ آپ چونکے، اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر اپنا وہمہ خیال
کرکے دوبارہ ذکر میں مشغول ہوگئے۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر آواز آئی تو آپ نے سر
اٹھایا تو دیکھا کہ ایک نہایت حسین جمیل صورت بزرگ تشریف فرما ہیں۔ حضرت عبدالخالق
رحمة اللہ علیہ بزرگ سے اٹھ کر ملے۔ بزرگ گویا ہوئے کہ عبدالخالق تمہیں مردِ کامل
کی تلاش تھی اور رب تعالیٰ نے مجھے خود ہی تمہارے پاس بھیج دیا ہے۔ حضرت عبدالخالق
رحمة اللہ علیہ نے عرض کیا کہ جناب میں تو آپ کو پہچانا ہی نہیں، بزرگ نے نہایت
محبت آمیز لہجے میں فرمایا کہ بیٹا میں وہی ہوں جس نے تمہاری پیدائش کی خوشخبری
سنائی تھی اور میرا کام لوگوں کو راستہ دکھانا ہے۔ حضرت عبدالخالق رحمة اللہ علیہ
نہایت درجہ خوش ہوئے اور بزرگ کی خدمت میں عرض کیا جناب ابھی آپ میرے ساتھ میرے گھر
چلیں گے۔ بزرگ نے چند شرائط پیش کیں۔1، میں تمہارے ساتھ کچھ کھاؤں پیئوں گا نہیں 2،
میں تمہارے ساتھ اقامت اختیار نہیں کروں گا 3، میرا تعلق صرف اور صرف تمہاری ذات تک
محدود رہے گا، میں تمہارے کسی عزیز دوست رشتہ دار سے نہیں ملوں گا اور 4، چوتھی شرط
یہ کہ تم میری کسی بھی بات پر مجھ سے اس کی وجہ نہیں پوچھو گے اور میرا تعارف نہیں
چاہو گے۔ حضرت خواجہ عبدالخالق رحمة اللہ علیہ نے وعدہ فرمالیا کہ انہیں یہ تمام
شرائط منظور ہیں اور میں ان پر کماحقہ عمل کرنے کی کوشش کروں گا۔ ان شرائط کے ساتھ
ہی اس مردِ کامل نے حضرت خواجہ عبدالخالق رحمة اللہ علیہ سے فرمایا اب میں تمہیں
اپنی فرزندی میں لیتا ہوں اور تمہیں ایک سبق بتاتا ہوں، اس پر مداومت کرو تاکہ تم
پر اسرار و رموز منکشف ہوں۔ پھر اس مردِ کامل نے حضرت خواجہ عبدالخالق رحمة اللہ
علیہ کو وقوف عددی کی تعلیم دی اور فرمایا کہ دل کی گہرائیوں سے ”لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہِ“ کہو۔ حضرت خواجہ عبدالخالق رحمة اللہ علیہ نے
ایسا ہی کیا اور اس ورد میں مشغول ہوگئے اور بہت جلد انہیں اس بات کا احساس ہوگیا
کہ علم و اسرار کے بوجھ سے ان کا وزن بڑھتا جارہا ہے۔ حضرت عبدالخالق رحمة اللہ
علیہ کی عمر 22 برس کی ہوچکی تھی اور حضرت خضر علیہ السلام کی تربیت میں ایک عرصہ
ہوچلا تھا کہ یکایک غلغلہ بلند ہوا کہ بخارا میں مشہور زمانہ بزرگ خواجۂ
خواجگان
خواجہ ابویوسف ہمدانی رحمة اللہ علیہ تشریف لائے ہوئے ہیں۔ حضرت خضر علیہ السلام نے
حضرت خواجہ عبدالخالق رحمة اللہ علیہ سے فرمایا کہ اب میرا کام ختم ہوا، جن کا ہمیں
انتظار تھا وہ تشریف لائے ہیں، اب وہ آپ کی تربیت کریں گے۔حضرت خواجہ عبدالخالق
رحمة اللہ علیہ اپنے پیر سبق کے ساتھ حضرت خواجہ ابو یوسف
ہمدانی رحمة اللہ علیہ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے۔ یہ دیکھ کر حضرت عبدالخالق
رحمة اللہ علیہ نہایت متعجب ہوئے کہ حضرت خواجہ ابو یوسف ہمدانی رحمة اللہ علیہ
پہلے ہی سے منتظر ہیں اور بڑھ کر حضرت خضر علیہ السلام سے مصافحہ فرمایا۔
حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ ”جناب اس لڑکے کی اب آپ
تربیت فرمائیں گے، اسے اپنی فرزندی میں قبول فرمائیں۔“ حضرت خواجہ ابو یوسف ہمدانی
رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ جناب میں بخارا اِن کے لئے ہی آیا ہوں۔ اس کے بعد حضرت
خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ بیٹا اب یہ تمہارے مرشد ہیں یہ فرماکر وہ تشریف لے
گئے۔ آخر حضرت خواجہ
عبدالخالق رحمة اللہ علیہ اپنے مرشد مربی سے عرض گذار ہوئے کہ کیا آپ میرا ایک
مسئلہ حل فرمائیں گے۔ حضرت ابو یوسف ہمدانی رحمة اللہ علیہ نے
وعدہ فرمالیا کہ جو پوچھو ہم انشاء اللہ بتائیں گے۔ اس پر حضرت عبدالخالق رحمة اللہ
علیہ نے عرض کیا جناب یہ بزرگ جو مجھے آپ کی خدمت میں لے کر آئے تھے یہ کون ہیں؟
حضرت خواجہ ابو یوسف ہمدانی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ کیا تم اپنا سوال واپس
نہیں لے سکتے۔ آپ نے عرض کیا کہ جناب سوال واپس لینے کے لئے نہیں کیا گیا۔ اس پر
حضرت ابو یوسف علی ہمدانی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ وہ میرے مرشد حضرت خضر علیہ
السلام ہیں۔ حضرت عبدالخالق رحمة اللہ علیہ نے یہ سنا تو حیرت کے ساتھ فرمایا کہ
یہ حضرت خضر ہیں، افسوس کہ اتنا عرصہ حضرت کے ساتھ رہا لیکن پہچان نہ سکا۔ آپ نے
فرمایا کہ اب افسوس کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اب تم میری باتوں پر عمل کرو، خدا نے
چاہا تو دور دور تک تمہارا کوئی جواب نہ ہوگا۔
حضرت خواجہ عبدالخالق رحمة اللہ علیہ حضرت خواجہ ابو یوسف
ہمدانی رحمة اللہ علیہ کے تشریف لے جانے کے بعد وہیں بخارا میں ریاضت و مجاہدہ میں
مشغول ہوگئے۔ آپ اپنی روش و حالات کو اغیار کی نظروں سے پوشیدہ رکھتے تھے۔ بہت سے
لوگوں نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی اور وہی جگہ خانقاہ اور آستانہ بن گیا۔
آپ
تحریر فرماتے ہیں کہ اے فرزند تقویٰ کو اپنی خصلت بناؤ اور
وطائف و عبادات پر مضبوطی سے جمے رہو اور اپنے حالات کا محاسبہ کرو، خدا اور اس کے
رسول برحق علیہ الصلواة والسلام کے اور والدین کے حقوق ادا کرو، نماز باجماعت ادا
کرنا، حدیث و تفسیر اور فقہ کی تعلیم ضرور حاصل کرنا، جاہل صوفیوں سے پرہیز کرنا
کیونکہ وہ دین کے چور اور مسلمانوں کے راہزن ہیں، اپنے احوال ہمیشہ دوسروں سے
چھپائے رکھنا، طالب ریاست نہ بننا، جو شخص ریاست کا طالب ہوا اس کو طریقت کا سالک
نہیں کہا جاسکتا۔ بادشاہوں سے میل جول نہ رکھنا۔ اپنے نام کوئی قُبالہ نہ لکھوانا۔
خانقاہیں نہ بنوانا اور نہ ہی اپنے آپ کو شیخ کہلوانا۔ ہمیشہ روزہ دار رہنا، کیونکہ
روزہ نفس کو توڑ دیتا ہے اور فقر میں پاکیزہ اور پرہیزگار رہنا۔ راہِ خدا میں
تقویٰ، حلم اور فقر سے ثابت قدم رہنا، جان مال اور تن سے فقراء کی خدمت کرنا اور ان
کا دل راضی رکھنا اور ان کی پیروی کرنا اور ان کے راستہ کو یاد رکھنا اور ان میں سے
کسی کا انکار مت کرنا سوائے ان چیزوں کے جو مخالف شرع ہوں۔ اور متوکل علی اللہ رہنا
کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہوجاتا
ہے۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تم کو دیا ہے اس کو تم خلقِ خدا پر خرچ کرنا۔ اپنے نفس
کی حفاظت کرنا اور اسے عزت مت دینا۔ کم کھانا، کم پینا اور کم بولنا اور جب تک نیند
کا غلبہ نہ ہوا کرے مت سونا اور جلد اٹھنا۔ مجالس سماع میں زیادہ مت بیٹھنا کیونکہ
سماع کی زیادتی نفاق پیدا کرتی ہے، سماع کی کثرت دل کو مارتی ہے۔ مگر سماع کا انکار
بھی نہ کرنا کیونکہ بہت سے بزرگوں نے اس کو سنا ہے۔ سماع صرف اس کے لئے جائز ہے جس
کا دل زندہ اور بدن مردہ (یعنی اپنی خواہش کوئی نہ ہو) اور جس میں یہ دو حالتیں نہ
ہوں اس کے لئے زمانہ روزہ میں مشغول ہونا بہتر ہے۔ مردوں اور عورتوں سے صحبت نہ
رکھنا۔ دنیا کی طلب میں منہمک ہونے سے بچنا، کسی سے اپنے آپ کو برتر نہ جانو اور نہ
ہی کسی سے اپنے آپ کو کمتر خیال کرو۔ بہت زیادہ روؤ، کم ہنسو، قہقہوں سے یکسر پرہیز
کرو۔ تمہارا بدن بیمار اور آنکھ روتی رہے، تمہارا عمل خالص، تمہاری دعا میں مجاہدہ
ہو، مسجد تمہارا گھر اور کتابیں تمہارا مال ہوں۔ درویش تمہارے رفیق اور زہد و تقویٰ
تمہاری آرائش ہو اور تمہارا مونس اللہ تعالیٰ ہو۔ جس شخص میں یہ پانچ باتیں ہوں اسی
کے ساتھ دوستی رکھنا۔
1۔
وہ فقیر کو تونگری یا امیری پر ترجیح دے۔
2۔
جو دین کو ہمیشہ دنیا پر ترجیح دے۔
3۔
جو علوم ظاہر و باطن کا عالم ہو۔
4۔
راہِ خدا کی ذلت کو عزت پر فوقیت دے۔
5۔
جو موت کے لئے ہر وقت تیار ہو۔
اے فرزند ان نصیحتوں کو خوب یاد کرلو اور عمل کرو۔ جس طرح میں
نے اپنے پیر و مرشد سے یاد کیں اور عمل کیا اور تم یاد کرو گے اور عمل کرو گے تو
اللہ تعالیٰ تمہاری دنیا و آخرت میں نگہبانی فرمائے گا۔ جن باتوں کا میں نے ذکر کیا
ہے اگر یہ کسی سالک میں پیدا ہوجائیں تو اس کی بزرگی مسلم ہوجائے اور جو شخص اس کی
پیروی کرے گا اپنے مقصود و مطلوب تک پہنچ جائے گا۔
ایک مرتبہ حضرت خواجۂ خواجگان نہایت علیل ہوگئے۔ لوگوں کو یقین تھا کہ
اب یہ ماہتاب کامل روپوش ہوا چاہتا ہے۔ آپ نے لوگوں کی جذبانی حالت کو ملاحظہ
فرمایا کہ لوگ بار بار دعا کی خواہش کررہے ہیں تو آپ نے ارشاد فرمایا دوستو تم کو
مبارک ہو کہ حضرت حق تعالیٰ سبحانہ نے مجھے یہ خوشخبری دی ہے، اس طریقہ کو جو لوگ
اختیار کریں گے اور آخر تک اس پر قائم رہیں گے میں ان سب کو بخش دوں گا اور سب پر
اپنی رحمت نازل فرماؤں گا۔ پس بہت زیادہ کوشش کرو۔ یہ سننا تھا کہ لوگوں پر جوش و
جذبہ اور گریہ کی کیفیت طاری ہوگئی۔ تھوڑی دیر کے بعد آواز آئی کہ
یٰاَیَّتُھَا النَّفسُ المُطمَئِنَّةُ ارجِعِی اِلَا
رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرضِیَّة
”اے
نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف آ کہ تو اس سے راض اور وہ تجھ سے
راضی ہو“۔ یہ سن کر احباب و اصحاب نے دیکھا کہ آپ واصل باللہ ہوچکے ہیں۔ انا للہ و
انا الیہ راجعون۔ آپ کی تاریخ وصال پر مختلف آراء ہیں۔ بعض نے 616ھ، بعض نے 617ھ
اور بعض روایات میں 615ھ ہے۔ تذکرة المشائخ نقشبندیہ اور صوفیائے نقشبند نے آپ کا
وصال 12 ربیع الاول 675ھ لکھا ہے۔ اس طرح یہ آفتاب ولایت منبع علم و عرفان حضرت
خواجہ عبدالخالق غجدوانی رحمة اللہ علیہ اپنے خالق حقیقی سے جا
ملے۔
آپ کا مزار پرانوار غجدوان بخارا (موجودہ ازبکستان) میں ہی واقع
مرقع خاص و عام ہے۔

حضرت محمد عارف ریوگریرحمۃ
اللہ علیہ
محدثین، فقہاء و علماء کے حوالہ سے زرخیز زمین بخارا کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ
وہاں نامور مشائخ طریقت اولیاء اللہ کا مولد و مدفن بھی ہے۔ ایسے ہی مشائخ میں سے
طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے عظیم شیخ حضرت محمد عارف ریوگری رحمۃ اللہ علیہ بھی ایک
کامل و اکمل ولی ہیں۔ جن کی ولادت بخارا سے اٹھارہ میل کے فاصلے پر ریوگر نامی قصبہ
میں
۲۷
رجب
۵۵۱
ہجری بمطابق
۱۵
ستمبر
۱۱۵۶
عیسوی کو ہوئی۔
اس زمانہ میں ریوگر سے
۳
میل کے فاصلے پر غجدوان نامی قصبہ میں خواجۂ خواجگان
حضرت عبدالخالق غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ رہتے تھے، جن کے فیوض و برکات کا شہرہ دور
دور تک پھیلا ہوا تھا۔ حضرت محمد عارف رحمۃ اللہ علیہ بھی انکی خدمت میں حاضر ہوکر
بیعت ہوئے۔ کہتے ہیں کہ بیعت ہونے کے بعد بس آپ اپنے شیخ کے ہوکر رہ گئے اور تمام
عمر اپنے شیخ کی صحبت و خدمت میں گذاردی اور تصوف و طریقت میں کمال درجہ کو
پہنچے۔
شریعت و سنت کی پابندی، زہد و تقویٰ کے ساتھ ساتھ رشد و ہدایت میں بھی بلند مقام
رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عبدالخالق غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد آپ انکے
جانشین ہوئے اور کثیر تعداد میں لوگ آپ سے فیضیاب ہوئے۔ تصوف کے موضوع پر ”عارف
نامہ“ نامی آپ کا ایک رسالہ خانقاہ موسیٰ زئی شریف کی لائبریری میں موجود ہے۔
یکم شوال المکرم
۶۱۶
ہجری کو آپ کا انتقال ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کا
مزار پرانوار ریوگر میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔

حضرت خواجہ محمود انجیرفغنویرحمۃ
اللہ علی
آپ کی ولادت شہر بخارا سے نو میل کے فاصلہ پر مؤرخہ
۱۸
شوال
۶۲۸
ہجری انجیرفغنہ
نامی قصبہ میں ہوئی۔ آپ کا شمار حضرت خواجہ عارف ریوگری رحمۃ اللہ علیہ کے اعظم
خلفاء میں ہوتا ہے۔ اسی بناء پر حضرت عارف رحمۃ اللہ علیہ کے وصال پر آپ کو ان کا
جانشین مقرر کیا گیا۔ اور آپ نے بھی دین متین کی مثالی اشاعت کی صورت میں نیابت کا
حق ادا کیا۔
مشائخ نقشبند میں سے آپ نے بر بنائے مصلحت تقاضائے زمانہ ذکر بالجہر یعنی بلند
آواز سے ذکر کرنا جو کہ طریقہ نقشبندیہ میں مروج نہیں ہے، شروع کیا۔ جسے نامناسب
خیال کرتے ہوئے اس وقت کے عظیم محدث اور فقیہ حضرت شمس الائمہ حلوانی رحمۃ اللہ
علیہ نے حضرت حافظ الدین محدث رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں علماء کرام کا ایک وفد
حضرت محمود انجیرفغنوی قدس سرہ کی خدمت میں بھیجا اور انہوں نے ذکر بالجہر شروع
کرانے کی وجہ دریافت کی۔ تو آپ نے فرمایا ”تاکہ سویا ہوا بیدار ہو اور غفلت سے
ہوشیار ہو، راہ راست پر آجائے، شریعت و طریقت پر استقامت کرے اور توبہ و رجوع الی
اللہ کی رغبت کرے“۔ حضرت مولانا حافظ الدین محدث علیہ الرحمۃ نے عرض کیا حضور آپ کی
نیت درست ہے لیکن اس کے لیے آپ کوئی حد مقرر فرمادیں تاکہ حقیقت مجاز سے اور آشنا
بیگانہ سے ممتاز ہوجائے۔ اس پر حضرت فغنوی علیہ الرحمۃ نے ارشاد فرمایا ”ذکر جہر اس
شخص کے لیے جائز ہے جس کی زبان جھوٹ و غیبت سے پاک ہو، جس کا حلق حرام و شبہ سے اور
دل ریاء وسوسہ سے یعنی لوگوں کے دکھاوے اور سنانے سے اور اس کا دماغ غیر اللہ کی
طرف متوجہ ہونے سے پاک ہو“۔
آپ نے
۱۷
ربیع الاول
۷۱۷
ہجری کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ انا للہ وانا
الیہ راجعون۔ آپ کا مزار پر انوار بخارا میں ہے۔

حضرت عزیزاں
علی رامیتنیرحمۃ
اللہ علیہ
آپ بخارا سے دو میل کے فاصلے پر واقع رامیتن نامی گاؤں میں
۵۹۱
ہجری میں پیدا
ہوئے۔ آپ کامشہور لقب عزیزاں ہے۔ عالم و شاعر اور ولی کامل تھے۔ تصوف کے موضوع پر
آپ
نے ایک رسالہ بھی تحریر فرمایا ہے۔
آپکی باطنی نسبت حضرت خواجہ محمود انجیر فغوی ؒ سے ہے آپ ان کے خلیفہ اعظم تھے۔
آپ کی صحبت بابرکت میں ایسا اثر تھا کہ جلد ہی سالک روحانی ترقی حاصل کرلیتے
تھے۔ آپ کے درج ذیل ملفوظات سنہری الفاظ میں لکھنے کے قابل ہیں۔
”
مرد وہ ہے جس کو تجارت اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے۔ نامرد وہ
ہے جو ذکر کرے مگر خدا کے لیے نہ کرے، یعنی رضائے الٰہی کے سوا کوئی اور مقصد پیش
نظر رکھتا ہو“۔
”عمل
کرکے اسے بھلا دینا چاہیے“۔
آپ کی مشہور رباعی ہے۔
باہر کہ نشستی ونہ شد جمع دلت
وزتو نہ رمید زحمتِ آب
وگِلت
زنہار ز صحبتش گریزاں می باش
ورنہ نکند روح عزیزان
بحلت
ترجمہ: جس کی صحبت کی مگر اس سے آپ کا دل مانوس نہ ہوا اور آپ سے مٹی و پانی
والی اوصاف رخصت نہ ہوئیں ۔
یعنی اس کی صحبت سے اگر اچھے اخلاق آپ کے اندر پیدا نہ ہوئےہوں
تو چاہیے کہ لازمی طور پر اس کی صحبت چھوڑ دے ورنہ عزیزان علیہ الرحمۃ کی روح
آپ کے ساتھ نہ ہوگی۔ مجھ سے فیض حاصل نہ کرسکو گے۔ اگر فیض حاصل کرنا ہے تو غیروں
کی صحبت کو ترک کردو۔
حضرت عزیزا ںؒ بہ اشارہ غیبی بخارا سے خوازم پہنچے ۔شہر کے دروازے پر پہنچ کر آپ نے
دو درویشوں کو بادشاہ کی خدمت میں بھیجا کہ اگر اجازت ہو تو ہم اس شہر میں ٹھہر
جائیں؟ جب درویش بادشاہ کے دربار پہنچے اور مدعا بیان کیا تو بادشاہ اور
ارکان سلطنت ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ آپ کے پیر بہت سادہ اور نادان ہیں ۔پھر
ازرا ہ مذا ق اجازت نامہ دے دیا۔درویش جب اجازت نامہ لے کر آپ کی خدمت میں
پہنچے تو آپ نے شہر میں قدم رکھا اور گوشہ نشیں ہو کر اپنی عبادات میں مشغول
ہو گئے۔
آپ ہر روزصبح کے وقت مزدور گاہ سے ایک دو مزدوروں کو اپنے مکان پر لاتے اور
فرماتے کہ پورا وضو کرو اور نماز عصر تک باوضو ہمارے پاس رہو اور
ذکر کرو۔بعد ازاں اپنی مزدوری لے کر چلے جاؤ۔مزدور بہت خوشی سے ایسا کرتے اور آپ کی
صحبت میں رہتے۔جو مزدور ایک دن آپ کے پاس گزارتا آپؒ کی صحبت کی برکت سے اس
میں یہ وصف پیدا ہو جاتا کہ وہ آپ کی جدائی گوارا نہ کرتا۔اس طرح کچھ ہی مدت میں
بہت سے لوگ آپؒ کے مرید بن گئے۔
رفتہ رفتہ یہ خبر بادشاہ تک پہنچی کہ شہر میں ایک فقیر آیا ہوا ہے ۔جس کے
لوگ جوق در جوق مرید ہو رہے ہیں ۔ایسا نہ ہو کہ اس کے سبب کوئی فتنہ و فساد پیدا ہو
جائے۔بادشاہ نے اس وہم میں پڑ کر حضرت عزیزاںؒ کے اخراج کا حکم دے دیا۔
آپ نے انہی دو درویشوں کے ہاتھ وہی اجازت نامہ بادشاہ کی خدمت میں بھیج دیا اور
پیغا م دیا کہ ہم تمہارے شہر میں تمہاری ہی اجازت سے آئے ہیں ۔اب اگر تم اپنے
ہی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہو تو ہم یہاں سے چلے جاتے ہیں۔اس پر بادشاہ اور ارکان
سلطنت بہت شرمندہ ہوئے ۔ اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے محبین و مخلصین
میں شامل ہو گئے۔
ایک روز آپ کے ہاں ایک عزیز مہمان آ گیا ۔آپ پریشان تھے گھر میں کھانے
کے لیے کوئی چیز نہ تھی ۔آپ پریشان ہو کر گھر سے نکلے ۔اچانک آپ کا ایک معتقد لڑکا
کھانے کی بھری ہوئی دیگ سر پر اُٹھائے ہوئے آپہنچا اور عرض کی کہ میں
نے یہ کھانا آپ کے خادموں کے لیے تیار کیا تھااس کو شرف قبولیت بخشیں۔ آپ کو لڑکے
کی یہ خدمت بہت پسند آئی۔ جب مہمان کھانا کھا چکےتو آپؒ نے اس لڑکے کو بلا کر کہا
کہ ہم بہت خوش ہیں !مانگو جو کچھ مانگنا چاہتے ہو ۔
لڑکا بہت زیرک اور دانا تھا کہنے لگا کہ میں چاہتا ہوں کہ خواجہ عزیزاں بن جاؤں۔آپ
نے فرمایا۔یہ تو نہایت مشکل کام ہے ۔لڑکے نے کہا میری تو یہی تمنا ہے اس کے علاوہ
کوئی آرزو نہیں ہے۔آپ نے فرمایا کہ بالکل اسی طرح ہو جائے گا۔اس کے آپ اسے
پکڑ کر جلوت سے خلوت خاص میں لے گئے۔ اس پر توجہ ڈالی اور وہ تھوڑی دیر میں
آپ کی طرح کا بن گیا ۔اس واقعہ کے بعد وہ لڑکا صرف چالیس دن زندہ رہا۔
آپ کے دو بیٹے تھے ۔بڑے بیٹے کانام خواجہ خوردؒ اور چھوٹے بیٹے کا نام خواجہ
ابراہیمؒ تھا۔جب آپ کا اس دار فانی سے رخصت ہونے کا وقت قریب آیا تو آپ نے
خواجہ ابراہیم ؒ کو خلافت و اجازت فرمائی۔بعض مریدوں کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ
بڑے صا حبزادے کی موجودگی میں جو کہ زیادہ عالم وعارف ہیں ۔چھوٹے کو کیوں خلیفہ
بنایا گیا ہے۔آپ نے ان کے خطرے سے آگاہ ہو کر فرمایا کہ خواجہ ابراہیم ؒ ہمارے بعد
زیادہ دیر زندہ نہیں رہیں گے اور جلد ہمارے پاس آ جائیں گے۔چنا نچہ ایسا ہی ہوا
۔آپؒ کے وصال کے ٹھیک اُنیس زور بعد خواجہ ابراہیم ؒ کا بھی وصال ہو گیا۔
حضرت عزیزاں
۲۸ ذی قعد ۷۱۵
ہجری یا
۷۲۱
ہجری کو تقربیاً ایک سو تیس سال کی طویل عمر پاکر اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ انا
للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کا مزار
پرانوار ملک فارس کے شہر خوارزم میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔

حضرت خواجہ محمد بابا سماسیرحمۃ
اللہ علیہ
شہر بخارا سے نو میل کے فاصلہ پر واقع قریہ سماس میں آپ کی ولادت
۲۵
رجب
۵۹۱
ہجری کو ہوئی۔ اسی لیے آپ کو سماسی کہا جاتا ہے۔ جذبات و وارادت کا آپ پر غلبہ رہتا
تھا۔ حضرت عزیزان علی رامیتنی رحمۃ اللہ علیہ کے اکابر خلفاء میں شمار ہوتا ہے۔
حضرت عزیزان علی رامیتنی نے رحلت کے وقت آپ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا اور اپنے
تمام مریدین کو آپ کی ارادت کاحکم فرمایا۔
حضرت شاہ نقشبند قدس سرہ کی جائے ولادت قصر ہندوان جو کہ بخارا سے تین میل کی
فاصلہ پر ہے، سے گذرتے ہوئے فرماتے تھے ”زود باشد کہ ایں قصر ہندواں قصر عارفاں
گردد“ عنقریب یہ جگہ قصر ہندواں سے بدل کر قصر عارفاں بن جائے گی۔ چنانچہ جب حضرت
شاہ نقشبند قدس سرہ کی ولادت ہوئی اور آپ کے جد امجد آپ کو دعائے برکت کے لیے حضرت
بابا سماسی کے پاس لائے تو حضرت بابا سماسی نے حضرت شاہ نقشبند کو اپنی فرزندی میں
قبول فرمایا اور انکے متعلق ارشاد فرمایا یہ لڑکا عنقریب اپنے وقت کا امام مقتدیٰ
بنے گا۔
حضرت خواجہ نقشبند فرماتے ہیں کہ جب میری عمر
۱۸
سال ہوئی اور میری شادی کا
پروگرام بنا تو میں حضرت بابا سماسی قدس سرہ کی خدمت میں دعوت لیکر حاضر ہوا۔ حضور
کی صحبت کی برکت سے اس رات مجھ پر گریہ زاری کا غلبہ ہوا۔ صبح کو لنگر کھانے کے بعد
آپ نے مجھے ایک روٹی ساتھ لے چلنے کو کہا، میں نے ہچکچاہٹ محسوس کی تو فرمایا رکھ
لو کام آئیگی۔ چنانچہ حضور میرے ساتھ روانہ ہوئے۔ راستہ میں ایک مخلص ملا۔ نہایت
درجہ خوش ہوا اور آپ کو دعوت دے کر گھر لے گیا۔ اس کو بے چین دیکھ کر حضور نے
فرمایا سچ سچ بتاؤ کیا بات ہے۔ کہنے لگا حضور گھر میں پنیر تو موجود ہے مگر روٹی
موجود نہیں ہے۔ آپ نے میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا وہ روٹی نکالو تم نے دیکھا آخر وہ
روٹی کام آہی گئی۔
آخر عمر میں حضرت بابا سماسی قدس سرہ نے بطور خاص اپنے خلیفہ
نائب حضرت امیر کلال علیہ الرحمۃ سے فرمایا تھا ”تم میرے اس فرزند بہاؤالدین کے حق
میں تربیت و شفقت میں ہرگز کوتاہی نہ کرنا“ چنانچہ حضرت امیر کلال نے آپکی عمدہ
تربیت کی اور الحمدللہ آپ کی یہ پیشنگوئی سو فیصد درست ثابت ہوئی اور قصر عارفاں
بخارا سے نقشبندی فیض دنیا بھر میں پھیلا اور پھیل رہا ہے۔
آپ
۱۰
جمادی
الآخر
۷۵۵
ہجری میں اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کا مزار پرانوار
بھی قریہ
سماس میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔

حضرت سید شمس الدین امیر کلالرحمۃ
اللہ علیہ
آپ عالی نسب سید سادات میں سے ہیں۔ آپ شہر بخارا سے چھ
میل کے فاصلہ پر سوخار نامی قصبہ میں
۶۷۶
ہجری میں پیدا ہوئے۔آپ کوزہ گری کاشوق رکھتےتھے۔ فارسی زبان میں کوزہ گرکو کلال
کہتےہیں لہذاآپ امیر کلال کےنام سےمشہورہوئے۔
معاش کا ذریعہ زراعت
تھا۔ طاقت ور پہلوان تھے، شوق سے کشتی کھیلا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ لوگوں کا
مجمع لگا ہوا تھا، کشتی کا کھیل شروع تھا کہ وہاں سے حضرت بابا سماسی قدس سرہ کا
گذر ہوا تو آپ وہیں کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے ”یہاں موجود ایک شخص سے بندگان خدا
کو فیض پہنچے گا، میں اسی لیے کھڑا ہوں“۔اسی اثنا مین حضرت امیر کلال ؒکی نظرحضرت
بابا سماسیؒ پر پڑی اسی وقت حضرت بابا سماسیؒ نےاپنی قوت جاذبہ سے آپ کو اپنی طرف
کھینچ لیا چنانچہ یہ سیدزادے اسی وقت سے حضرت بابا
سماسی علیہ الرحمۃ کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ صحبت و خدمت میں رہ کر آپ کے خلیفہ بلکہ
جانشین بنے۔اس کے بعد حضرت امیر کو کسی نے کشتی لڑتے ہوئے
نہیں دیکھا۔
آپ فنافی الشیخ کی سچی تصویرتھے۔ متواترآٹھ سال تک بلاناغہ پیراورجمعتہ
المبارک کےروزنمازمغرب سوخارمیں پڑھ کر سماس کو روانہ ہوجاتےجوسوخارسےپندرہ میل
کےفاصلےپرواقع ہےاورعشاءکی نمازحضرت باباسماسی کی اقتدامیں ادا کرتےتھے۔ پھرصبح
صادق واپس روانہ ہوجاتےاورنمازفجرسوخارمیں آکرپڑھتے۔ آپ کی زندگی میں کسی کوبھی اس
حال کی خبرنہ ہوئی۔
ایک دفعہ امیر تیمور نے سمر قند سے ایک قاصد آپ کی خدمت میں بھیجا کہ
اس کی ولایت کو قدم مبارک سے مشرف کریں۔آپ نے اپنے صاحبزادے امیر عمر کو عذر خواہی
کے لیے بھیجا اور کہا کہ اگر امیر تیمور تمہیں کوئی جاگیر یا انعام دے تو مت
قبول کرنا۔اگر تم قبول کرو گے تو اپنے جد بزرگوار حضرت محمد ﷺ کے خلاف کرو گے۔
امیر تیمور نے آپ کو تمام بخارا عطا کیا لیکن آپ نے قبول نہ کیا۔امیر تیمور نے
کہا اگر سارا نہیں تو کچھ حصہ قبول کر لیجیے امیر عمر نے پھر انکار کیا اور کہا کہ
اجازت نہیں ہے۔امیر تیمور نے کہا کہ حضرت امیر کلالؒ کو کیا لکھ بھیجوں کہ ہمارا
تقرب درویشوں میں ہو جا ئے۔سید امیر عمر نے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا تقرب
درویشوں میں ہو جائے تو تقویٰ اور عدل کو اپنا شعار بنا لو کیونکہ اللہ تعالیٰ اور
خاصان حق کے تقرب کا یہی راستہ ہے۔
آپ کے انتقال کے بعد مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے صوفیا کی ایک جماعت
بخارا میں آئی اور قصبہ سوخار کا پوچھا ۔لوگوں کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ
حضرت امیر کلالؒ کی زیارت کے لیے آئے ہیں۔لوگوں نے بتایا کہ وہ تو رحلت فرما گئے
ہیں۔اُنہوں نے آپ کی اولاد سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ۔چنانچہ وہ سوخار آئے اور آپ
کی اولاد سے ملے اور حضرت کے کمالات کا ذکر کرنے لگے۔
آپ ؒ کی اولاد اور لوگوں نے ان صوفیا سے کہا کہ حضرت امیر کلالؒ تو کبھی
مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ گئے ہی نہیں ! آپ ان کو کیسے جانتے
ہیں۔صوفیا بولے کہ حرمین شریفین میں آپ کے بہت سے مرید جن مین ہم بھی شامل
ہیں۔اس سال ہم نے انہیں دیکھا نہیں اس لیے ان کے جمال کی کشش ہمیں یہاں کھینچ لائی
مگر افسو س کہ آپ وصال فرما گئے ہیں۔
اس کے ان صوفیا نے آپ کے مزار پر حاضری دی اور ارادت مندوں کی طرح آنسو بہائے۔پھر
سب خدا حافظ کہہ کر چل دیئے۔
آپ کے باکمال اور صاحب فیض ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ طریقہ عالیہ
نقشبندیہ کے عظیم پیشوا حضرت سید بہاؤالدین نقشبند بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیر و
مرشد ہیں۔
آپ
بروز بدھ
۲
جمادی الآخر
۷۷۲
ہجری کو اس دار فانی عالم بقا کی طرف روانہ
ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کا مزار سوخار ہی میں زیارت گاہ اور مرکز رشد و
ہدایت ہے۔

حضرت خواجہ خواجگان بہاؤالدین نقشبند بخاری
ارحمۃللہ علیہ
آپ
کا اسم شریف محمد اور والد گرامی کا نام بھی محمد ہے۔ اسلامی تاریخی شہر
بخارا سے تین میل کے فاصلہ پر قصر ہندواں نامی قصبہ میں محرم الحرام
۷۲۸
ہجری میں
پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے آپکی پیشانی پر آثار ولایت و ہدایت نمایاں تھے اور یہ کیوں
نہ ہوں جبکہ آپکی ولادت سے بھی پہلے وہاں سے گذرتے ہوئے قطب عالم حضرت محمد بابا
سماسی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ مجھے یہاں سے ایک مرد خدا کی خوشبو آتی ہے۔
ایک اور مرتبہ فرمایا اب وہ خوشبو زیادہ ہوگئی ہے اور جب آپ پیدا ہوئے اور دعا کے
لیے آپ کے پاس لائے گئے تو انہیں اپنی فرزندی میں قبول فرمایا اور توجہات سے نوازا۔
اس طرح حضرت شاہ نقشبند کی ابتدائی روحانی تربیت بابا سماسی نے کی اور بعد میں آپ
کو حضرت سید امیر کلال کے سپرد فرمایا۔
گو آپ نے ظاہری طور پر طریقت کی تعلیم و تربیت حضرت سید امیر کلال سے حاصل کی
لیکن روحانی طور پر آپکی تربیت حضرت قطب عالم عبدالخالق غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ نے
اویسی طریقہ پر فرمائی۔ چنانچہ خود فرماتے ہیں میں اوائل احوال میں جذبات و بیقراری
کے عالم میں راتوں کو اطراف بخارا میں پھرا کرتا تھا اور ہر مزار پر جاتا تھا۔
ایک
رات میں تین مزارات پر گیا۔ آخر میں جس بزرگ کے مزار پر گیا وہاں حالت بے خودی میں
میں نے دیکھا کہ قبلہ کی جانب سے دیوار شق ہوگئی اور ایک بڑا تخت ظاہر ہوا جس پر
ایک بزرگ تشریف فرما تھے۔ الغرض ایک شخص نے مجھے بتایا کہ یہ حضرت عبدالخالق
غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ میں نے حضرت خواجہ کی خدمت میں سلام عرض کیا۔ آپ نے
سلام کا جواب دیا اور وہ ارشادات فرمائے جو سلوک کے ابتداء اور درمیان و انتہا سے
تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی مکمل سلوک کی تعلیم دیدی۔ اس موقعہ پر تاکیدی طور پر آپ نے
مجھے ارشاد فرمایا استقامت سے شریعت کے شاہراہ پر چلنا۔ کبھی اس سے قدم باہر نہ
نکالنا۔ عزیمت اور سنت پر عمل کرنا اور بدعت سے دور رہنا۔ اسی لیے مدت العمر آپ
شریعت و سنت پر کاربند رہے اور اتباع شریعت اور رسم و بدعت سے نفرت طریقہ عالیہ
نقشبندیہ کی امتیازی علامات ہیں۔ نقشبندی سلسلہ آپ کی طرف منسوب ہے۔ طریقہ عالیہ
نقشبندیہ کی تین اصطلاحات وقوف زمانی، وقوف عددی اور وقوف قلبی شاہ نقشبند قدس سرہ
نے مقرر فرمائی ہیں اور آپ اویسی بھی ہیں کہ آپ کو روحانی نسب حضرت خواجہ عبدالخالق
سے حاصل ہوئی۔
آپ کا وصال بروز پیر
۳
ربیع الاول
۷۹۱
ہجری میں
۷۳
برس کی عمر میں قصر عارفاں
میں ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مزار شریف قصر عارفاں نزد بخارا میں زیارت گاہ
خاص و عام ہے۔ مشہور یہ ہے کہ حضرت نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے جنازہ کے سامنے یہ
شعر پڑھا جائے
مفلسانیم آمدہ در کوئے تو
شیئا للہ از جمال روئے
تو
ترجمہ: میرے مولیٰ میں ایک مفلس کی حیثیت سے آپکی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں،
خدارا اپنا جلوہ جہاں آرا مجھے دکھادے۔

شیخ علاؤالدین عطاررحمۃ
اللہ علیہ
حضرت علاؤالدین قدس سرہ خواجۂ خواجگان حضرت بہاؤالدین نقشبند بخاری قدس سرہ کے
خلیفہ اول اور نائب
مطلق تھے۔ آپ کا اسم مبارک محمد بن محمد بخاریؒ تھا ۔جب آپ کے والد ماجد نے وفات
پائی تو ااپ نے ان کے ترکہ سے کوئی چیز قبول نہ کی اور حالت تجرید میں بخارا کے ایک
مدرسے میں داخل ہو گئے۔شروع ہی سے آپ کی طبیعت فقر کی طرف مائل تھی۔
ایک دن خواجہ نقشبند ؒ اس مدرسے میں تشریف لائےجہاں آپ تعلیم حاصل کر
رہے تھے۔آپ نے حضرت خواجہ نقشبندؒ کی نورانی شکل دیکھی تو اٹھ کر آپ کی
تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے۔حضرت خواجہ نقشبندؒ نے آپ میں بزرگی کے آثار دیکھ لیے
تھے اسی لیےلڑکپن
ہی سے آپ پر حضرت شاہ نقشبند کی خصوصی نظر
عنایت رہی۔
حضرت خواجہ نقشبندؒ آپ سے اس قدر متاثر ہوئے
کہ تھوڑے ہی عرصے بعد اپنی صاھب زادی کا نکاح آپ سے کر دیا۔حضرت خواجہ نقشبند ؒ کی
آپ پر خاص نطر تھی مجالس میں آپ کو اپنے پاس بٹھاتے اور بار بار آپ کی طرف متوجہ
ہوتے۔بعض لوگوں نے حضرت خواجہؒ سے اس کا سبب دریافت کیا تو آپ نے
ارشاد فرمایا کہ میں اس کو اس لئے اپنے پاس بٹھاتا ہوں تا کہ ان کو
بھڑیا نہ کھا جائے۔ ان کے نفس کا بھڑیا گھات لگا ئے بیٹھا ہے اس لے ہر لحظہ ان کا
حا ل دریافت کرتا رہتا ہوں۔ چنانچہ حضرت خواجہ نقشبندؒ کی خاص توجہ سے آپ بہت جلد
درجہ کمال پر پہنچ گئے۔
آپ حضرت شیخ قدس سرہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اتباع سنت اور عمل بہ
حزیمت کا خصوصی اہتمام رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نامور علماء کرام نے بھی آپ کی طرف
رجوع کیا۔ علوم عقلیہ و نقلیہ کے ماہر اور مختلف علوم و فنون میں مثالی درسی کتب کے
مصنف حضرت علامہ شریف جرجانی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے متعلق فرماتے ہیں۔ ”و اللہ ما
عرفت الحق سبحانہ وتعالیٰ کما ینبغی مالم اصل الیٰ خدمۃ العطار البخاری“ کہ خدا کی
قسم میں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو جیسا چاہیے نہیں پہچانا تھا جب تک کہ میں حضرت
علاؤالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچا۔
بروز بدھ
۲۰
رجب المرجب
۸۰۴
ہجری کو اس فانی جہاں سے کوچ فرما گئے۔ انا للہ وانا
الیہ راجعون۔ مزار مبارک موضع جفانیاں ماوراء النہر کے علاقہ میں ہے۔

شیخ خواجہ یعقوب بن عثمان چرخیرحمۃ
اللہ علیہ
آپ کی ولادت غزنی کے چرخ نامی گاؤں میں
۷۶۲
ہجری میں ہوئی۔ آپ کے والد حضرت خواجہ عثمان بن محمودؒ ایک بلند پایہ عالم اور
صوفی تھے۔حضرت یعقوب چرخی ؒ نے جامعہ ہرات اور دیار مصر میں تعلیم حاصل کی۔ آپ
مولانا شہاب الدین سیرامیؒ کے شاگرد تھے جو اپنے زمانے کے مشہور عالم
تھے۔آ پ کو فتویٰ کی اجازت علمائے بخارا نے دی۔
حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبندؒ کی خدمت میں حاضرہونےسےپہلےآپ کو ان سےبڑی محبت
اورعقیدت تھی۔ جب آپ اجازت فتویٰ حاصل کرکےبخاراسےواپس چرخ جانےلگےتوایک دن حضرت
خواجہ نقشبندؒ کی خدمت میں حاضر ہوئےاور نہایت عاجزی اور انکساری کےساتھ عرض کیا
میری طرف توجہ فرمائیں۔ حضرت خواجہ نقشبندؒ نےفرمایاکیا اس وقت جبکہ تم سفرکی حالت
میں ہو؟ آپ نےعرض کیا میں آپ کی خدمت میں رہنا چاہتا ہوں۔ حضرت خواجہ نقشبندؒ نے
فرمایا کہ کیوں؟ آپ نےعرض کیا اس لئےکہ آپ بزرگ ہیں اور لوگوں میں مقبول ہیں۔ حضرت
خواجہ نقشبندؒ نے فرمایا کوئی اچھی دلیل ؟ممکن ہے کہ یہ قول شیطانی ہو۔ آپ نے بڑے
احترام سے کہا کہ حدیث شریف میں آیاہے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ بندےکو اپنا دوست
بناتاہےاس کی محبت اپنےبندوں کے دلون میں ڈال دیتا ہے۔ اس کے بعد حضرت خواجہ
نقشبندؒ نے تبسم فرماتےہوئےکہا ۔ماعزیزانیم۔
اس کےبعدآپ نےحضرت خواجہ نقشبندؒ سےالتماس کی کہ میری طرف بھی توجہ فرمائیں۔ حضرت
خواجہ نقشبندؒ نےفرمایا ایک شخص نے حضرت عزیزاںؒ سے توجہ طلب کی تو انہوں
نےفرمایاکہ غیرتوجہ میں نہیں رہتا کوئی چیزہمارے پاس رکھوتاکہ جب میں اسےدیکھوں تو
تم یادآجاؤ۔
پھر حضرت خواجہ نقشبندؒ نےآپ سےفرمایاکہ تمہارےپاس تو ایسی کوئی چیزنہیں کہ
ہمارےپاس رکھ جاؤ۔ لہذاہمارا کلاہ ساتھ لےجاؤ جب اسےدیکھ کر ہمیں یاد کروگےتوہمیں
پاؤگےاوراس کی برکت تمہارےخاندان میں رہےگی۔ پھرفرمایااس سفر میں مولانا تاج الدین
دشتی کولکیؒ سے ضرورملناکیونکہ وہ ولی اللہ ہیں۔ پھرآپ نے حضرت خواجہ نقشبندؒ
سےاجازت لی اور بخاراسےبلخ کی طرف چل پڑے۔
بلخ سےآپ کولک کی طرف روانہ ہوئے۔ یہاں آپ نےبہت تلاش کےبعدحضرت مولاناتاج الدین
دشتیؒ کو پالیا۔ اس ملاقات میں حضرت دشتیؒ کا جورابطہ محبت حضرت خواجہ نقشبندؒ
سےتھااس نےآپ کے دل پر اس قدر اثرکیاکہ آپ دوبارہ بخارا کی طرف چل پڑےاورارادہ
کیاکہ حضرت خواجہ نقشبندؒ کےدست مبارک پر بیعت کریں گے۔
خواجہ یعقوب چرخیؒ فرماتے ہیں کہ جب میں اس ارادےسےبخاراکی طرف جارہاتھاتوراستےمیں
مجھےایک مجذوب ملاتو میں نے ان سےپوچھاکیامیں حضرت خواجہ نقشبندؒ کی خدمت میں جاؤں
تو اس مجذوب نے کہاجلدی جاؤ۔اس کےبعد مجذوب نےاپنےسامنےزمین پر بہت سی لکیریں
کھینچی۔ میں نےدل میں خیال کیاکہ اگر یہ لکیریں مفردہوئیں تومیرامطلب ومقصدحل
ہوجائےگا۔ جب گنی تو مفرد ہی نکلیں۔
اس واقعہ کےبعدآپ کا اشتیاق اور بڑھااورشام کےوقت فتح آبادمیں جواس فقیرکامسکن
تھاشیخ عالم سیف الدین و خرزی ؒ کےمزارکی طرف متوجہ ہوکربیٹھےتھےکہ آپ کےدل میں
باطنی بےقراری پیداہوئی اورآپ اسی وقت حضرت خواجہ نقشبندؒ سےملنےقصرعارفاں کی طرف
چل پڑے۔ جب آپ قصرعارفاں پہنچے توحضرت خواجہ نقشبندؒ پہلےہی آپ کے
منتظرتھےاورنمازمغر ب کے بعد صحبت کا شرف بخشا۔ پھرآپ نےدرخواست کی کےآپ از
راہ کرم مجھےاپنےحلقہ ارادت میں شامل کرلیں ۔ جس پر حضرت خواجہ نقشبندؒ نےحدیث شریف
پڑھی جسکاترجمہ یہ ہے:
۔۔۔علم دو ہیں۔ ایک قلب کا علم جو نفع بخش ہے اور یہ نبیوں اور رسولوں کاعلم ہے۔
دوسرازبان کا علم اور یہ بنی آدم پر حجت ہے۔۔۔
اس کےبعدفرمایاکہ امیدہےکہ علم باطن سےتمہیں حصہ ملےگااس کےبعدپھرحدیث پڑھی جس
کاترجمہ یہ ہے:
۔۔۔جب تم اہل صدق دل کی صحبت میں بیٹھوتوان کےپاس صدق سےبیٹھوکیونکہ وہ دلوں
کےبھیدجانتےہیں ،وہ تمہارےدلوں میں داخل ہوجاتےہیں اور تمہارےارادےاورنیتوں کودیکھ
لیتےہیں۔۔۔
اس کےبعدفرمایاہم مامورہیں ہم خودکسی کوقبول نہیں کرتے۔آج رات دیکھیں گےکہ کیااشارہ
ہوتاہے،اسی پرہی عمل کیاجائےگا۔
حضرت یعقوب چرخی فرماتےہیں کہ یہ رات مجھ پربڑی بھاری تھی۔ مجھےیہ غم
کھائےجارہاتھاکہ شاید حضرت خواجہ ؒ مجھےقبول نہ کریں۔اگلےروزحضرت یعقوب چرخیؒ نے
فجرکی نمازحضرت خواجہ نقشبندؒ کےساتھ اداکی۔ نمازکےبعدحضرت خواجہ نقشبندؒ نےآپ کو
مخاطب کرکےفرمایامبارک ہوقبولیت کا اشارہ ہواہے۔ پھر اپنے مشائخ کاسلسلہ حضرت خواجہ
عبدالخالق غجدوانیؒ تک بیان کیااورآپ کو وقوٖف عددی میں مشغول کیااورفرمایایہ علم
الدنی کا پہلاسبق ہےجوحضرت خواجہ خضرعلیہ السلام نےہمارےبزرگ حضرت خواجہ عبدالخالق
غجدوانیؒ کو پڑھایاتھا۔
شرف بیعت حاصل کرنےکےبعدآپ ایک عرصہ تک خواجہ نقشبندؒ کی خدمت میں رہے۔اس دوران
حضرت خواجہ علاؤالدین عطارؒسےتکمیل تعلیم و تربیت کرتے رہے۔پھرحضرت خواجہ
نقشبندؒ نے آپ کو بخاراسےجانےکی اجازت دی اور بوقت رخصت فرمایاہم سےجوکچھ تمہیں
ملاہےاس کوبندگان خداتک پہنچاؤ۔ پھرتین بارفرمایاترابخداسپردیم(ہم
نےتجھےخداکےسپردکیا)اوراشارۃً حضرت خواجہ علاؤالدین عطار کی پیروی کرنےکاحکم
فرمایا۔
جب آپ بخاراسےچل کرکُش پہنچےجو اصفہان کاایک قصبہ ہےتووہاں آپ کو حضرت خواجہ
نقشبندؒ کےوصال کی اطلاع ملی جس سےآپ کو بہت صدمہ ہوا۔ کیونکہ آپ حضرت خواجہ
نقشبندؒ کی صحبت سےمحروم ہوگئےتھے لہذادل میں خیال آیاکہ درویشوں کےکسی گروہ
سےجاملوں کہ حضرت خواجہ نقشبندؒ ظاہرہوئےاورقرآن مجید کی سورۃ آل عمران کی آیت
۱۴۴پڑھی جس کاترجمہ یہ ہے:
"(حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف رسول ہی ہیں اس سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے
کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا شہید ہوجائیں تو اسلام سے اپنی ایڑیوں کےبل پھر
جاؤ گے"
پھرایک حدیث پڑھی جس کا ترجمہ یہ ہے:
"زیدبن حارثؓ نے فرمایادین ایک ہی ہے"
حضرت یعقوب چرخی ؒفرماتےہیں کہ اس سےمیں سمجھ گیاکہ کہیں اورجانےکی اجازت نہیں ہے۔
اس کےبعدآپ کُش سےبدخشاں چلے گئےجہاں حضرت خواجہ علاؤالدین عطارؒ کاچغانیاں سےخط
موصول ہواجس میں انہوں نےاشارہ متابت یاد کرایا۔ چنانچہ آپ فوراً چغانیاں کوروانہ
ہوگئےاورحضرت خواجہ علاؤالدین عطارؒ کی صحبت کا شرف حاصل کیا۔ آپ چند برس تک ان کی
صحبت میں رہے۔حضرت یعقوب چرخیؒ فرماتےہیں کہ حضرت خواجہ علاؤالدین عطارؒکی نظر
التفات اس فقیرکےحال پر سب سےزیادہ تھی۔ آپ کاشمارخواجہ علاؤالدینؒ کےبہترین خلفاء
میں ہوتاہے۔
آپ کی بہت سی کرامات ہیں لیکن بخوف طوالت ایک کرامت درج کی جاتی ہے۔ حضرت خواجہ
عبید
اللہ احرارؒ اپنے بیعت ہونےکاواقعہ بیان فرماتےہیں کہتےہیں کہ جب میں نے ہرات کےایک
سوداگرسےحضرت خواجہ یعقوب چرخی ؒ کے فضائل سنےتوان سے ملنےکےلئےچرخ جانےکےلئےروانہ
ہوا۔ جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہواتووہ بڑی لطف وخرم سےپیش آئےاورحضرت خواجہ
نقشبندؒ سےاپنی ملاقات کاحال بیان فرماکراپناہاتھ میری طرف بڑھایا کہاکہ بیعت
کر۔کیونکہ ان کی پیشانی مبارک پر کچھ سفید ی مشابہ برص تھی جو طبیعت کی نفرت
کا موجب ہوتی ہے۔اس لیے میری طبیعت ان کا ہاتھ پکڑنے کی طرف مائل نہ ہوئی۔وہ میری
کراہت کو سمجھ گئےاور جلدی اپنا ہاتھ ہٹا لیااور صورت تبدیل کرکے ایسے خوبصورت اور
شاندار لباس میں ظاہر ہوئے کہ میں بے اختیار ہو گیا قریب تھا کہ میں بے خود ہو کر
آپ سے لپٹ جاؤں آپ نے دوسری دفعہ اپنا دست مبارک بڑھایا اور فرمایا کہ حضرت خواجہ
نقشبندؒ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا تھا کہ تیرا ہاتھ ہمارا ہاتھ ہے جس نے تمہارا
ہاتھ پکڑا اس نے ہمارا ہاتھ پکڑا۔حضرت خواجہ بہاالدین نقشبندؒ کا ہاتھ پکڑ لو۔ میں
نے بلا توقف اُن کا ہاتھ پکڑ لیا۔
آپ کی بہت سی تصنیفات ہیں جن کے نا م درج ذیل ہیں۔
آپ نے سب سےپہلےتاجک زبان میں قرآن شریف کاترجمہ کیاتھا۔
تفسیر یعقوب چرخیؒ، رسالہ نائیہ، رسالہ انسیہ، شرح رباعی ابوسعیدابی الخیرؒ،
ابدالیہ، شرح اسماءاللہ، مخطوطات، قرآن شریف کاتاجک زبان میں ترجمہ، دسالہ
دوبارہ اصحاب وعلاماتِ قیامت۔
۵
صفر المظفر
۸۵۱
ہجری میں آپ کی وفات ہوئی۔ انا للہ وانا الیہ
راجعون۔ تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ کے نزدیک ہلغنون، گلستان نامی گاؤں میں آپ
کا مرقد مبارک مرکز فیوض و ہدایت ہے۔

حضرت خواجہ عبیداللہ احرار
رحمۃ اللہ علیہ
آپ کی ولادت ماہ رمضان المبارک
۸۰۶
ہجری میں حضرت خواجہ محمود بن خواجہ شہاب
الدین قدس سرہ کے گھر تاشقند کے قریب باغستان میں ہوئی۔ آپ کا اسم شریف عبیداللہ،
لقب ناصر الدین اور احرار ہے، زیادہ مشہور لقب احرار ہے۔
آپ کا اہل خانہ ایک طرف تو
امیر کبیر صاحب دولت و ثروت تھا تو دوسری طرف اہل ذکر صاحب فیض و کمال۔ آپ کے جد
امجد حضرت شہاب الدین علیہ الرحمۃ نے جب آخری وقت میں الوداع کہنے کے لیے اپنے
پوتوں کو بلایا تو قریب آنے پر کم سن حضرت عبیداللہ کے استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے
اور پھر گود میں لیکر فرمایا اس فرزند کے بارے میں مجھے شہادت نبوی صلّی اللہ علیہ
وسلم ملی ہے کہ یہ پیر عالمگیر ہوگا اور اس سے شریعت و طریقت کو رونق حاصل ہوگی۔
یہی وجہ ہے کہ بچپن ہی سے آپ کو بزرگوں کی زیارت و ملاقات کا شوق ذوق رہا۔ بہت سے
بزرگان دین کے مزارات پر حاضری دی اور فیض حاصل کیا۔ چنانچہ
۲۲
سے
۲۹
برس کے عمر تک
آپ سفر میں رہے۔ ایک مرتبہ آپ ہرات میں تھے کہ ایک سوداگر نے آپ سے حضرت خواجہ محمد
یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ کے فیض پراثر کی تعریف کی تو اسی وقت بلخ کے راستے
ملاقات کے لیے روانہ ہوئے۔ جاتے ہوئے ان کے مرشد پاک خواجہ علاؤالدین عطار رحمۃ
اللہ علیہ کے مزار پرانوار کی زیارت کی۔
جب حضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت احرار
علیہ الرحمۃ نے خود اپنی اس ملاقات کا اس طرح ذکر فرمایا۔فرماتےہیں کہتےہیں کہ جب
میں نے ہرات کےایک سوداگرسےحضرت خواجہ یعقوب چرخی ؒ کے فضائل سنےتوان سے
ملنےکےلئےچرخ جانےکےلئےروانہ ہوا۔ جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہواتووہ بڑی لطف وخرم
سےپیش آئےاورحضرت خواجہ نقشبندؒ سےاپنی ملاقات کاحال بیان فرماکراپناہاتھ میری طرف
بڑھایا کہاکہ بیعت کر۔کیونکہ ان کی پیشانی مبارک پر کچھ سفید ی مشابہ برص تھی
جو طبیعت کی نفرت کا موجب ہوتی ہے۔اس لیے میری طبیعت ان کا ہاتھ پکڑنے کی طرف مائل
نہ ہوئی۔وہ میری کراہت کو سمجھ گئےاور جلدی اپنا ہاتھ ہٹا لیااور صورت تبدیل کرکے
ایسے خوبصورت اور شاندار لباس میں ظاہر ہوئے کہ میں بے اختیار ہو گیا قریب
تھا کہ میں بے خود ہو کر آپ سے لپٹ جاؤں آپ نے دوسری دفعہ اپنا دست مبارک بڑھایا
اور فرمایا کہ حضرت خواجہ نقشبندؒ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا تھا کہ تیرا ہاتھ
ہمارا ہاتھ ہے جس نے تمہارا ہاتھ پکڑا اس نے ہمارا ہاتھ پکڑا۔حضرت خواجہ بہاالدین
نقشبندؒ کا ہاتھ پکڑ لو۔ میں نے بلا توقف اُن کا ہاتھ پکڑ لیا۔
حضرت یعقوب چرخی
قدس سرہ نے آپ کی روحانی
تربیت فرمائی اور جلد ہی خلافت و اجازت سے سرفراز فرمایا“۔ حضرت مولانا عبدالرحمٰن
جامی قدس سرہ جو آپ کے خلفاء میں سے ہیں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ حضرت خواجہ یعقوب
چرخی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جو طالب کسی بزرگ کی صحبت میں جانا چاہے تو اسے
عبیداللہ احرار کی طرح جانا چاہیے کہ چراغ بتی اور تیل سب تیار ہے صرف دیا سلائی
دکھانے کی دیر ہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر قبولیت عامہ عطا فرمائی تھی کہ بعض
اوقات فرمایا کرتے تھے اگر میں پیری مریدی کروں تو کسی اور پیر کو مرید میسر نہ
آئیں، مگر میرے ذریعے دوسرا کام لگایا گیا ہے اور وہ ہے شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا
الصلوٰۃ والسلام کی ترویج و اشاعت۔
دو درویش دور دراز کا سفر کرکے آپ کی زیارت کے لیے جب خانقاہ پہنچے
تو معلوم ہوا کہ خواجہ عبید اللہ احرارؒ بادشاہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔وہ
درویش سخت حیران ہوئے کہ یہ کیسے شیح ہیں جو بادشاہ کے پاس جاتے ہیں۔کیونکہ فقیر جو
امیر کے دروازے پر جاتا ہے بُرا ہے۔یہ سوچ کر وہاں ے نکل پڑے۔
اتفاقاً اُسی وقت بادشاہ کے دربار سے دو چور بھاگ بھاگ گئے۔ان کو تلاش کرتے کرتے
بادشاہ کے آدمیوں نے ان دونوں درویشوں کو پکڑ لیا ۔بادشاہ نے حکم دیا کہ ان دونوں
کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں ۔حضرت خواجہ احرارؒ اس وقت بادشاہ کے پاس جلوہ افروز
تھے۔فرمانے لگے کہ یہ دونوں درویش چور نہیں بلکہ مجھ سے ملنے کے لیے آئے ہیں۔ان کو
چھوڑ دو۔پھر آپ ان دونوں درویشوں اپنے ساتھ خانقاہ میں لے آئےاور فرمایا کہ
میں بادشاہ کے پاس اس لیے گیا تھا کہ تمہارے ہاتھ قطع ہونے سے بچاؤں۔اگر میں وہاں
نہ ہوتا تو تمہارے ہاتھ قطع ہو چکے ہو تے۔اور تمہارے دل میں جو خیال آیا کہ
فقیر جو امیر کے دروازے پر جاتا ہے بُرا ہے۔اگر میں طمع دنیا کے واسطے وہاں جاتا تو
غلط تھا۔ یہ سن کر دونوں درویش شرمسار ہوئے اور قدموں میں گر گئے۔
حضرت احرار رحمۃ اللہ علیہ کے مریدین و معتقدین
میں جہاں درویش، فقراء نظر آتے ہیں وہاں بڑی تعداد میں امراء اور ولی بھی باادب
کھڑے نظر آتے ہیں۔
۲۹
ربیع الاول
۸۹۵
ہجری کوجب آپ کا نفس شریف منقطع ہونے لگاتو مکان میں بہت سی شمعیں روشن کیں گیئں جن
سے وہ مکان نہایت راشن ہو گیا۔اس اثنا میں آپ کے دونوں ابروں کے درمیان چمکتی ہوئی
بجلی کی طرح نور نمودار ہوا جس کی شعاع نے تمام شمعوں کے نور کو مات کر دیا۔تمام
حاضرین نے اس نور کا مشاہدہ کیااسی دوران آپ کی روح قفس عُنصری سے پرواز کر گئی۔
انا للہ وانا الیہ
راجعون۔ کوچہ ملایان سمرقند میں آپ کی آخری آرامگاہ ہے۔

حضرت خواجہ محمد زاہد وخشی
رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ بخارا کے علاقہ حصار کی نواحی بستی وخش میں
۱۴
شوال
۸۵۶ھ
بمطابق
۱۴۴۸ع
کو اس دنیاء دنی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدین صاحبِ تقویٰ اور بزرگ انسان تھے۔ اسی
لئے حضرت
خواجہ محمد زاہد علیہ الرحمة کی طبیعت مبارک ابتدا سے ہی درویشانہ رہی۔
ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے ہی
حاصل کی۔ چونکہ آپ حضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمة اللہ علیہ کے نواسہ ہیں، اس لئے آپ
نے طریقت کے ابتدائی اسباق یعنی ذکر کی تلقین آپ کے کسی خلیفہ سے حاصل کی تھی۔
باوجود کوشش کے ان کام نام معلوم نہ ہوسکا۔ اس کے بعد آپ ریاضت و مجاہدہ میں مشغول
ہوگئے ۔
آپ کے اندر انوارات الٰہیہ کو جذب کرنے کی بے پناہ قوت پیدا ہوگئی تھی۔
اسی دوران آپ کے کان میں حضرت خواجہ عبیداللہ احرار قدس سرہ کے فیض کا آوازہ پہنچا
تو آپ نے حصار سے سمرقند کی طرف رخت سفر باندھا۔ وہاں پہنچ کر آپ محلہ واسرائے میں
قیام پذیر ہوئے۔ یہاں سے حضرت خواجہ عبیداللہ احرار علیہ الرحمة کی خانقاہ عالیہ
تقریبًا چھ میل کے فاصلے پر تھی۔
حضرت خواجہ احرار کو بذریعہ کشف معلوم ہوا کہ حضرت
مولانا محمد زاہد علیہ الرحمة ہماری ملاقات کے لئے آرہے ہیں تو آپ نے دل میں ارادہ
فرمایا کہ ہمیں آگے جاکر ان کا استقبال کرنا چاہیئے۔ حالانکہ سخت گرمی پڑرہی تھی
اور دوپہر کا وقت تھا۔ آپ نے اپنے خادمین سے فرمایا ہماری سواری کا اونٹ لاؤ اور آپ
اس پر سوار ہوئے اور مریدین کو ساتھ لے کر چل پڑے۔
کسی کو مجال نہیں تھی کہ استفسار
کرتا کہ حضرت اس وقت سخت گرمی کے عالم میں کہاں تشریف لے جارہے ہیں۔ آپ نے بھی اونٹ
کو اس کے حال پر چھوڑدیا کہ جہاں چاہے چلا جائے۔ بالآخر اونٹ محلہ واسرائے میں حضرت
خواجہ محمد زاہد علیہ الرحمة کی قیام گاہ کے سامنے ٹھہر گیا۔ آپ اونٹ سے اترے، اسی
اثناء میں حضرت خواجہ محمد زاہد قدس سرہ کو بھی معلوم ہوگیا کہ حضرت خواجہ عبیداللہ
احرار رحمة اللہ علیہ تشریف لائے ہیں۔ آپ بے اختیار دوڑے آئے اور حضرت کا استقبال
کیا اور آپ کی پابوسی کا شرف حاصل کیا۔ اس کے بعد آپ حضرت کو ساتھ لے کر اندر تشریف
لے گئے اور خلوت میں جاکر اپنے واردات و معاملات و مقامات حضرت خواجہ احرار کی خدمت
میں گوش گذار کردیئے اور بیعت ہونے کی خواہش کا اظہار فرمایا۔ حضرت خواجہ نے آپ کو
اسی وقت بیعت فرمالیا اور اسی مجلس میں آپ پر ایسی توجہ فرمائی کہ تمام منازل طے
فرمادیں اور تکمیل کے درجہ تک پہنچادیا اور ساتھ ہی خلافت عطا کرکے آپ کو وہیں سے
رخصت بھی عنایت فرمادی۔ یہ دیکھ کر حضرت کے بعض مریدین آتشِ حسرت میں بے اختیار
حضور کی خدمت میں عرض گذار ہوئے کہ ہمیں کئی برس ہوگئے خدمت بجالاتے ہوئے، لیکن
ایسی مہربانی نہیں ہوئی جیسی کہ آپ نے حضرت مولانا زاہد پر فرمائی کہ پہلی صحبت میں
ہی نوازدیا۔ آپ نے فرمایا کہ مولانا زاہد، چراغ، تیل اور بتی تیار کرکے ہمارے پاس
آئے تھے، ہم نے صرف روشن کرکے رخصت کردیا۔
اللہ
اللہ! خداوند قدوس نے اپنے پیارے بندوں کو کیا قوت اور
استعداد عطا فرمائی ہے۔ یہ واقعہ حضرت خواجہ احرار کے عظیم تصرف اور حضرت خواجہ
مولانا زاہد کے کمال استعداد و قابلیت پر دلالت کرتا ہے۔
حضرت خواجہ عبیداللہ احرار رحمة اللہ علیہ نے دین کی ترقی و ترویج کے لئے بے پناہ
کام کیا اور اپنے بعد اپنے خلفاء کو
چھوڑا تاکہ یہ مشن جاری و ساری رہے۔ آپ کے خلفاء میں سب سے بڑے اور معظم خلیفہ حضرت
خواجہ محمد زاہد وخشی رحمة اللہ علیہ ہیں
حضرت خواجہ محمد زاہد علیہ الرحمة نے اجازت کے بعد تبلیغ پر کمر
کس لی اور دین کی اشاعت میں بھرپور حصہ لیا اور ایک دنیا نے آپ سے فیض حاصل کیا اور
مقامات و کمالات کے درجات طے کئے۔ آپ حضرت خواجہ احرار قدس سرہ کے خلیفۂ اعظم تھے
اور علومِ ظاہر و باطن کے ساتھ ساتھ فقر و تجرید اور توحید و ورع میں مقاماتِ عالیہ
پر فائز المرام تھے۔
آپ کے حالات باوجود تلاش بسیار کے زیادہ نہ مل سکے۔ آپ یکم ربیع
الاول
۹۳۶ھ
بمطابق
۱۵۲۹ع
کو وخش میں ہی واصل بحق ہوئے اور وہیں پر آپ کا مزار
پرانوار ہے، جہاں سے لوگ فیوض و برکات حاصل کرتے ہیں۔
مآخذ۔ حضرات القدس، تذکرہ مشائخ نقشبندیہ، تذکرہ نقشبندیہ
خیریہ، نفحات القدس

حضرت خواجہ درویش محمد
رحمۃ اللہ تعالیٰ علی
آپ نہایت ہی عظیم المرتبت اور صاحب فضیلت بزرگ تھے لیکن مخلوق
کی کثرت سے بچنے کے لیے آپ نے بچوں کو تعلیم و تدریس دینی شروع کردی تھی۔ اسی لئے
لوگ آپ کو ایک مولوی ہی سمجھتے تھے اور آپ نے بھی اسی کو غنیمت جانا اور اسی پر
پوری توجہ رکھی۔
ایک روز حضرت نور الدین خوانی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے علاقے میں
آئے تو اپنے فرزند ارجمند حضرت خواجہ امکنگی رحمۃ اللہ علیہ سے حضرت شیخ سے ملاقات
کرنے کی خواہش کا اظہار فرمایا اور اپنے فرزند عزیز کے ہمراہ حضرت شیخ نورالدین
خوانی کی ملاقات کے لئے تشریف لے گئے۔ جب آپ حضرت شیخ نورالدین کی خدمت میں پہنچے
تو اس وقت حضرت شیخ ٹوپی اور کرتہ پہنے ہوئے بے تکلف بیٹھے تھے۔ آپ کو دیکھ کر حضرت
شیخ فورًا اٹھے اور پرجوش معانقہ کیا اور بڑی دیر تک بغلگیر رہے۔ پھر حضرت شیخ نے
اپنی دستار مبارک سر پر سجائی اور جبہ مبارک زیب تن فرمایا اور دوزانو مراقب ہوکر
آپ کے حضور بیٹھ گئے۔ جب تک آپ وہاں تشریف فرما رہے حضرت شیخ اسی حالت میں رہے۔ جب
آپ نے واپسی کا قصد فرمایا تو حضرت شیخ نے کچھ دور چل کر آپ کو رخصت فرمایا۔
اس کے
بعد حضرت شیخ نے لوگوں سے پوچھا کہ طالبان معرفت و حقیقت کی ان بزرگ کے پاس کافی
آمد و رفت ہوگی تو لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت یہ تو کوئی شیخ نہیں ہیں بلکہ یہ تو
ایک مولوی ہیں جو بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت شیخ نے
فرمایا کہ یہاں کے لوگ کس قدر نابینا اور مردہ دل ہیں کہ ایسے ولی کامل اور مرد
قلندر سے اکتساب فیض نہیں کرتے۔
حضرت شیخ کے اس کلام کے مشہور ہوتے ہی آپ کے پاس طالبان خدا کا
تانتا بندھ گیا۔ لوگ آپ کی خدمت میں آکر معرفت الٰہی کی تحصیل کرنے لگے، لیکن آپ
ہمیشہ اپنی عزلت اور گوشہ نشینی کو یاد فرماتے۔
حضرت خواجہ درویش رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے ماموں حضرت خواجہ محمد
زاہد وخشی رحمۃ اللہ علیہ سے نیابت و خلافت حاصل تھی۔ بیعت سے تقریبًا پندرہ سال
پہلے ہی آپ کے بے چین اور خدا کی محبت کے طالب دل کو کسی کل چین نہیں پڑتا تھا اور
ہمہ وقت زہد و عبادت میں مشغول رہتے اور خلوت نشینی کی حالت میں بغیر کھائے پیئے
اکثر ویرانوں کی سیر کرتے تھے۔ اسی عالم میں ایک روز بھوک کی شدت کے باعث آپ نے
اپنا رخ انور آسمان کی طرف اٹھایا تو اسی وقت حضرت خضر علیہ السلام کو اپنے سامنے
موجود پایا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے اپ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ اگر صبر و قناعت
مطلوب ہے تو حضرت خواجہ محمد زاہد علیہ الرحمۃ کی خدمت میں جاکر قدمبوسی کا شرف
حاصل کرو اور ان کی صحبت کو اختیار کرو، وہ تمہیں صبر و قناعت سکھادیں گے۔ اتنا
سننا تھا کہ آپ اسی وقت حضرت خواجہ محمد زاہد علیہ الرحمۃ کی طرف چل دیئے اور آپ کی
خدمت میں پہنچ کر شرف بیعت حاصل کیا اور مسلسل ریاضت و مجاہدے سے درجہ کمال و ارشاد
تک پہنچے، اور حضرت خواجہ محمد زاہد علیہ الرحمۃ کے انتقال فرمانے کے بعد آپ جانشین
مقرر ہوئے اور آپ کے طریقۂ عالیہ کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔
آپ کے بچپن کے حالات پردہ اخفاء میں ہیں۔ صرف اسی قدر پتہ چلتا
ہے کہ آپ
۱۶
شوال
۸۴۶
ھجری بمطابق
۶
فروری
۱۴۴۴ع
کو اسقرار (ترکی کے ایک گاؤں) میں
پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ ماجدہ نہایت بزرگ خاتون اور ولی کامل عارف باللہ کی ہن
تھیں۔ اسی نسبت سے آپ کی تربیت پر خاص توجہ دی گئی۔
آپ پر بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ کی محبت و معرفت کا غلبہ رہتا تھا
اسی لئے آپ نے تہنائی کو پسند فرمایا۔ لیکن حضرت خواجہ محمد زاہد علیہ الرحمۃ کے
وصال کے بعد آپ زیادہ عرصہ مخلوق کی نگاہوں سے پوشیدہ نہ رہے اور اللہ تبارک و
تعالیٰ نے آپ کے مراتب عالیہ کو مخلوق پر ظاہر فرمایا۔
آپ کے ایک ہمعصر بزرگ حضرت خواجہ حسین خوارزمی علیہ الرحمۃ اپنے
وقت کے مقتدر اور صاحب نسبت و تصرف بزرگ تھے۔ آپ جہاں کہیں بھی تشریف لے جاتے وہاں
کے مشائخ کی آپ کے روحانی تصرف کے سامنے کوئی حیثیت نہ رہتی اور جو بزرگ و درویش آپ
سے ملاقات کے لئے آتا، آپ روحانی توجہ سے اس کی باطنی نسبت سلب فرمالیتے۔ ہوتے ہوتے
یہ بات حضرت خواجہ درویش محمد رحمۃ اللہ علیہ تک بھی جا پہنچی، لیکن آپ نے کوئی
توجہ نہ فرمائی۔ ایک مرتبہ حضرت خواجہ حسین خوارزمی علیہ الرحمۃ کا گذر آپ کے علاقے
سے ہوا تو حضرت خواجہ درویش محمد علیہ الرحمۃ نے بھی حضرت خواجہ حسین سے ملاقات کا
ارادہ ظاہر فرمایا اور کہا کہ ہم کو بھی حضرت خواجہ حسین کی ملاقات کے لئے جانا
چاہیئے۔ یہ کہہ کر آپ نے توجہ فرمائی اور حضرت خواجہ حسین کی نسبت اپنے باطن میں
سلب فرمالی۔ ادھر حضرت خواجہ حسین نے اپنے آپ کو نسبت سے خالی پایا تو نہایت درجہ
حیران اور پریشان ہوئے، ادھر حضرت خواجہ درویش محمد علیہ الرحمۃ آپ سے ملاقات کے
لئے سواری پر سوار ہوئے تو حضرت خواجہ حسین نے اپنے باطن میں نسبت کی خوشبو پائی۔
اسی وقت سواری کا اونٹ منگوایا اور اس خوشبو کی طرف چل دیئے۔ جس قدر آپ اس خوشبو سے
قریب ہوتے چلے جاتے اپنی گم شدہ نسبت کی خوشبو زیادہ محسوس کرتے۔ آخر راستے میں
دونوں بزرگوں کی ملاقات ہوئی تو وہ خوشبو بھی یکدم ختم ہوگئی۔ اس وقت خواجہ حسین
علیہ الرحمۃ نے جانا کہ میری نسبت حضرت خواجہ درویش محمد علیہ الرحمۃ نے سلب فرمالی
ہے۔ آپ اسی وقت حضرت خواجہ کے قدموں پر گر پڑے اور نہایت عاجزی و انکساری کا اظہار
فرمایا اور عرض کیا کہ حضرت مجھے علم نہ تھا کہ یہ اقلیم آپ کے زیر حکومت ہے۔ مجھے
معاف فرمائیے اور اب میں یہاں سے جانا چاہتا ہوں۔ آپ کو حضرت خواجہ حسین کی آہ و
زاری پر رحم آگیا اور آپ نے ان کی باطنی نسبت واپس فرمادی۔ جیسے ہی حضرت خواجہ حسین
نے اپنے باطن کو نسبت سے معمور محسوس کیا تو اسے غنیمت جان کر اسی سواری پر انہی
قدموں اپنے وطن مالوف کی طرف روانہ ہوگئے۔
یہ تھا آپ کا باطنی تصرف اور روحانی مقام کہ جہاں پر آپ قیام
فرماتے تھے لوگوں کو فیض سے نوازتے تھے تو کسی دوسرے کو وہاں تصرف حاصل نہ ہوتا
تھا۔ آپ کی ذات اقدس کے باعث طریقہ عالیہ نقشبندیہ کو بڑا فروغ حاصل ہوا اور ایک
خلق نے آپ سے تکمیل کے مراحل طے فرمائے۔
آپ بروز جمعرات
۱۹
محرم الحرام
۹۷۰ھ
بمطابق
۱۵۶۲عیسوی
کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ آپ کا مزار اقدس آپ کے آبائی گاؤں اسقرار (ماوراء
النہر) میں ہی مرجع خاص و
عام ہے۔

حضرت خواجہ محمد امکنگی
رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ محمد مقتدیٰ رحمۃ
اللہ علیہ بخارا کے ایک گاؤں امکنہ میں
۹۱۸ھ
بمطابق
۱۵۱۲
یا
۱۵۱۳ع
کو قطب عالم حضرت
خواجہ درویش محمد رحمۃ اللہ علیہ کے گھر تولد ہوئے۔ اسی نسبت کی وجہ سے امکنگی
کہلاتے ہیں۔
آپ کے والد ماجد اپنے زمانے کے اولیائے کاملین میں سے تھے۔ آپ
کی یہ خوش نصیبی و خوش بختی تھی کہ آپ نے جس ماحول میں آکھ کھولی وہ خالص دینی اور
تقویٰ کا ماحول تھا۔ آپ کی والدہ ماجدہ نہایت بزرگ خاتون تھیں۔ جب والدین صاحبِ
تقویٰ ہوں اور مقربین بارگاہ الٰہی بھی ہوں تو اولاد پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے
ہیں۔
خداوند تعالیٰ نے آپ سے عظیم کام لینا تھا، اس لئے بچپن سے ہی بزرگی کے آثار
آپ کے چہرۂ انور پر ہویدہ تھے۔ والدین نے بھی اس چیز کو ملحوظ خاطر رکھا اور آپ کی
بہترین تربیت فرمائی۔ آپ نے اپنے والد بزرگوار کے دست حق پرست پر ہی سلسلۂ عالیہ
نقشبندیہ میں بیعت فرمائی اور اپنے والد بزرگوار کے قلب منور سے خوب نور کمال و
فروغ اکمال کا کسب کیا۔ آپ کی طبعی استعداد اور ذاتی قابلیت نے اس نسبت کے حسن میں
چار چاند لگادیئے۔ سیر و سلوک کی تکمیل کے بعد خرقۂ خلافت بھی اپنے والد بزرگوار
حضرت خواجہ درویش محمد رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کیا۔ لیکن آپ کی طبیعت مبارکہ پر بھی
عاجزی و انکساری کا غلبہ رہتا تھا اس لئے آپ نے مخلوق کے اژدہام سے خود کو پوشیدہ
رکھا۔
ایک عرصہ تک لوگوں کو علم نہ ہوسکا کہ حضرت کی روحانی استعداد کیا ہے۔ لیکن
حق سبحانہ و تعالیٰ کو منظور ہوا کہ آپ سے طالبان طریقت کی تربیت کا کام لیا جائے
تو آپ اولیائے عزلت کے گوشہ سے نکل کر اولیائے عشرت کی انجمن میں تشرف لے آئے۔
چنانچہ آپ کو حکم ہوا کہ مخلوق کی تربیت و ہدایت کے لئے کام کریں۔ اس کے بعد
طالبانِ طریقت اور تشنگانِ معرفت کا رجوع آپ کی طرف ہوا۔ کسی کو خواب کے ذریعہ آپ
کی طرف رہنمائی کی گئی، کسی نے دوسروں سے سن سناکر اور کسی نے آپ کے تربیت یافتہ
افراد کو دیکھ کر آپ کی طرف رجوع کیا۔ چنانچہ بہت سے خفتہ دل آپ کی صحبت کی برکت سے
خواب غفلت سے بیدار ہوئے اور بہت سے فاضل آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے۔ منجملہ
ان افراد کے آپ کے حلقۂ ارادت میں حضرت مولانا درویش علیہ الرحمۃ بھی تھے جو اپنے
زمانے کے مقتدر علماء میں سے تھے اور صاحب تصنیف و تالیف بزرگ تھے جو چالیس سال تک
علوم نقلیہ و عقلیہ کی اشاعت فرماتے رہے۔
حضرت
مخدوم خواجہ امکنگی رحمۃ اللہ علیہ تیس برس تک اپنے والد
ماجد کے مسند مشیخیت پر جلوہ افروز رہے۔
آپ خواجہ خواجگان بہاؤالدین نقشبند قدس سرہ کے اصل طریقہ
نقشبندیہ کی بڑی سختی سے پابندی فرماتے تھے۔ اس طریقہ میں جو نئی باتیں پیدا ہوگئی
تھیں، مثلا ذکر بالجہر، اذان و جماعتِ تہجد وغیرہ ان سے پرہیز فرماتے۔
آپ کی طبیعت مبارکہ میں انتہا درجہ کی انکساری تھی۔ آپ پر دیدۂ
قصور کا غلبہ رہتا تھا۔ ایک دن کسی نے عرض کیا کہ حضرت مسجد کا راستہ بلندی پر ہے
اور حضرت کو بڑھاپے کے باعث کمزوری لاحق رہتی ہے۔ اگر عصر، مغرب و عشاء کی نمازیں
مسجد میں ادا کرکے ایک ہی بار واپس جایا کریں تو زیادہ بہتر ہو، کیونکہ تین بار آنا
جانا ضعیفی میں خاصہ مشکل ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا ”جیسی نمازیں ہم پڑھتے ہیں اس میں
بس مسجد میں آنا جانا ہی تو کام ہے، باقی ہماری نمازوں میں کیا رکھا ہے۔“ تمام
مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کی خاطر تواضع اور شگفتگی آپ کے بوستانِ کردار کا حصہ
تھا۔ اگر کوئی مہمان آپ کے گھر آجاتا تو بڑھاپے کے باوجود کہ آپ کے مبارک ہاتھوں
میں لرزہ تھا، آپ خود بنفس نفیس اس کی خدمت میں مصروف ہوجاتے، اس کے لئے خود
دسترخوان بچھاتے، بسا اوقات مہمان کی سواری اور خادم تک کی خود خبرگیری فرماتے۔
عبداللہ
خان والئ نوران نے خواب میں دیکھا کہ ایک عظیم الشان
خیمہ لگا ہے جس میں حضور سید المرسلین صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم رونق افروز ہیں۔
ایک بزرگ بارگاہ اقدس کے دروازے پر ہاتھ میں عصاء لئے تشریف فرما ہیں اور لوگوں کی
معروضات حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ میں پیش کرکے جواب لارہے ہیں۔ چنانچہ
حضور اقدس صلّی اللہ علیہ وسلم نے اس بزرگ کے ہاتھ ایک تلوار مجھے ارسال فرمائی اور
انہوں نے آکر میری کمر میں باندھ دی۔ اس کے بعد عبداللہ خاں کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے
بزرگ کے حلیہ مبارک کو ذہن میں محفوظ رکھا اور بزرگ کی تلاش و جستجو میں مصروف رہا۔
حتی الوسع اپنے مقربوں اور درباریوں سے اس بزرگ کا سراپا بیان کرکے ان کے متعلق
دریافت کرتا رہا۔ کافی عرصہ کے بعد اس کا ایک مصاحب حضرت خواجہ امکنگی علیہ الرحمۃ
کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو اس نے آپ کو بادشاہ کے بتائے ہوئے حلیہ کے مطابق پایا۔
وہ فورًا وہاں سے عبداللہ خاں کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اس حلیہ کے بزرگ
جن کو آپ نے بیان فرمایا حضرت مولانا خواجگی امکنگی ہیں۔ بادشاہ بڑا خوش ہوا اور
بڑے شوق سے ہدایا و تحائف لے کر حاضر خدمت ہوا، آپ کو بعینہ وہی پایا جو خواب میں
دیکھا تھا۔ بادشاہ نے نہایت تواضع و انکساری کا اظہار فرمایا اور نذرانہ قبول کرنے
کیلئے التماس کی، مگر آپ نے قبول نہ فرمایا بلکہ ارشاد فرمایا فقر کی حلاوت و
شیرینی، نامرادی و قناعت میں ہے۔ بادشاہ نے آیہ شریفہ (ترجمہ۔ حکم مانو اللہ اور اس
کے رسول کا اور ان کا جو تم میں اختیار والے ہیں) پیش کی، تب آپ نے مجبورًا قبول
فرمالیا۔ بادشاہ وقت ہر روز صبح کے وقت نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ آپ کی
قدمبوسی کے لئے حاضر ہوا کرتا تھا۔
آپ عزیمت کے بڑے پابند تھے اور آپ کی کوئی خانقاہ نہ تھی۔ آپ کو
انتہا درجہ کی تمکین حاصل تھی۔ آپ کی مجلس میں رقص و سماع کی گنجائش نہ تھی۔ ایک
مرتبہ بعض مخلصین نے درخواست کی کہ کیا حرج ہے اگر آپ کی مبارک مجلس میں مثنوی
مولانا روم پڑھی جائے۔ اپ نے ارشاد فرمایا کہ مشکوۃ شریف کی چند حدیثیں پڑھی جایا
کریں، بلاشبہ احادیث کا پڑھا جانا زیادہ بہتر ہے۔
ایک دفعہ تین طالب علم مختلف ارادوں سے آپ کی خدمت میں حاضر
ہوئے۔ ایک نے نیت کی اگر حضرت فلاں قسم کا کھانا کھائیں تو بیشک صاحب کرامت ہیں،
دوسرے نے دل میں سوچا کہ اگر فلاں قسم کا میوہ عنایت فرمائیں تو ولئ کامل ہیں،
تیسرے نے خیال کیا کہ اگر فلاں لڑکے کو مجلس میں حاضر کردیں تو صاحب خوارق ہیں۔
حضرت اقدس نے پہلے دونوں کو تو ان کے خیال کے مطابق عطا فرمادیا، مگر تیسرے کو
فرمایا کہ درویشوں نے جو کمالات حاصل کئے ہیں وہ صاحبِ شریعت علیہ السلام کی اتباع
سے حاصل کئے ہیں، لہٰذا درویشوں سے کوئی کام خلاف شریعت صادر نہیں ہوسکتا۔ اس کے
بعد تینوں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ امر مباح کی نیت سے بھی درویشوں کے پاس نہیں آنا
چاہیئے کیوکہ بسا اوقات وہ ایسے کاموں کی طرف توجہ نہیں کرتے اور آنے والے بداعتقاد
ہوکر ان کی صحبت کی برکات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ فقراء کے ہاں کرامتوں کا کوئی
اعتبار نہیں، ان کے پاس خالصۃ لوجہ اللہ آنا چاہیئے تاکہ فیض باطنی کا کچھ حصہ مل
سکے۔
عبداللہ خاں کی طرف سے ہرات کے حاکم سلطان کے چچا نے جب تراکمہ
کے ہاتھوں شہادت پائی تو اس کا بھائی باقی خان اپنے والد اور تمام بھتیجوں کو لے کر
ماوراء النہر کی طرف چلا گیا۔ پیر محمد خان نے سمرقند کی حکومت ان لوگوں کے سپرد
کردی، لیکن کچھ دن بعد پیر محمد خاں کے دل میں ان لوگوں کی طرف سے بدگمانی اور ایک
گونہ خوف پیدا ہوگیا۔ چنانچہ اس نے پچاس ہزار سواروں کے ساتھ سمرقند پر پڑھائی
کردی۔ حاکم سمرقند باقی محمد خاں اور اس کے بھتیجوں نے حضرت مولانا امکنگی علیہ
الرحمۃ کو بیچ میں ڈال کر رحم کی درخواست کی، اس پر آپ نے پیر محمد خاں کے پاس
تشریف لے جاکر اسے نصیحت کی مگر وہ کسی صورت بھی صلح و آشتی پر رضامند نہ ہوا، اس
پر آپ خفا ہوکر واپس آگئے اور باقی محمد خاں سے فرمایا کہ تو دل سے تائب ہوجا کہ
آئندہ خلقِ خدا پر کوئی ظلم و تشدد نہ کرے گا۔ اس نے آپ سے عہد کیا اور سچی توبہ کی
تو آپ نے فرمایا جاؤ جاکر حملہ کرو، ماوراء النہر کی سلطنت تجھے مبارک ہو۔ یہ
فرماکر باقی خاں کی پشت پر دست شفقت رکھا اور اپنی تلوار مبارک اس کی کمر پر باندھ
کر روانہ کیا۔ اس کے پیچھے پیچھے آپ بھی درویشوں کی ایک جماعت کے ساتھ روانہ ہوئے
اور شہر کے کنارے ایک پرانی مسجد میں قبلہ رو ہوکر مراقب ہو بیٹھے۔ بار بار سر اقدس
اٹھاکر پوچھتے تھے کہ
کیا خبر ہے۔ دریں اثنا یہ خبر آئی کہ باقی محمد خاں نے فتح
پائی اور پیر محمد خان مارا گیا ہے۔ اس پر آپ مراقبہ سے اٹھ کر اپنی قیام گاہ پر
تشریف لے آئے۔
ایک رات حضرت مخدومی خواجگی کسی جگہ تشریف لے جارہے تھے۔ آپ کا
ایک ارادتمند ننگے پیر چند خدام کے ہمراہ ساتھ ہی چل رہا تھا کہ اتفاقًا اس کے پاؤں
میں کانٹا چبھا۔ اس کے دل میں خیال آیا کہ کیا اچھا ہو اگر حضرت کی اس سلسلہ میں
مجھ پر کچھ عنایت ہو۔ یہ خیال کیا ہی تھا کہ حضرت مولانا اسی وقت اس کی طرف متوجہ
ہوئے اور فرمایا اے بھائی جب تک پاؤں میں کانٹا نہ چبھے پھول ہاتھ نہیں آتا۔
آپ کی عمر مبارک نوے سال کو پہنچی تو آپ نے اپنے خلیفۂ
اعظم
حضرت خواجہ محمد باقی باللہ قدس سرہ کو خط لکھا، جس میں آپ نے بعد اظہار و اشتیاق
دو شعر لکھے جن کا ترجمہ یہ ہے
مجھے ہر گھڑی موت یاد آتی ہے نہ جانے کیا پیش آنے والا ہے۔ مجھے
ہردم وصل خدا رہے، اس کے بعد جو کچھ پیش آنا ہے پیش آئے۔
اس خط کے پہنچنے کے کچھ دن بعد ہی آپ کے وصال کی خبر بھی آگئی۔ آپ
کا وصال مبارک
۲۲
شعبان کو
۱۰۰۸ھ
بمطابق
۱۶۰۰ع
امکنہ میں نوے سال کی عمر مبارکہ میں
ہوا۔ وہیں پر آپ کا مزار مبارک مرجع خاص و عام ہے۔ برصغیر پاک و ہند کی سرزمین آپ
کی احسانمند ہے اور تاقیامت آپ کے لئے دعاگو ہے کہ آپ نے اپنے خلیفۂ اعظم حضرت
خواجہ محمد باقی باللہ قدس سرہ کو یہاں بھیجا تاکہ روحانیت کی پیاسی یہ سرزمین بھی
سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ کے فیوض و برکات سے مستفید و مستفیض ہو۔

حضرت خواجہ محمد باقی باللہ
رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت
باقی باللہ قدس سرہ کی ولادت
۵
ذوالحج
۹۷۱ھ
یا
۹۷۲ھ
میں کابل میں ہوئی۔
تصوف و طریقت کی تعلیم حضرت خواجہ محمد امکنگی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی۔ نیکی
تقویٰ و صلاحیت کے پیش نظرحضرت امکنگی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو اجازت و خلافت سے
نواز کر اشاعت اسلام کے لئے ہندوستان بھیجا۔ آپ ہی پہلے وہ بزرگ ہیں جنہوں نے
سرزمین ہند کے لوگوں کو طریقہ عالیہ نقشبندیہ سے آشنا کیا۔
کابل سے ہجرت کرکے پہلے
آپ لاہور تشریف فرما ہوئے، کچھ عرصہ لاہور میں قیام کے بعد دہلی تشریف لے گئے اور
آخر تک وہیں قیام فرما رہے۔ آپ کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ حضرت امام ربانی
مجدد و منور الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے خلیفہ و نائب ہیں۔ نیز بین الاقوامی
شہرت کے حامل محدث و فقیہ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ بھی آپ سے
فیضیاب ہوئے اور انہوں نے اپنے رسالہ موصل المرید الیٰ المراد میں یہ تصریح فرمائی
کہ نسبت فنا و بقا حاصل کرنے کے لیے طریقہ عالیہ نقشبندیہ سے بہتر اور کوئی طریقہ
نہیں۔ عجز و انکساری (جو کہ فقیری کا ایک خاصہ ہے) کا آپ پر اس قدر غلبہ رہتا تھا
کہ اگر کسی فقیر سے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی تو فرماتے تھے ”یہ فقیر بیچارے کیا کریں،
یہ تو ہماری صفت کا اثر ہے جو اس پر منعکس ہوا ہے“ رزقِ حلال کا آپ خصوصی احتمام
فرماتے تھے اور فقیروں سے فرماتے تھے اگر تم ایک ہزار سال تک بھی ذکر کرتے رہو مگر
تمہارا کھانا رزق حلال مال سے نہیں ہے تو تمہارا روحانی مقصد کبھی حاصل نہیں
ہوسکتا۔ صرف کھانا ہی نہیں بلکہ جلانے کے لکڑی، برتن اور پانی بھی حلال ذرائع سے
حاصل ہونی چاہیے۔
آپ فرماتے تھے کہ ہمارے طریقہ کا مدار تین باتوں پر ہے۔
1.
اہل سنت والجماعت کے عقائد پر ثابت قدم رہنا۔
2.
دوام آگاہی۔
3.
عبادت الٰہی۔
کسی نے آپ سے عرض کیا کہ حضرت اللہ تعالیٰ کی محبت کی علامت کیا ہے؟ جواب میں
ارشاد فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکمل اتباع کرنا۔ اس مخلص نے دوبارہ
عرض کیا ممکن ہے کہ اتباع کرنیوالے کا مقصود حصول جنت یا جہنم کے عذاب سے نجات ہو؟
فرمایا ایسا تابعداری کرنے والا کچا ہے مکمل اتباع کرنے والا نہیں ہے۔
۲۵
جماد الثانی
۱۰۱۲ھ
بروز ہفتہ سورج غروب ہونے میں ابھی کچھ دیر تھی کہ آپ
بآواز بلند ذکر اسم ذات میں مشغول ہو گئے اور اللہ اللہ کہتے ہوئے روحانیت کا یہ
آفتاب رحمت الٰہی کی شفق میں غروب ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ عمر مبارک فقط
۴۰
چالیس برس ہوئی۔ آپ کا مزار پرانوار دہلی میں قطب روڈ پر قدم شریف کے نزدیک
زیارت گاہ خاص و عام ہے۔

حضرت شیخ المشائخ امام ربانی مجدد الف ثانی
شیخ احمد فاروقی سرہندی
رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت شیخ عبدالاحد رحمۃ اللہ علیہ جو اپنے زمانے کے بہت بڑے کامل ولی تھے انہوں
نےرات کو خواب
دیکھاکہ تمام جہان میں ظلمت پھیل گئی ہے۔ سور، بندر اور ریچھ لوگوں کو ہلاک
کررہے ہیں۔ اسی اثنا میں میرے سینے سے ایک نور نکلا اور اس میں ایک تخت ظاہر ہوا۔
اس تخت پر ایک شخص تکیہ لگائے بیٹھا ہے اور اس کے سامنے تمام ظالموں، زندیقوں اور
ملحدوں کی بکرے کی طرح ذبح کررہے ہیں اور کوئی شخص بلند آواز میں کہہ رہا ہے
”و
قل جآء الحق و ذہق الباطل، ان الباطل کان ذھوقا“
”اور
فرما دیجئے حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بیشک باطل مٹنے والا ہے“۔
اس
کے بعد آپ کی آنکھ کھل گئی
اور پھر آپ حضرت شیخ شاہ کمال کیتھلی رحمۃ اللہ
علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئےاور
اپنا
خواب بیان کیا اور آپ سے تعبیر پوچھی ۔
آپ نے فرمایا تمہارے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا جس سے الحاد و بدعت کی تاریکی دور
ہوگی۔ اور وقت نے ثابت کیا کہ یہ تعبیر حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی اور صرف آپ کے
لخت جگر نور نظر حضرت مخدوم شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے الحاد
و بدعت اور شرک و کفر کو ختم کیا۔ آپ کی ولادت باسعادت شہر سرہند کی پاک سرزمین پر
شب جمعۃ المبارک 14 شوال 971ھ بمطابق 1564ء کو ہوئی۔ آپ کا سلسلۂ نسب 32 بتیسویں
پشت پر جاکر سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مل جاتا ہے۔ اس کا اظہار آپ نے
اپنے مکتوب شریف میں فرمایا ہے۔ آپ کا نام مبارک ”احمد“ رکھا گیا۔ آپ دسویں صدی کے
واحد بزرگ ہیں کہ جن کے اشارے احادیث نبویہ میں بھی ملتے ہیں۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ بچپن میں نہایت سرخ و سفید
تھے۔ ایک مرتبہ بیمار ہوگئے اور بیماری اس قدر بڑھی کہ آپ نے ماں کا دودھ پینا چھوڑ
دیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگے۔ سب گھر والے آپ کی زندگی سے مایوس ہوکر مغموم اور
پریشان ہوگئے۔ لیکن خداوند قدوس نے تو آپ سے ایک عظیم کام لینا تھا۔ ابھی تو اس
سورج کو نصف النہار پر چمکنا تھا۔ اس لئے حضرت خواجہ شاہ کمال کیتھلی رحمۃ اللہ
علیہ آپ کے گھر تشریف لائے، گھر والوں نے آپ کی آمد کو رحمت خداوندی کا باعث جانا
اور حضرت کو اٹھاکر اسی حالت میں آپ کی گود میں ڈال دیا۔ حضرت شاہ صاحب نے اپنی
زبان فیض ترجمان بچے کے منہ میں دیدی۔ آپ نے اسی اچھی طرح چوسنا شروع کردیا۔ اس کے
بعد حضرت شاہ کمال کیتھلی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ ”مطمئن رہو، اس بچے کی عمر بڑی
ہوگی، اللہ تعالیٰ اس سے بہت کام لینا چاہتا ہے۔ میں آج اس کو اپنا بیٹا بناتا ہوں۔
یہ میری طرح ہی ہوگا۔“ اسی اثنا میں آپ کو مکمل صحت یابی حاصل ہوگئی۔
اکثر سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ حضرت مجدد نے اوائل عمر ہی میں
قرآن پاک حفظ کرلیا۔ لیکن آپ کے ایک مکتوب سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دولت قلعہ
گوالیار میں نظربندی کے زمانے میں حاصل ہوئی۔ اس کے بعد اپنے والد ماجد شیخ الاسلام
حضرت شیخ عبدالاحد کے مکتب سے آپ نے اس وقت کے مروجہ علوم و فنون کی تحصیل شروع
کردی اور مختلف علوم و فنون کی کتابیں پڑھیں۔ مزید تدریس کے لئے آپ سیالکوٹ تشریف
لے گئے۔ وہاں آپ نے حضرت علامہ مولانا کمال کشمیری علیہ الرحمۃ سے معقولات اور سند
لی، قاضی بہلول بدخشی علیہ الرحمۃ سے مختلف تفاسیر اور احادیث شریفہ کا درس
لیا۔
تحصیل علم سے فارغ ہونے کے بعد حضرت مجدد آگرے تشریف لے گئے اور
وہاں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ آپ کے حلقہ درس میں فضلائے وقت شریک ہوتے تھے۔
یہ سلسلہ کافی عرصہ تک چلا۔ آپ کے والد ماجد مخدوم حضرت شیخ عبدالاحد رحمۃ اللہ
علیہ آپ سے بڑی محبت رکھتے تھے، وہ آپ کے فراق میں بے چین ہوگئے اور باوجود ضعف و
کبرسنی سرہند شریف سے آگرے آگئے اور حضرت مجدد کو اپنے ساتھ ہی سرہند شریف لے گئے۔
سرہند شریف جاتے ہوئے راستے میں جب تھانیسر پہنچے تو وہاں کے رئیس شیخ سلطان کی
لڑکی سے حضرت مجدد کا عقد مسنونہ ہوگیا۔
حضرت مجدد نے ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ باطنی علوم یعنی معرفت
الٰہیہ کے لئے بھی سعی فرمائی اور متعدد شیوخ سے مختلف سلاسل طریقت میں اجازت و
خلافت حاصل فرمائی۔ سلسلۂ چشتیہ اور سلسلہ سہروردیہ میں اپنے والد ماجد حضرت شیخ
عبدالاحد رحمۃ اللہ
علیہ سے اجازت و خلافت حاصل فرمائی۔ سلسلۂ قادریہ میں حضرت شاہ سکندر رحمۃ اللہ
علیہ سے اجازت و خلافت حاصل فرمائی اور سلسلۂ نقشبندیہ میں خواجۂ خواجگان حضرت
خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل فرمائی۔
آپ کو حج بیت اللہ شریف اور زیارت روضۂ اقدس رسولِ اکرم صلّی
اللہ علیہ وسلم کا شوق مدت سے دامنگیر تھا۔ لیکن والد ماجد کی کبرسنی کے باعث اس
ارادے کو ملتوی رکھا۔ لیکن جب 27 جمادی الآخر 1007ھ بمطابق 1598ء میں اسی سال کی
عمر مبارک میں والد ماجد واصل بحق ہوئے تو اس کے دوسرے سال آپ نے قصدِ حج فرمایا
اور سرہند شریف سے روانہ ہوئے۔ جب دہلی پہنچے تو مولانا حسن کشمیری نے جو آپ کے
دوستوں میں سے تھے حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کی بہت تعریف و توصیف
فرمائی تو آپ کے دل میں اشتیاق پیدا ہوا اور حضرت خواجۂ خواجگان محمد باقی باللہ
رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ خواجہ صاحب کی طبیعت مبارک بڑی غیور تھی۔ وہ
خود کسی کو اپنی طرف متوجہ نہیں فرماتے تھے۔ لیکن یہاں معاملہ برعکس تھا۔ کیونکہ
طالب خود مطلوب اور مرید خود مراد تھا۔ یعنی حضرت خواجہ صاحب نے استخارہ میں جس
طوطی کو دیکھا تھا اور اس کی وجہ سے آپ نے ہندوستان کا سفر فرمایا تھا، اس وقت حضرت
مجدد صاحب کی صورت میں آپ کے سامنے موجود تھا۔ اسی لئے حضرت خواجہ باقی باللہ علیہ
الرحمۃ کا قول ہے کہ ”ہم نے پیری مریدی نہیں کی بلکہ ہم تو کھیل کرتے رہے۔ لیکن
اللہ تعالیٰ کا بڑا کرم و احسان ہے کہ ہمارے کھیل اور دکانداری میں گھاٹا نہیں رہا،
ہم کو شیخ احمد جیسا صاحب استعداد شخص مل گیا“۔ یہی وجہ ہے کہ خود مرشد برحق نے بڑھ
کر مرید و مراد صادق سے فرمایا کہ آپ کچھ عرصہ ہمارے پاس قیام فرمائیں۔ حضرت مجدد
بخوشی رضامند ہوگئے۔ مجدد صاحب کی اعلیٰ فطری استعداد اور قوی النسبت مرشد کی خصوصی
توجہ سے وہ روحانی احوال و مقامات جو برسوں کے مجاہدے سے حاصل ہوتے ہیں دنوں میں
حاصل ہوگئے۔ روحانی منازل میں آپ کی اس استعداد کو دیکھ کر مرشدِ روشن ضمیر کو یقین
ہوگیا کہ یہی وہ طوطئ خوشنوا ہے کہ جس کی خوشنوائی سے ہندوستان کیا بلکہ پورے عالم
اسلام کے چمنستان میں تازہ بہار آئے گی۔
حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ نے تمام روحانی نسبتیں
اور بشارتیں حضرت مجدد صاحب کو تفویض فرمادیں اور اپنے حلقے سے متعلق طالبین کو
ہدایت کی کہ وہ اب میری بجائے مجدد صاحب کی طرف رجوع کریں اور آپ کو سجادگی و ارشاد
و تربیت کی اجازت عطا فرمائی۔ دسویں صدی ہجری کے اختتام کا ہندوستان بڑی تیزی سے
ایک ہمہ پہلو دینی، تہذیبی اور ذہنی ارتداد کی طرف بڑھ رہا تھا اور اس شیطانی تحریک
کی پشت پر اپنے دور کی مضبوط ترین سلطنت اور فوجی طاقت کے ساتھ اپنے وقت کے متعدد
ذہن افراد کی علمی اور ذہنی کمک بھی موجود تھی۔ ان حالات میں اگر کوئی ذہین، روحانی
اور علمی میدان میں طاقتور شخصیت راستہ روکنے کے لئے کھڑی نہ ہوتی تو اسلام کی
حقیقت ختم ہوجاتی۔ ہندوستان کے اس وقت کے حالات کا اندازہ آپ کے ایک مکتوب
سے ہوتا
ہے جو آپ نے ایک مرید جو کہ دربار اکبری سے وابستہ تھے حضرت سید فرید بخاری علیہ
الرحمۃ کے نام لکھا ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں کہ
عہد اکبری میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ کفار غالب تھے اور
اعلانیہ دار الاسلام میں کفر کے احکامات جاری کرتے تھے اور مسلمان اپنے دین پر عمل
کرنے سے عاجز تھے۔ وہ اگر ایسا نہ کرتے تو قتل کردیئے جاتے۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ
وسلم اگرچہ رب العالمین کے محبوب ہیں، مگر عہد اکبری میں آپ کی تصدیق کرنے والے
ذلیل و خوار تھے اور آپ کے منکر صاحب عزت و افتخار مسلمان زخمی دلوں کے ساتھ اسلام
کی زبوں حالی پر تعزیت اور اس کی بربادی پر ماتم کررہے تھے۔ اور اسلام کے دشمن طنز
و استہزا سے ان کے زخموں پر نمک چھڑک رہے تھے۔
اس خط سے اکبر کی حکومت کے دور میں اسلام کی زبوں حالی کا نقشہ
ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔ اور اسی موضوع پر آپ کے متعدد مکتوبات شریف ہیں۔ یہ مکتوب
جہاں اکبر کے دور کی عکاسی کرتا ہے تو وہیں ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت بھی رکھتا
ہے۔ ہندوستان میں اسلامی معاشرے کی باگ ڈور ہمیشہ تین طبقوں کے ہاتھ رہی ہے، وہ اگر
ہدایت پر رہے تو معاشرے میں تعمیر و ترقی اور نیکی و بھلائی کو فروغ حاصل ہوا، وہ
بگڑے تو پورے معاشرے میں فساد پھیل گیا۔ پہ ادارے یہ تھے۔
1۔
دار العلوم یعنی مکاتیب و مدارس۔
2۔
خانقاہی یعنی روحانی و باطنی علوم و معارف کے مرکز۔
3۔
حکومت کہ جس کے ہاتھ میں ملک کی پوری سیاسی قوت تھی۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ان تینوں اداروں یا طبقوں
کی اصلاح فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں اسلامی تشخص کو بچانے کا کام حضرت
شیخ احمد فاروقی سرہندی کی جامع کمالات شخصیت سے لیا۔ آپ کے اصلاحی کام کا سب سے
اہم اور بنیادی نکتہ نبوی محمدی اور اس کی ابدیت و ضرورت پر امت مسلمہ میں اعتقاد
بحال کرنا اور اسے مضبوط و مستحکم کرنا تھا۔ یہی آپ کا سب سے بڑا انقلابی کارنامہ
ہے جو اس سے قبل کسی مجدد نے نہیں کیا۔
اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید آپ کی شامل حال تھی۔ آپ نبوی محمدی
علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام پر ایمان پر تجدید کی کنجی سے وہ بھاری بھرکم قفل کھول
دیتے جو یونانی اور ایرانی فلسفے اور مصری و ہندوستانی اشراقیت نے ایجاد کئے
تھے۔
آپ نے اصلاح و تجدید کیلئے جو طریقۂ کار وضع کئے ان میں سب سے
پہلے آپ نے دینی علوم کی ترویج و اشاعت اور تعلیم و تدریس کو لیا، جس کی ابتدا آپ
نے اپنے والد ماجد کے مدرسہ سے کی۔ دینی علوم کے طلباء و شائقین کی ذہن سازی فرمائی
اور اس کے ساتھ ہی باطنی اصلاح بھی۔
دوسرے نمبر پر آپ کا طریقۂ کار یہ تھا کہ صوفیائے کرام کے طریقے
پر انفرادی رابطے کو مضبوط کرنا۔ آپ نے سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ میں لوگوں کی بیعت
کرکے ان سے فسق و فجور سے توبہ کرائی اور آئندہ تقویٰ کے مطابق زندگی گذارنے کی
تلقین فرمائی۔ آپ کی روحانی توجہ و تصرف سے ہزاروں افراد فسق و فجور سے نکل کر
تقویٰ کی شاہراہ پر گامزن ہوگئے۔ اور بالخصوص علماء کرام میں ایک انقلاب پیدا ہوگیا
اور آپ نے بندگان خدا کی تعلیم و تربیت کیلئے اپنے تربیت یافتہ افراد کو |